رسوائی کا ڈر بھی دھیان میں رکھا کر

ظفری

لائبریرین

رسوائی کا ڈر بھی دھیان میں رکھا کر
خط محبوب کا مت دلان میں رکھا کر

یہی اُجڑے ہوئے لوگ کبھی کام آئیں گے
چاہنے والوں کو پہچان میں رکھا کر

زرد رُتوں میں تیرا دل بہلائے گی
چڑیا کوئی روشندان میں رکھا کر

حسن کی ڈھلتی چھاؤں ہے ، اے جانِ جاناں
خود کو اتنا بھی نہ مان میں رکھا کر

ساحل ساحل چل کر ، شل ہوجائے گا
کبھی کبھی خود کو طوفان میں رکھا کر

جتنا درد تُو بانٹ رہا ہے ، لوگوں میں
اس سے زیادہ خود امکان میں رکھا کر

کیا جانے کب دشمن سے رن پڑ جائے
عامر ! اپنا تیر کمان میں رکھا کر
 
Top