::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سیرت مبارک (مختصرا( 3

::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلِہ وسلم کی سیرت مُبارک ( مُختصراً ) :::::
::::: ( ٣ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہر ایک کے لیے اللہ کی رحمت تھے :::::
::: اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے ((( وَمَا اَرسلنٰکَ إِلَّا رَحمۃٌ لِلعَالَمِین ::: اور ہم نے آپ کو سب جہانوں کے لیے صِرف رحمت بنا کر بھیجا ہے ))) سورت الانبیا /آیت ١٠٧،
(((وَمَن اَصدق مِن اللَّہ قِیلا:::اور اللہ سے بڑھ کر سچ بولنے والا اور کون ہے)))لہذا یقیناً اللہ نے اپنے رسول مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا لہذا وہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اِنسانوں کے لیے ہی رحمت نہیں تھے ، بلکہ ساری مخلوق کے لیے رحمت تھے ،
::: ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے نام بتاتے ہوئے اِرشاد فرمایا ((( أنا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ والمقفی وَالْحَاشِرُ وَنَبِیُّ التَّوْبَۃِ وَنَبِیُّ الرَّحْمَۃِ :::میں محمد ہوں اور احمد اور آخری نبی ہوں اور حشر میں لے جانے والا ہوں اور توبہ (لے کر آنے )والا نبی ہوں اور رحمت والا نبی ہوں ))) صحیح مُسلم/کتاب الفضائل / باب ٣٤
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِیمان والوں کے لیے بھی رحمت تھے :::::
::: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ((( لَقَد جَاء کُم رَسُولٌ مِّن أَنفُسِکُم عَزِیزٌ عَلَیہِ مَا عَنِتُّم حَرِیصٌ عَلَیکُم بِالمُؤمِنِینَ رَؤُوفٌ رَّحِیمٌ :::تُم لوگوں کے پاس تُم میں سے ہی رسول تشریف لائے ہیں جِنکو تمہارے نُقصان والی بات بوجھل لگتی ہے اور جو تُمہارے فائدے کے خواہش مند رہتے ہیں اِیمان والوں کے ساتھ بہت شفیق اور مہربانی کرنے والے ہیں ))) سورت التوبہ / آیت ١٢٨
::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( إنّی لَأَقُومُ إلی الصَّلَاۃِ وأنا أُرِیدُ أَن أُطَوِّلَ فیہا فَأَسمَعُ بُکَاء َ الصَّبِیِّ فَأَتَجَوَّزُ فی صَلَاتِی کَرَاہِیَۃَ أَن أَشُقَّ علی أُمِّہِ )( میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اُسے طویل کروں لیکن کِسی بچے کے رونے کی آواز سُن کر اُس کی ماں کی سختی کا خیال کرتے ہوئے نماز مختصر کر دیتا ہوں ))) صحیح البُخاری / کتاب صفۃ الصلاۃ /باب٧٩،
::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے ہی روایت ہے کہ''''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما )کو چوم رہے تھے ، حابس بن اقرع (رضی اللہ عنہُ )نے یہ منظر دیکھا تو عرض کیا ::: اے رسول اللہ میرے دس بیٹے ہیں لیکن میں اُن میں سے کبھی کسی کو نہیں چوما ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی طرف نظر فرمائی اور اِرشاد فرمایا (((مَن لَا یَرحَمُ لَا یُرحَمُ:::جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جائے گا )))مُتفقٌ علیہ ،صحیح البُخاری /کتاب الآداب /باب ١٨،صحیح مسلم/کتاب الفضائل /با ب١٥
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((( الرَّاحِمُونَ یَرحَمُہُم الرَّحمَنُ ارحَمُوا مَن فِی الأرضِ یَرحَمکُم مَن فی السَّمَاء ِ :::رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے ، تم اُن پر رحم کرو جو زمین پر ہیں ، تُم پر وہ رحم کرے گا جو آسمان پر ہے ))) سُنن الترمذی /حدیث ١٩٢٤ /کتاب البر و الصلۃ / باب ١٦ ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحہ/حدیث ٩٢٥، اس بات میں شک کی کسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ وہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر فرمان پر سب سے پہلے ، مکمل اور بہترین طور پر عمل فرماتے تھے ،
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کافروں کے لیے بھی رحمت تھے :::::
::: اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او ر صحابہ پر کیا کیا ظلم نہیں کیے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح کروایا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی معافی کا عام اعلان فرما تے ہوئے اِرشاد فرمایا ((( أَقُولُ کما قال یُوسُف """ لاَ تَثرِیبَ عَلَیکُم الیَومَ یَغفِرُ اللَّہُ لَکُم وہو أَرحَمُ الرَّاحِمِینَ """ ::: میں (تُم لوگوں کو )وہی کہتا ہوں جو یوسف (علیہ السلام ) نے (اپنے بھائیوں کو )کہا تھا """ تُم لوگوں پر آج کوئی گرفت نہیں اللہ تُمہاری بخشش کرے اور وہ رحم کرنے والوں میں سے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے """ ))) سنن البہیقی الکبریٰ ، شرح معانی الآثار ،
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تمام اِنسانوں کے لیے ہی رحمت تھے :::::
::: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے اور طائف والوں نے اُن کی دعوت کے جواب میں اُن صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم کیے پتھراو کِیا ، یہاں تک اُن کے مُبارک و پاکیزہ خون سے اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تک بھر گئے ، شدید دُکھ کے حالت میں اپنی کمزوری کا شکوہ اللہ تعالیٰ سے کیا تو اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کے ساتھ پہاڑوں کے حُکمران فرشتے کو بھیجا اور اُس فرشتے نے کہا """ اے مُحمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کے رب نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ اِن لوگوں کے بارے میں جو حُکم فرمائیںمیں اُس کی تعمیل کروں ، اب فرمائیے ، اگر آپ حُکم فرمائیں تو میں یہ دونوں بڑے والے پہاڑ اُٹھا کر اِن لوگوں کے اوپر دبا دوں """ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((( بَل أَرجُو أَن یُخرِجَ اللہ من أَصلَابِہِم من یَعبُدُ اللَّہَ وَحدَہُ لَا یُشرِکُ بِہِ شیئاً::: (نہیں) بلکہ میں یہ اُمید کرتا ہوں کہ اللہ اِن کی نسل میں سے ایسے لوگ نکالے گا جو صِرف ایک اللہ کی ہی عِبادت کریں گے اور اللہ کے ساتھ کِسی بھی چیز کو شریک نہیں کریں گے ))) صحیح البخاری / کتاب بداء الخلق / باب ۷ ، صحیح مُسلم / کتاب الجھاد و السیر/باب ۳۹
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جانوروں کے لیے بھی رحمت تھے :::::
::: عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہُ کا کہنا """ ایک دفعہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے وہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام سے تشریف لے گئے اِس دوران ہم نے ایک حُمرہ (چڑیا جیسا ایک چھوٹا پرندہ) دیکھی جِس کے ساتھ اُس کے دو بچے بھی تھے ہم نے وہ بچے لے لیے ، وہ حُمرہ آئی اور اِدھر اُدھر اُڑنے لگی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور اُس حُمرہ کو دیکھ کر فرمایا ((( مَن فَجَعَ ہَذہِ بِوَلَدِہَا رُدُّوا وَلَدَہَا إِلَیہَا :::کِس نے اِس کو اِس کے بچوں کی وجہ سے خوف زدہ کر رکھا ہے ؟ اِس کے بچے اِس کی طرف واپس پلٹاؤ ))) ، اور چیونٹیوں کی ایک بستی جِسے ہم نے جلا دِیا تھا اُسے دیکھ کر دریافت فرمایا (((مَن حَرَّق َ ہَذہِ؟ ::: کِس نے اِنہیں جلایا ہے ))) ہم نے عرض کِیا ::: ہم نے ایسا کِیا ہے ::: فرمایا ((( إنہ لَا یَنبَغِی أَن یُعَذِّبَ بِالنَّارِ إلا رَبُّ النَّارِ ::: یہ جائز نہیں کہ آگ کے رب (یعنی اللہ )کے عِلاوہ کوئی اور کِسی کو آگ سے عذاب دے ))) سنن ابو داؤد /حدیث ٢٦٧٥، السلسلہ الصحیحہ /حدیث ٢٥،
::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ """ ایک دفعہ ایک شخص نے جانور ذبح کرنے کے لیے لِٹایا اور پھر چُھری تیز کرنے لگا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا ((( أتُریدَ أن تُمیتَہَا مَوتات ؟ہلا حَددتَ شَفرتَکَ قَبلَ أن تَضجعہَا::: کیا تُم اُس کو ایک سے زیادہ دفعہ مارنا چاہتے ہو ؟ تُم نے اِس کو لِٹانے سے پہلے چُھری تیز کیوں نہیں کر لی )))المستدرک الحاکم /حدیث ٧٥٦٣/کتاب الاضاحی، السلسلہ الصحیحہ /حدیث ٢٤،
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جمادات کے لیے بھی رحمت تھے :::::
::: کھجور کے درخت کے اُس تنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ملاحظہ فرمائیے ، جِس تنے پر وہ صلی اللہ علیہ وسلم خُطبہ اِرشاد فرمایا کرتے تھے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر تیار کیا گیا اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس تنے کو چھوڑ دِیا تو اُس تنے میں سے سسکیوں کی آواز آنے لگی جو بڑہتی گئی اور لوگوں نے اُس میں سے بیل کے خرخرے جیسی آواز سُنی، یہاں تک مسجد اُس کی پر سوز آواز سے گونج اُٹھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اُس تنے پر اپنا ہاتھ مُبارک رکھا تو وہ خاموش ہو گیا ،صحابہ کا کہنا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس تنے کے ساتھ ایسا (با رحمت معاملہ )نہ فرماتے تو وہ قیامت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ِفراق کے دُکھ میں سسکتا رہتا، (سُنن ابن ماجہ ، سنن الدارمی ، صحیح ابن حبان، سلسلہ الصحیحہ ، حدیث ٢١٧٤)
::::: اپنی جانوں پر کس قدر ظُلم کرتے ہیں وہ جو ایسی رؤف و رحیم ہستی کے بارے میں وہ کچھ کہتے لکھتے اور سنتے ہیں جو کسی بھی طور اُن کی ذات کے کسی بھی پہلو سے کوئی بھی مُطابقت نہیں رکھتا ، لیکن کیا ہم اُن ظالموں کی اس جرات مندی میں مدد گار نہیں ؟؟؟ کیونکہ ہمارے اقوال و افعال میں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے افعال و اقوال کی نمائیندگی نہ ہونے کے برابر ہے ، اور نہ ہی ہم اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شخصیت کا صحیح تعارف دوسروں کو کرواتے ہیں ،،، اللہ ہمیں اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سچی ، حقیقی عملی محبت عطا فرما اور میرا سب کچھ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر قُربان ہونا قبول فرما۔ اللَّہُمَ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما صَلَّیتَ عَلی آلِ إبراہیم وَبَارِک
عَلی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما بَارَکتَ عَلی آلِ إبراہیم إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ
 
Top