رسول کریم ﷺ کے عورتوں پر احسانات

Ahsan Ahmad

محفلین
عورت… اسلام سے قبل
ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ؐ وہ پہلے مرد ہیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق کے لئے نہ صرف آوازبلند کی بلکہ ان کے حقوق قائم کرکے دکھائے۔ عورتوں پر آپ کے بے پایاں احسانات کا اندازہ کرنے کے لئے ہمیں اس دور میں جانا ہوگا۔ جس میں رسول کریم ﷺ کے زمانہ کی خواتین بود و باش رکھتی تھیں۔ اس معاشرہ میں عورت کی حیثیت کا اندازہ اس قرآ نی بیان سے بخوبی ہوتاہے کہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور سخت غمگین ہوجاتا ہے۔وہ لوگوں سے اس بُری خبر کی وجہ سے چھپتا پھرتا ہے کہ آیا وہ اس ذلت کو قبول کرلے یا اسے مٹی میں دبا دے۔کتنا بُرا ہے وہ ہے جوفیصلہ کرتے ہیں۔(سورۃالنحل:60)
عرب کے بعض قبائل میں غیرت و حمیت کے باعث لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا ظالمانہ رواج تھا۔ایک دفعہ نبی کریمؐ کے سامنے ایک شخص نے زمانہ جاہلیت میں اپنی بیٹی کو گڑھے میں گاڑ دینے کا دردناک واقعہ سنایا۔وہ ابا ابا کہتی رہ گئی مگر اُسے ترس نہ آیا اور اُسے زندہ دفن کر کے چھوڑا۔یہ سن کر نبی کریمؐ کا دل بھر آیا اور فرمانے لگے کہ جب وہ معصوم ابا ابا کہہ رہی تھی تو تمہیں اُس پر رحم نہ آیا۔
حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم جاہلیت میں عورت کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کے بارے میں قرآن شریف میں احکام نازل فرمائے اور وراثت میں بھی ان کو حقدار بنا دیا۔ایک دن میں اپنے کسی معاملہ میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی بولی اگر آپ اس طرح کرلیتے تو ٹھیک ہوتا۔مَیں نے کہا تمہیں میرے معاملہ دخل اندازی کی جرأت کیوں ہوئی؟وہ کہنے لگی تم چاہتے ہو کہ تمہارے آگے کوئی نہ بولے اور تمہاری بیٹی رسول اللہؐ کے آگے بولتی ہے۔(بخاری)1
عربوں کے دستور کے مطابق جاہلیت کے زمانہ میں بیوہ عورت خود شوہر کی وراثت میں تقسیم ہوتی تھی۔مرد کے قریبی رشتہ دار(مثلاً بڑا سوتیلا بیٹا) عورت کے سب سے زیادہ حق دار سمجھے جاتے تھے۔اگروہ چاہتے تو خود اس عورت سے شادی کرلیتے۔خود نہ کرنا چاہتے تو ان کی مرضی کے مطابق ہی دوسری جگہ شادی ہوسکتی ہے۔ عورت کا اپنا کوئی حق نہ تھا۔(بخاری)2
نبی کریمؐ نے بیوہ عورت کونکاح کا حق دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی ذات کے بارہ میں فیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔(بخاری)3
یتیم بچیوں کے حقوق کی کوئی ضمانت نہ تھی۔بعض دفعہ ایسی مالدار یتیم لڑکیوں کے ولی ان کے مال پر قبضہ کرنے کے لئے خود ان سے شادی کرلیتے تھے اور حق مہر بھی اپنی مرضی کے مطابق معمولی رکھتے تھے۔قرآن شریف میں ان بدرسوم سے بھی روکا گیا۔اور ارشاد ہوا کہ یتیم بچیوں سے انصاف کا معاملہ کرو۔(بخاری)4
اسلا م سے پہلے عورت کی ناقدری اور ذلت کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ اپنے مخصوص ایام میں اسے سب گھر والوں سے جدا رہنا پڑت اتھا ۔خاوند کے ساتھ بیٹھنا تو در کنار اہل خانہ بھی اس سے میل جول نہ رکھتے تھے۔(مسلم)5
آنحضرت ﷺ نے اس معاشرتی برائی کو دور کیا اور آپ کی شر یعت میںیہ حکم اترا کہ حیض ایک تکلیف دہ عارضہ ہے ان ایام میں صرف ازدواجی تعلقات کی ممانعت ہے عام معاشرت ہرگز منع نہیں۔(سورۃ البقرہ:223)
چنانچہ آنحضور ﷺ بیویوں کے مخصوص ایام میںان کا اور زیادہ لحاظ فرماتے ۔ان کے ساتھ مل بیٹھتے۔بستر میں ان کے ساتھ آرام فرماتے اور ملاطفت میں کوئی کمی نہ آنے دیتے ۔(ابودائود)6
خاوند کی وفات کے بعد عرب میں عورت کا حال بہت رسواکن اور بدتر ہوتا تھا۔اسے بدترین لباس پہنا کر گھر سے الگ تھلگ ویران حصہ میں ایک سال تک عدت گزارنے کے لئے رکھا جاتا۔سال کے بعد عربوں کے دستور کے مطابق کسی گزرنے والے کتے پر بکری کی مینگنی پھینک کر اس قید خانہ سے باہر آتی تھی۔(بخاری)7
عورتوں کا احترام
اس دور جہالت میں عورت کے ساتھ نفرت اور حقارت کے جذبات زائل کرنے کے لئے ہمارے آقا و مولا نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ مجھے تمہاری دنیا کی جو چیزیں سب سے زیادہ عزیز ہیں ان میں اول نمبر پر عورتیں ہیں۔پھر اچھی خوشبو مجھے محبوب ہے مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز اور محبت الہٰی میں ہی ہے۔(نسائی)8
ایک موقع پر نبی کریمؐ نے یہ اظہار فرمایا کہ بالعموم عورت مرد کے مقابل پر ذہنی صلاحیتوں میں نقص کے باوجود ایسی استعدادیں رکھتی ہیں کہ مردوں پر غالب آجاتی ہیں۔
نبی کریمؐ نے عورتوں کی درخواست پر ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک الگ دن مقرر فرمایا تھا جس میں ان کو وعظ فرماتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔(بخاری)9
نبی کریمؐ نے عورتوں کو معاشرتی دھارے میں برابر شریک کیا۔عیدین کے موقع پر تمام مردوں عورتوں بالغ بچیوں تک کو ان اسلامی تہواروں میں شریک کرنے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ اگر کسی لڑکی کے پاس پردہ کیلئے چادر نہ ہواور وہ عورتیں بھی جنہوں نے نماز نہیں پڑھنی اجتماع عید میں شامل ہوکر دعا میں ضرور شریک ہوجائیں۔(بخاری )10
نبی کریمؐ ماں بیٹی اور بہن اور بیوی کے طور پر عورت کی ایسی عزت اور احترام قائم کیا کہ تاریخ میں پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔آپ نے فرمایا کہ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔بیٹیاں زندہ درگور کرنے والوں کو آپؐ نے ان کی پرورش کرنے پر جنت کی بشارت دی۔آپؐ کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں تو آپ احترام میں کھڑے ہوجاتے۔بیویوں کی عزت اور احترام بھی آپ نے قائم کیا اور اسے گھر کی ملکہ بنایا۔فرماتے تھے کہ ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے حسن سلوک کرتے ہیں اور میں تم میں عورتوں س سلوک میں سب سے بہترہوں۔‘‘
عورتوں کے احترام اور ان کی نزاکت کا آپؐ کو بہت خیال تھا۔ایک سفر میں آپ کی بیویا ں اونٹوں پر سوار تھیں کہ حدی خواں انجشہ نامی نے اونٹوں کو تیز ہانکنا شروع کردیا ۔آنحضرت ﷺ فرمانے لگے’’ اے انجشہ۔تیرا بھلا ہو اذرا یہ نازک شیشے ہمرا ہ ہیں۔ ان آبگینوں کو ٹھیس نہ پہنچے ۔یہ شیشے ٹوٹنے نہ پائیں اونٹوں کو آہستہ ہانکو۔’’اس واقعہ کے ایک راوی ابو قلابہؓ بیان کیاکرتے تھے کہ دیکھو رسول کریمﷺنے عورتوں کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو شیشے کہا۔ یہ محاورہ اگر کوئی اور استعمال کرتا تو تم لوگ عورتوں کے ایسے خیر خواہ کو کب جینے دیتے ضرور اسے ملامت کرتے۔(مسلم)11
بلا شبہ رسول کریم ﷺ کا ہی حوصلہ تھا کہ اس صنف نازک کے حق میںآپ نے اس وقت نعرہ بلند کیا جب سارا معاشرہ اس کا مخالف تھا۔حقیقت یہ ہے کہ مرد ہوکر عورتوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کی منفرد مثال صرف اور صرف ہمارے نبی ﷺ کی ہے جو ہمیشہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جاتی رہے گی۔
وہ معاشرہ جس میں عورت کا کوئی حق نہیں سمجھاجاتا تھا اور ان سے گھر کی خادمائوں ،لونڈیوں سے بھی بدتر سلوک ہوتا تھا۔نبی کریمؐ نے اسے گھر کی ملکہ بنادیا اور فرمایاعورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے۔اور اس سے اس ذمہ داری کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔آپؐ نے عورت کے حق کھول کر بیان فرمائے۔
حضرت معاویہؓ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے اس سوال پر کہ ہم میں سے کسی ایک شخص کی بیوی کا ہم پر کیا حق ہے ۔رسول کریمؐ نے فرمایاکہ تم کھانا کھائوتو اسے بھی کھلائو،خود لباس پہنتے ہو تو اسے بھی پہنائو ۔یعنی اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق جو تمہارا اپنا معیار زندگی ہے اُسی کے مطابق بیوی کے حقوق ادا کرو اور اُسے سرزنش کرتے ہوئے چہرے پر کبھی نہ مارو اور کبھی بُرا بھلا نہ کہو اُس سے گالی گلوچ نہ کرو۔اور اُس سے کبھی جدائی اختیار نہ کرو مگرضرورت پیش آنے پر گھر کے اندر بستر سے جدائی اختیار کرنے کی اجازت ہے ۔ (ابودائود)12
جہاں تک مجبوری کی صورت میں عورت کو سزادینے کا ذکر ہے۔ اُس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے مرد کو جو گھر کاسربراہ اعلیٰ ہوتا ہے، صرف بے حیائی سے روکنے کیلئے اس کی اجازت دی ہے، مگر آنحضرتﷺ نے جب دیکھا کہ اس رخصت کا غلط استعمال ہورہا ہے تو آپؐ نے اس سے بھی منع کرتے ہوئے فرمایالَا تَضْرِبُوْا اِمَائَ اللّٰہِ۔ عورتیں تو اللہ تعالیٰ کی لونڈیاں ہیں، ان پر دست درازی نہ کیا کرو۔ ایک اور موقع پر بعض لوگوں کے بارے میں جب یہ پتہ چلا کہ وہ عورتوں سے سختی کرتے ہیں آپؐ نے فرمایاکہ لَیْسَ اُولٰئِکَ بِخِیَارِکُمْ ۔یعنی یہ لوگ تمہارے اچھے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔(نسائی)13
آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطاب فرمایا ہے وہ ایک نہایت ہی جامع اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس میں آپؐ نے عورتوں کے حقوق متعلق خاص طور پر تاکیدکی اور فرمایا کہ
دیکھو میں تمہیں عورتوں کے حقوق کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ بیچاریاں تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہی تو ہوتی ہیں۔تمہیں ان پرسخت روی کا صرف اسی صورت میں اختیار ہے کہ اگر وہ کسی بے حیائی کی مرتکب ہوں تو تم اپنے بستروں میں اُن سے جدائی اختیار کرسکتے ہو یا اس سے اگلے قدم کے طور پر انہیں کچھ سرزنش کرتے ہوئے سزا بھی دے سکتے ہو، مگر سزا بھی ایسی جسکا جسم کے اوپر کوئی نشان یا اثر نہ پیدا ہو۔اگروہ اطاعت کرلیں تو پھر اُن کیلئے کوئی اور طریق اختیار کرنا مناسب نہیں۔یادرکھوجس طرح تمہارے عورتوں کے اوپرکچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے تم پر بھی کچھ حق ،کچھ ذمہ داریاں اورفرائض ہیں جو تم پر عائد ہوتے ہیں۔ تمہارا حق عورتوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے لئے اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والی ہوں اورتمہاری مرضی کے سوا کسی کو تمہارے گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں ۔اور اُن کاحق تم پر یہ ہے کہ تم اُن کے ساتھ لباس میں، پوشاک میں اور کھانے پینے میں احسان کا سلوک کرنے والے ہو اور جس حد تک توفیق اور استطاعت ہے ، اُن سے حسن سلوک کرو۔(ترمذی)14









حوالہ جات
1
بخاری کتاب التفسیرسورۃ التحریم باب تبتغی مرضات ازواجک
2
بخاری کتاب التفسیر سورۃ النساء باب الایحل لکم ان ترکوا نسباء
3
بخاری کتاب النکاح باب الایم احق بنکاحھا
4
بخاری کتاب التفسیر سورۃ النساء باب قولہ وان خفتم ان لا تقسطو افی الیتامیٰ
5
صیحح مسلم کتاب الحیض باب جوازغسل الحاائض رأسن زوجھاوترجیلہ
6
ابو داؤد کتاب الطہارہ باب فی مواکلۃ الحائض
7
بخاری کتاب الطلاق باب الکحل للحادہ:4916
8
نسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء
9
بخاری کتاب العلم
10
بخاری کتاب العیدین
11
مسلم کتاب الفضائل باب فی رحمۃ النبی ﷺ
12
سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأۃ علی زوجھا۔1830
13
سنن ابی داؤدکتاب النکاح باب فی ضرب النساء1834
14
سنن الترمذی۔کتاب الرضاع۔ باب ماجا ء فی حق المرأۃ علی زوجھا۔1083

انتخاب از کتاب : اسوہ انسانِ کامل
 
Top