ردیف الف ۔ غزلیں 16 تا 30

تفسیر

محفلین
صفحہ دوئم

فہرست غزلیات ردیف الف


016 ۔ شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
017 ۔ نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
ق ۔ آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے ؟
018۔ ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
019 ۔ بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
020 ۔ شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
021 ۔ دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
022 ۔ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتاا
023 ۔ ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
024 ۔ درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
025 ۔ اسد ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
026 ۔ پئے نذرِ کرم تحفہ ہے 'شرمِ نا رسائی' کا
027 ۔ گر نہ ‘اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا
028 ۔ درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
029 ۔ گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
030 ۔ قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 016 -

شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا

واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا

واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا

یاں سرِ پرشور بے خوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا

یاں نفَس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بےخودی
جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا


border3.jpg



[line]

016 - 01

شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا​

فرہنگ

شب
رات

برقِ سوزِ دل
دل کی غیر معمولی تپش اور برق کی طرح چمکنے والا درد

زہرۂ ابر آب
ابر کا پتہ پانی ہونا

شعلۂ جوّالہ
بلند ہونے والا شعلہ

حلقۂ گرداب
گرداب کا دائرہ


نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1 ۔ رات کو دل کی تپش بے پایاں ایسی برق بنی ہوئی تھی جس کے اثر سے ابر کا پتہ پانی ہوگیا تھا
مصرع نمبر 2 ۔ اس پانی میں جو بھور یا گرداب کی صورت تھی جیسے شعلے بلند ہو رہے ہوں۔


تبصرہ

رات کو دل کی تپش بے پایاں ایسی برق بنی ہوئی تھی جس کے اثر سے ابر کا پتہ پانی ہوگیا تھا اور اس پانی میں جو بھور یا گرداب کی صورت تھی جیسے شعلے بلند ہو رہے ہوں۔

[line]
016 - 02

واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا​

فرہنگ

واں
وہاں کا مخفّف

کرم
عنایت، مہربانی، ہمت، بخشش

عذرِ
بہانہ، حیلہ، معذرت، اعتراض، معافی، انکار

بارش
مینہ، برکھا

عناں
باگ، لگام، ڈور، راس

گِیر
پکڑنےوالا، لگام پکڑنے والا

عناں گیر
چلنےسےروکنے والا

خرام
ناز و ادا کی چال، مٹک چال

گریہ
رونا، پیٹنا، آہ زاری کرنا

یاں
یاں کا مخفّف

پنبۂ
کپاس، روئ

بالش

تکیہ، مسند، سرہانہ

کف
جھاگ، ہاتھ، پنجہ، ہتھیلی، روکنا

سیلاب
پانی کی رو، طغیانی، پانی کا چڑھاؤ

کفِ سیلاب
سیلاب کا جھاگ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ وہاں معشوق کا نہ آنے کا بہانہ بارش تھی۔
مصرعہ نمبر2۔ یہاں ہمارے رونےسے تکیہ کی روئ سیلاب میں کا جھاگ۔


تبصرہ

معشوق کےنہ آنے کا بہانہ بارش تھی اور اس کی جدائ ہم اتنا روئے کہ ہمارے تکیہ کی روئ ہمارے آنسووں کے سیلاب میں بہہ گی۔

[line]
016 - 03

واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا​

[line]
016 - 04

جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا​

فرہنگ

جلوۂ
خود کو دوسروں کو دکھانا، تجلّی، نور، معشوق کا ناز و انداز سےچلنا

گل
پھول، جسم کو داغنے کا نشان، چراغ کی بتی کا جلا ہوا حصہ، معشوق

جلوۂ گل
گلابوں کی مظاہرہ

واں
وہاں کا مخفّف

چراغاں
بہت روشنی، چراغوں کا اکھٹا جلنا، بہت سے چراغ جلنا

آب جو
نہر، نالا، چھوٹی ندی، چشمہ

یاں
یاں کا مخفّف

رواں
جاری، بہتا

مژگان
مژہ کی جمع، پلکیں

چشمِ
آنکھ، دیدہ ، نین، نیتر، عین، آس، امید

تر
گیلا، بھیگا ہوا، نرم، رس دار

مژگانِ چشمِ تر
بھیگی آنکھوں کی پلکیں

ناب
خالص، صاف

خونِ ناب
خالص خون


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ وہاں پھولوں نےنہرمیں چراغوں کا سماں پیدا کردیا۔
مصرعہ نمبر2۔ یہاں میری بھیگی آنکھوں کی پلکوں سےخالص خون بہہ رہا تھا


تبصرہ

پانی کے نزدیک دور تک بےشمار پھولوں کی کیاریاں تھیں اور پھولوں کےعکس نے پانی میں ایک چراغان کا سماں پیدا کردیا تھا۔ یہاں میرے بھیگی آنکھوں سےخون کےآنسووں نے نکل کر ایک ندی بنادی تھی۔


لفظی و معنوی خوبیاں

شبیہ کےلغوی معنی مانند کردن یعنی دوچیزوں کوایک جیسا بنانا۔ مشابہت دینا ۔ علمِ بیان کی رو سےجب کسی ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند قرار دیاجائے تو اُسے تشبیہ کہتے ہیں۔
تشبیہہ دینے کی وجہ اس پہلی چیز کی کسی صفت، حالت یا کیفیت کوواضح اور موثر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے اس سےفصاحت و بلاغت پیدا ہوتی ہے۔

یہاں گل اور چراغ میں تشبیہ ہے۔

[line]
016 - 05

یاں سرِ پرشور بے خوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا​

فرہنگ

یاں
یاں کا مخفّف

سر
کھوپڑی، کسی چیز کا اوپری حصہ، ابتداء ، دماغ، زور، عشق، سردار

پرشور
شور سے بہرا، دیوانہ

بےخوابی
بغیرخواب

دیوار جو
دیوار ڈھونڈنے والا

واں
وہاں کا مخفّف فرق

ناز
ادا، نخرہ، غمزہ، پیار، لاڈ، چونچلا، گُھنڈ، فخر، غرور، بڑائ

فرق
جدائ، علحیدگی

فرقِ ناز
سر (محاوراً )

محو
مصروف،گم، معدوم، دور، فریقہ

بالش
تکیہ، مسند، سرہانہ

بالش کمخواب
ایک ریشمی کپڑا جو قیمتی زردوزی و پرتکلف ہوتا ہے


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ یہاں میرا شورغل سے بھرا سراور جس کوسونا بھی نہیں ملا دیوار کی تلاش میں ہے۔
مصرعہ نمبر2۔ وہاں میرا معشوق کا سر ریشمی تکیہ پرگہری نیند میں ہے۔


تبصرہ

میرا دماغ خیالات سے بھر پور ہےاور میں سونہیں سکتا۔ معشوق کی جدائ میں دل چاہتا ہے کہ دیوار پر سر دے ماروں۔ دوسری طرف معشوق آرام سے ریشمی تکیہ پرسر رکھ کرگہری نیند میں ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

مجاز مرسل
کسی لفظ کو حقیقی معنوں کےبجائے کسی قرینے کی بناء پرمجازی معنوں میں استعمال کرنا مجاز کہلاتا ہے۔ اگرتشبیہ کےعلاوہ کوئ اورتعلق ہو تواسےمجازمرسل کہتے ہیں۔

اس شعر میں لفظ فرق کےدو معانی ہیں۔ علحیدگی اور سر۔ فرق کوسر کے معنی میں استعمال کرنا مجازمرسل ہے۔

[line]
016 - 06

یاں نفَس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بےخودی
جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا​

فرہنگ

یاں
یاں کا مخفّف

نَفَس
سانس، دم، گھڑی، ساعت، لحطہ، وقیقہ

روشن
چمکتا ہوا، تاباں، ظاہر، آشکارا، کشادہ

شمع
موم بتی، چربی کی بتی، موم بتی کی چربی

بزم
محفل، مجلس، خوشی کی محفل، سبھا

بےخودی
بےہوشی، سرشاری، مستی

شمعِ بزمِ بےخودی
جلوۂ
خود کودوسروں کو دکھانا، تجلّی، نور، معشوق کا ناز و انداز سےچلنا

گل
پھول، جسم کو داغنے کا نشان، چراغ کی بتی کا جلا ہوا حصہ، معشوق

واں
وہاں کا مخفّف فرق

بساط
فرش، بستر بچھوانا، سرمایہ، حوصلہ

صحبت
یاری، ہمراہی، محفل، ہم بستری عورت کےساتھ سونا

احباب
حبیب کی جمع، بہت سے دوست، یار، آشنا

بساطِ صحبتِ احباب


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ یہاں ہماری بزم میں آہوں نےشمع جلائ۔
مصرعہ نمبر2۔ وہاں پھولوں کےقالین پرمعشوق کےدوست بیٹھے۔


تبصرہ

ہم بہ سبب شدت غم و اندوہ کے بےخود اور بےہوش ہوگے۔ دوسرے طرف بزم میں پھولوں کے قالین پر معشوق کےدوست بیٹھےتھے۔

[line]
016 - 07
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا​

فرہنگ

فرش
بچھونا، بستر بچھانے کی چیز، غالیچہ، زمین

عرش
آسمان، چھت، سقف، تخت

واں
وہاں کا مخفّف فرق

طوفاں
غرق کرنے والی رو، سیلاب، پانی کا چڑھاو، شدید بارش، تہمت

موج
لہر، ترنگ، طلاطم، امنگ، جوش، ولولہ، طبیعت کی خوشی

رنگ
رنگت، روپ، انداز، خوبصورتی ، بہار، مزہ، مکر، راگ، سماں، خون

موجِ رنگ

یاں
یاں کا مخفّف

زمین
دھرتی، ارض، وہ خاکی کرّہ جس پرہم رہتے ہیں

آسماں
فلک، آکاش، چرخ، گردوں، چکی مانند

سوختن
جلنے جوگ، جلنے کے قابل، بھڑکنے والا، سوختنی

باب
دروازہ، مقدمہ، معاملہ، کتاب کاحصہ فصل، پارہ، مطلب، مقصد دربار


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ فرش سے آسمان تک رنگ کی موجوں کا طوفان تھا۔
مصرعہ نمبر2۔ زمین سے آسمان تک لگی تھی۔


تبصرہ

ایک گہری ، رنگین اور عش و عشرت کی تبدیلی ظہور آرہی ہے اور ہم سب جل رہے تھے۔ زمیں و آسمان آگ لگا رکھی تھی۔

[line]
016 - 08

ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا​

فرہنگ

ناگہاں
اچانک، یکایک، بےخبری میں

رنگ
رنگت، روپ، انداز، خوبصورتی ، بہار، مزہ، مکر، راگ، سماں، خون

خون
لہو، قتل، نسل

ناب
خالص، صاف

ٹپک
پانی کے قطرے کی لگاتارگرنے کی آواز

دل
قلب، جرات، خواہیش

ذوق
مزہ، لطف، شوق، خوشی

کاوش
کھودنا، کھوج لگانا، خلش، کریدنا، دشمنی

ناخن
انگلیوں کےسروں کی ہڈی، چوپالوں کے کُھریا سُم

ذوقِ کاوشِ ناخن
( مجازا ً ) زنج و غم کی چبھن

لذت یاب
مزہ حاصل ھونا، ذائقہ ملنا، سواد پانا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ اچانک خالص خون اس طور سےٹپکنے لگا۔
مصرعہ نمبر2۔ جیسےدل کو ناخون کے کریدنےسےلذت تھی۔


تبصرہ

دل جو درد و اندود سےواقف تھا اچانک اس سےخون ٹپکنےلگا۔

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 017 -

نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
تھا سپندِبزمِ وصلِ غیر، گو بیتاب تھا

مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے !
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا

نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی ، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا

کچھ نہ کی اپنے جُنونِ نارسا نے ، ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ روکشِ خُرشیدِ عالم تاب تھا

ق

آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے ؟
کل تلک تیرا بھی دل مہرووفا کا باب تھا

یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظارِ صید میں اِک دیدۂ بیخواب تھا

میں نے روکا رات غالب کو ، وگرنہ دیکھتے
اُس کے سیلِ گریہ میں ، گردُوں کفِ سیلاب تھا

border3.jpg

[[line]
017 - 01

نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
تھا سپندِ بزمِ وصلِ غیر، گو بیتاب تھا​

فرہنگ

نالۂ
فریاد، واویلا، شور، غُل، فغاں

نالۂ دل
دل کا واویلا

شب
رات، رَین

انداز
قیاس، طریقہ، وضع، معشوقانہ لگاوٹ

اثر
تاثیر، نشان، کھنڈر، کھوج، نتیجہ، فائدہ

اندازِ اثر
معشوقانہ لگاوٹ کا نتیجہ

نایاب
یش قیمت، ناپید، وہ چیزجو تو یا مُیسّر نہ ہو یا کم مُیسّرہو۔

سِپَند
کالا دانہ، بیج جن کو نظربددفع کرنے کےلیےجلاتے ہیں

بزم
محفل، مجلس، خوشی کی محفل، سبھا

وصل
ملاقات، معشوق سےملنا، ہجر کی ضد

غیر
مجازاً رقیب، اجنبی، علیحدہ شے، بیگانہ

گو
ہرچند، اگرچہ، کہنےوالا

بےتاب
بےطاقت، کمزور، بےچین، بےقرار، برداشت نہ کرنےوالا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ رات کو نالۂ دل میں اثر نہ تھا اور نالۂ دل غیرموثر تھا۔
مصرعہ نمبر2۔ میرا دل بےقرار تھا کیونکہ میں غیر کا وصل دیکھ رہا تھا۔


تبصرہ

رات میرے نالوں کا کوئ اثر نہ ہوا۔ میرا دل بےقرارتھا کیونکہ میرا معشوق میرے رقیب کی صحبت میں تھا۔


قصص و روایات

سِپَند جیسےاسپند، کالادانہ، سداب اورحرمل کےنام سے بھی پہچانا جاتا ہے ایک جنگلی پودے کے بیج ہیں۔ ہندوستاں میں کچھ لوگ اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ ان کالے بیجوں کےجلانے سےجودھواں بنتاہےوہ بچوں کو بدنظری سےمحفوظ رکھتا ہے


لفظی و معنوی خوبیاں

دل میرا سپند بزم تھا۔ کیونکہ جب سپند بیجوں کوآگ پر ڈالنے سے چٹ پٹ کی آواز آتی ہے۔ یعنی سپند آگ پر بےقرار ہوتا ہے۔

تھوڑی سی تبدیلی سےمصرع ثانی فارسی بن گیا

بُد سپندِ بزمِ وصلِ غیر، گو بیتاب بود

شاعری کےاصطلاحات

رَقِیب۔ شاعری میں معشوق کےہمشہ ایک سےذیادہ عاشق ہوتے ہیں وہ ہمارے عاشق کے رقیب کہلاتے ہیں۔

[line]
017 - 02

مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے !
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا​

فرہنگ

مَقدم
آمد، وہ جگہ جہاں کوئ آئے، پاوں رکھنے کی جگہ

سیلاب
پانی کی رو، طغیانی، پانی کا چڑھاؤ

مَقدمِ سیلاب
سیلاب کا آنا

دل
قلب، جرا ت، خواہیش

نشاط
خوشی، شادمانی، فرحت، مزہ

آہنگ
نغمہ، زمرمہ، آواز، قصد، ارادہ، وقت

نشاط آہنگ
خوشی کا نغمہ

خانۂ
گھر، مکان، بیت، کبوتروں یا مرغیوں کا ڈربہ

عاشق
چاہنے والا، محبت کرنےوالا، طالب، فریفتہ، پسند کرنےوالا

خانۂ عاشق
عاصق کا گھر

ساز
باجا، ناچنے کا سامان، سامان، اسباب

صدا
گونج، گنبد کی آوازز، مطلق آواز، آہٹ

سازِ صدا
باجا کی آواز

آب
پانی، پسینہ، آنسو، عرق، خالص شراب، رونق، چمک، عزت، قدر، جوہر


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ کیا میرا دل سیلاب کی آمد پرخوش ہے۔
مصرعہ نمبر2۔ عاشق کےگھر پانی کےگرنے کی آواز میں ترنم تھا۔


تبصرہ

بارش کی وجہ سے عاشق کا گھر باجے کی طرح بجنے لگا جس کوسن کر دل کو مسرت ھوئ۔ دوسرے الفاظ میں گھر کی بربادی باعث خوشی تھی۔۔۔؟


قصص و روایات

1۔ آب حیات میں مولانا آذاد اسداللہ خان غالب کے ایک خط کا ذکر کرتے ہیں۔ جس میں غالب نے بارش کی وجہ سےگھرمیں جو نقصانات ہوئے تھےوہ لکھے ہیں۔ شاید یہ شعراس ایک حادثہ کا نتیجہ ہے۔
2۔ایک ساز کا نام جل ترنگ ہے ۔ چائنا کے بنے ہوئے سات کپوں میں پانی کرانہیں تیلیوں سے بجاتے ہیں۔


لفظی و معنوی خوبیاں

مناسبت ۔ باہم تعلق، موزونیت اور نسبت، شعرمیں آواز کی خوبصوری۔

آہنگ ( نغمہ ) اور ساز ( باجا ) میں مناسبت ہے

معنی آفرینی۔ ایک بات میں کئی معنی چُھپے ہوں۔ غالب کےا شعارذیادہ تر ذو معنی ہوتے ہیں۔

کیا۔ کے تین معنی ہوسکتےہیں۔
1۔ اچنبھے، تاکیدی اثابت ( زور دار ہاں )
2۔ اچنبھے، تاکیدی نفی ( زور دار ناں )
3۔ نفی و اثبات ( نہیں ہاں )

مگر، کےدو معنی ہوسکتے ہیں۔
1۔ شاید
2۔ لیکن

تھوڑی سی تبدیلی سے مصرع ثانی فارسی بن گیا ۔
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب بود

[line]
017 -03

نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی، کیا کہوں
پہلوئےاندیشہ، وقفِ بسترِ سَنجاب تھا​


فرہنگ

نازش
ناز، بے پرواہی، فخر

ایّام
یوم کی جمع، دن، زمانہ

خاکستر
راکھ، بھبھوت، وہ راکھ جو، جوگی اپنےبدن پرملتے ہیں

نازشِ ایّامِ خاکستر
ان دنوں پرفخر کرناجب زمین پربیٹھتےتھے

نشینی
بیٹھنا

پہلو
کروٹ، بغل، بازو، طرف، گوشہ، چوکھٹ، روبرو

اندیشہ
فکر، سوچ، تردّد، خوف

وقف
ٹھہراؤ، توقف، رفاہ عام کی چیز

بستر
بچھونا، فرش

سَنجاب
گلہری سےبڑا جانور جس کھ ملائم پشم دار کھال کی پوستن بناتے ہیں

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ ان دنوں کا ذ کرکیا کروں جب میں خاک میں بیٹھتا تھا۔
مصرعہ نمبر2۔ میرے فخر نےاس کو آرام دہ بستر بنادیاتھا۔

تبصرہ

ان دنوں کا ذ کرکیا کروں جب میں خاک میں بیٹھتا تھا، لیکن میرے فخر نےمیری قناعت اور فخر نےاس کوآرام دہ بستر بنادیاتھا۔

لفظی و معنوی خوبیاں

رعایت۔ ایک شعرجس میں الفاظ تشبیہات اوراستعارے پہلےلفظ کی مناسبت ( باہم تعلق، موزونیت اور نسبت، شعرمیں آواز کی خوبصورت ) سے آتے ہیں۔

خاکسترنشینی اور بسترِسَنجاب

یہاں تھوڑی سی تبدیلی سے پورا شعرفارسی بن جاتا ہے

نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی، چون کنم
پہلوئےاندیشہ، وقفِ بسترِسَنجاب بود

[line]
017 - 04

کچھ نہ کی اپنے جُنونِ نارسا نے، ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ روکشِ خُرشیدِ عالم تاب تھا​


فرہنگ

جُنون
دیوانگی، پاگل پن، کسی چیز کی دُھن

نارسا
نہ پہنچنےوالا، بےاثر، نامراد

ورنہ
اور نہیں تو ، وگرنہ

ذرّہ
مادے کا نہایت چھوٹا ٹکڑا، ریزہ، تھوڑا

رُوکش
مقابل، حریف، ہمسر، مانند، مُشابہ، آئینہ کاغلاف

خُرشید
سورج، آفتاب

عالم
حالت، کیفیت، دنیا

تاب
روشنی، گرمی، پیچ و خم، مجال، چمکنےوال


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میرے نامراد پاگل پن کا کچھ اثرنہ ہوا۔
مصرعہ نمبر2۔ ورنہ ہرذرّہ کواتنی روشنی ملتی کہ وہ سورج لگتا۔


تبصرہ

ریت کا ہرذرّہ سورج کی طرح عارفانہ ہے۔ اگر ہمیں اس کا علم نہیں تو یہ ہماری خرابی نہیں اور نہ اس فطری دنیا کی بلکہ ہماری ناکامی کی ہمارے جوش و جذبہ کی ہے۔

[line]

017 - Q01

آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے ؟
کل تلک تیرا بھی دل مہرووفا کا باب تھا​


فرہنگ

پروا
حاجت، غرض، خواہش، فکر

اسیر
قیدی، بندی

دل
قلب، جرات، خواہیش

مہر
آفتاب، سواج، شمس، محبت، دوستی، الفت، پیار، ہمدردی، ترس، مامتا

وفا
نباہ، ساتھ دینا، خیرخواہی، نمک حلالی، وبستگی، عقیدت مندی، تعمیل، تکمیل

باب
دروازہ، مقدمہ، معاملہ، کتاب کاحصہ فصل، پارہ، مطلب، مقصد دربار

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ آج تم کواپنےقیدیوں کی پرواہ کیوں نہیں ہے۔
مصرعہ نمبر2۔ جب کہ گزری کل تمہارا دل ہمدردی اورخیرخواہی سے بھرا تھا۔


تبصرہ

جب تک میں تمہارے عشق میں گرفتار نہیں ہوا تھا۔ مجھے قید کرنے کےلیےمجھ پرمہر و وفا کا دروازہ کھلا تھا۔ اب جب کےمیں معشوق کی قید میں ہوں اس نےنظریں بدل لی ہیں۔

[line]
017 - Q02

یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظارِ صید میں اِک دیدۂ بیخواب تھا​


فرہنگ

یاد
ذہن، خیال، تسبیح، یاداشت

حلقہ
دائرہ، گھیرا، مجلس، ضلع

دام
جال، پھندا، قیمت

انتظار
راہ دیکھنا، آسرا، اُمید

صَید
ہم پیشہ اور ہم کار آدمیوں کی باہمی ضد اور لڑائ، وہ جانورجس کو شکار کریں

دیدۂ
آنکھ

بیخواب
بیدار، بےآرام، بےنیند کے


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ وہ دن یاد کرجب تیرے جال کےہرایک پھندے
مصرعہ نمبر2۔ رقیبوں کےانتظار میں بےآرام رہتا تھا


تبصرہ

تجہ کووہ دن یاد ہیں جب توعاشقوں کو تلاش کرتا تھا اور وہ تجھ کونہیں ملتےتھےاور آج یہ حال ہے کہ کہ تیرے سینکڑوں عاشق موجود ہیں مگرتجھ کواُن کی پرواہ نہیں ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

تشبیہ۔ تشبیہ کے لغوی معنی مانند کردن یعنی دو چیزوں کو ایک جیسا بنانا۔ مشابہت دینا ۔ علمِ بیان کی رو سےجب کسی ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند قرار دیا جائےتواُسے تشبیہ کہتے ہیں۔ تشبیہ سے غرض اس پہلی چیز کی کسی صفت ، حالت یا کیفیت کو واضح اور موثر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے اس سے فصاحت و بلاغت پیدا ہوتی ہے۔

یک حلقہ دام (جال کا ایک دائرہ ) اور اِک دیدۂ بیخواب ( نیند نہ ملنے سے کُھلی بےچین آنکھ ) میں مشابہت ہے۔

[line]
017 - Q03

میں نے روکا رات غالب کو، وگرنہ دیکھتے
اُس کےسیلِ گریہ میں، گردُوں کفِ سیلاب تھا​


فرہنگ

وگرنہ
ورنہ، اوراگرنہیں

سیل
پانی کی رو، بہاؤ، طغیانی، لہر

گریہ
رونا، پیٹنا، آہ زاری کرنا

گردُوں
آسمان، چرخ، گاڑی چھکڑا، گھومنے والا

کف
جھاگ، ہاتھ، پنجہ، ہتھیلی، روکنا

سیلاب
پانی کی رو، طغیانی، پانی کا چڑھاؤ


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ میں غالب کو کل رات روک دیا
مصرعہ نمبر2۔ ورنہ اُس کے رونےسےآسماں جھاگ بن جاتا۔


تبصرہ

میں نے رات غالب کو رونےسےروک دیا۔ ورنہ تم دیکھتے کہ وہ ایسا روتا کہ اس کے آنسووں کا سیلاب آسمان تک پہنچ جاتا۔ اور آسمان جھاگ کی طرح اس آنسووں کے بہاؤ میں بہتا۔​
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 018 -

یک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا

اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہگزار تھا

موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا

کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا

border3.jpg



[line]
018 - 01

ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا​

فرہنگ

دینا پڑا حساب
ٹپکانا پڑا یا بہانا پڑا

خون جگر
جگر کا خون

ودیعت
امانت

مژگان یار
پلکھیں


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ جگر کے خون کا ایک ایک ٹکڑا مجھے بہانا پڑا
مصرعہ نمبر 2۔ کیونکہ یہ مژگان یار کی امانت تھا۔ اور کیسی کی امانت کا حسب درجہ دیانت اور احتیاط سے دیا جاتاہے۔


تبصرہ

میری آنکھوں سے خون جگر آنسو بن کر بہتا رہا اسطرح بہتا رہا جیسے جگر کا خون محبوبہ کی میرے پاس رکھی ھوئی امانت تھی۔ تبھی مجھے خون کے ایک ایک قطرہ کا حساب دینا ھوگا تاکہ مجھ پر اس کا بھروسہ قائم رہے

شاعری کی روایت میں معشوقہ کی پلکھوں کے تیر ' ُنوکیں ' جگر کو زخمی کر کے عاشق کو خون جگر کا رکھوالا بنا دیتی ہے ۔ جب عاشق روتا ہے تو یہ خون جگر اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہتا ہے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

اضافت
دوھنی اضافت کا استعمال غالب کی ایک پسندیدہ عادت ہے۔

خونِ جگر
ودیعتِ مژگانِ یار

[line]
018 - 02

اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا​


فرہنگ

ماتمِ یک شہر آرزو
ہزاروں آرزوں کا ماتم یا غم

آئینہ تمثال دار
عکس پیدا کرنے والا شیشہ جس میں محبوب کی تصویر نظر آتی تھی


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ میرا دل ہزاروں آرزوں کے خاک میں مل جانے کا ماتم گسار ہے
مصرعہ نمبر 2۔ تو نے میرا دل توڑ دیا ہے جہاں تیری تصویر رہتی تھی


تبصرہ

اصولا شیشہ میں ایک ہی عکس نظر آتا ہے ۔ لیکن جب اس کو توڑتے ہیں تو ہر ٹوتے ہوئے حصہ میں وہی تصویر نظر آنے لگتی ہے اور غالب کہتے ہیں کہ ہرتصویر، میرے دل کا خون بہاتی ہے۔ میری تمام آرزویں لٹ گی ھیں۔ اور میں ان کے لئےسوگوار ہوں۔


لفظی و معنوی خوبیاں

غالب کا آئینہ عموما دھات کا ہوتا ہے ۔دھات کو پالش کرنے سے اتنی چمک پیدا ہوجاتی ہے کہ اس میں آپ اپنا عکس دیکھ سکتے ہیں ۔لیکن اس شعر میں غالب کا آئینہ ، شیشہ کا ہے جو ٹوٹ سکتا ہے۔

' ماتمِ یک شہر آرزو ' کے دو معنی ہوسکتے ۔ کیا غالب آرزوں کے شہر کے لئے غمگسار ہیں یا وہ اس کے ساتھ غمگساری کررہے ہیں ۔


018 - 03

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہگزار تھا​

فرہنگ

نعش
لاش

جاں دادۂ
جس نے جان دی ہھو

ہوا
خواہش

ہوائے سرِ رہگزار
محبوب کی گلی کی خواہش


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ میری لاش کو لئے کر گلیوں میں پھرو
مصرعہ نمبر 2۔ کیونکہ زندگی میں بھی میں محبوب کی گلی کی تلاش میں پھرتا تھا۔


تبصرہ
یہاں ہوا سے معنی خواہش لیا گیا ہے۔ اور گلی سے مراد محبوب کی گلی ہے۔

میں نے اپنی ساری زندگی محبوب کی گلی کی تلاش میں نکال دی۔ اب مجھے اس کا صلہ یہ ہونا چاہئے کہ تم بھی میری لاش کو لیکر کر گلیوں میں پھرو۔ شاید اس طرح میں محبوب کی گلی تک پہنچ جاؤں۔

[line]
018 -04

موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا​


فرہنگ

موجِ سرابِ دشتِ وفا
وفا کا ایک ریگستان موجیں مار رہا ہے

جوہر
مخصوص خصوصیت ، علم ، قیمت

آبدار
چمکیلا، تلوار کی طرح تیز

مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار
خطرناک اور جان لیوا تھا


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر1۔ مجھ سے وفا کےموجیں مار تے ہوئے ریگستان کا مت پوچھو ۔
مصرعہ نمبر 2۔ ہر ریت کا زرہ تلوار کی دھار کی طرح چمک رہا تھا۔


تبصرہ

محبوب کی طرف سے وفا کا تو کہیں پتہ نہیں ہے ہاں وفا کا ایک ریگستان موجیں مار رہا ہے۔ کس کی ریت کا ایک ایک ذرہ ایسا خطرناک اور جان لیوا ہے۔ جس طرح پیاسے مسافر سراب کو پانی سمجھ کر اس میں جا پڑتے ہیں اور تباہ ہوجاتے ہیں اسی طرح سراب دراصل محبون کی وفا ہے۔ لوگ اس کے فریب میں آجاتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔

لفظی و معنوی خوبیاں

آبدار کا استعمال میں ایک چھپی خوبی ہے۔ آبدار کے لفظی معنی " پانی والا "۔ آب ، لفظ سراب میں بھی شامل ہے ۔ تلوار کی چمک یا پانی کی چمک ، تلوار اور پانی کی دھمکی اور وعدہ ۔ سراب ایک سرار کی نشانی ہے۔اور وفا کا ریگستان ، ایک اکیلا اور خطرناک بنجڑ علاقہ۔
اس شعر میں " آ " کی آواز گونجتی ہے۔

[line]
018 -05

کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا​


فرہنگ

غمِ عشق
عاشقی کاغم

غمِ روزگار
دنیاؤی غم


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ پہلے ہم بھی عشق کے جذبہ کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔
مصرعہ نمبر 2۔ لیکن جب اس کا تجربہ ہوا تو ہہ پتہ چلا کہ تمام دنیاؤی غم مل کر بھی غم عشق سے کم ہیں۔


تبصرہ

تجربے سے پہلے میں بھی غم عشق کو شدت اور اذیت ناکی میں کم سمجھتا تھا لیکن اب جب کہ وہ تجربے اور مشاہدے میں آیا تو اندازہ ہوا کہ یہ کم ہونے پر بھی غم زمانہ کی شدت و تکلیف سے کم نہ تھا۔​
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg

- 019 -

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

وائے دیوانگئ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں* ہونا

جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ
عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بہ صد رنگِ گلستاں ہونا

عشرتِ پارۂ دل، زخمِ تمنا کھانا
لذت ریشِ جگر، غرقِ نمکداں ہونا

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب!
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا


border3.jpg


[line]

019 - 01

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا​


فرہنگ

بسکہ
چونکہ ، القصہ ، حاصلِ کلام ، غرض

دشوار
مشکل، کٹھن، دوبھر، بھاری، سخت

میسر
دستیاب ۔ ممکن احصول ، مہیا


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ہر کام آسان نہ ہو
مصرعہ نمبر 2۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ آدمی تو انسان بھی نہیں بن سکا


تبصرہ

اس دنیا میں آسان سی چیز مشکل ہے اور اسکا یہ ثبوت ہے کہ بظاہر یہ ایک آسان عمل لگتا ہے مگر جب انسانیت کے اصل مفہوم اور انسان کے حقیقی شرف و منصب پر غور کتے ہیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو انسان بنا بہی آسان کام نہیں۔

لفظی و معنوی خوبیاں

غالب نے ایک بڑی حقیقت کو اس شور میں خوبصورتی اور سادگی سے بیان کیا ہے اور اس کا ایک شاعرانہ ثبوت پیش کیا ہے۔ غالب ہمیشہ آسان اور مشکل متضاد چیزوں سے کھیلتے ہیں۔ اس شعر میں وہ آدمی جو کھ آدم کا بیٹا ہے ۔ جو میمل ہے اور انسان جو معاشرے کے اصولوں کی پیداوار ہے۔

[line]
019 - 02

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا​


فرہنگ

گریہ
رونا، پیٹنا، آہ زاری کرنا

کاشانہ
چھوٹا سا گھر، جھونپٹرا، آشیانہ

بیاباں
ریگستان، جنگل، ویرانہ، اُجاڑ، جہاں کوسوں تک پانی اور درخت نہ ہوں


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ رونے پیٹنے میرے گھر کو برباد کردیا ہے
مصرعہ نمبر 2۔ اور در و دیوار سے بیابانی ٹپک رہی ہے۔


تبصرہ


غم عشق مجھے بار بار رولارہا ہے کہ اس کے آنسو کی بہتاب سے میرے گھر کی تباہی لازمی ہے۔ اور نتیجہ یہ ہوگا کہ میرا گھر برباد ہو کر ایک بیاباں میں تبدیل ہوجائےگا۔


لفظی و معنوی خوبیاں

یہ شعر زیادہ " کیفیت" سے متعلق ہے بیاباں کا ٹپکنا نامکن سا ہے۔

[line]
019 - 03

وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا​


فرہنگ

دیوانگی
گھبراہٹ، سودا، خفقان، جنون، حیوانیت

شوق
اشتیاق، آرزو


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ میرے پاگل پن کو دیکھو کہ ہر دم
مصرعہ نمبر 2۔ میں حیران اور پریشان اسی طرف جاتا ہوں


تبصرہ

ایک شعر کے ظاہری معنی یہ ہوئے کہ جنون عشق کا حال بیان کرتے مجہے دکھ ہوتا ہے کہ میں ہر وقت حیران اور پریشان محبوب کی گلیوں میں ادھر ادھر پھرتا رھتا ہوں ۔
یا
میری ہرسانس مجھے زندگی کے منبع کی طرف لے جاتی ہے مگر میں حیران ہو کہ میری پہنچ مکمل نہیں ہو پاتی۔

[line]
019 - 04

جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا​


فرہنگ

جلوۂ
خود کو دوسروں کو دکھانا، تجلّی، نور، معشوق کا ناز و انداز سےچلنا، تجلی، نور

تقاضا
طلب، تاکید، دیا ھوا قرض واپس مانگنا، خواہش

نگہ
نگاہ کا مخفف، نظر، تیور، بصارت، شناخت، توجہ، عنایت، نظارہ، امید، نگرانی

جُوہر
خاصیت، ہنر، خلاصہ، لب لباب، وہ چیز جو بذآت خود قائم ہو

مژگاں
مژہ کی جمع، پلکیں


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ میرا محبوب اتنا حسین ہے کہ
مصرعہ نمبر 2۔ آئینہ کی چمک بھی اس کی پلکیں بنا چاہتی ہیں


تبصرہ

میرے محبوب کے جلوہ حسن کا تقاضہ ہے کہ مجھ کو دیکھو اور اس میں اتنی شدت ہے کہ پالش سے چمکتا ہوا آئینہ بھی میرے محبوب کو دیکھنے کے لیے آنکھ بنے کا آرزو مند ہے۔

[line]
019 - 05
عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ
عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا​


فرہنگ

عشرت
آرام، سکون، چین،عیش ، خواہیشوں کا پورا ہونا

اہل تمنا
تمنا والے

گہ
گاہ، جگہ، مقام، وقت، سماں، کسی وقت، کبھی

تمنّا
خواہش، آرزو، شوق، اشتیاق، درخواست، ارمان

نَظّارہ
دیکھنا، نظر ڈالنا، نظربازی

شمشیر
تلوار، تیغ، (شم، بعمنی ناخن) شیر کےناخن کےمانند

عریاں
ننگا، برہنہ، بےپروہ


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ اہل تمنا کی خوشی کا یہ حال ہے کہ مقتل کو عشرت گاہ سمجھتے ہیں
مصرعہ نمبر 2۔ ننگی تلوار کو عید کا چاند سمجھ کر خوش ہوتے ہیں۔


تبصرہ

عاشق مقتل کو مقام مسرت سمجھتے ہیں اور جب محبوب کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھتے ہیں تو اسے ہلال عید تصور کرتے ہیں۔


[line]
019 - 06

لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بہ صد رنگِ گلستاں ہونا​

فرہنگ

لے گئے خاک میں
مر گئے، رخصت ہوگئے

داغ تمنائے نشاط
چاہت کی خوشی کے زخم

صد رنگ گلستان
ہزار رنگوں کا باغ


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ ہم تجھے دیکھنے کی تمنا لئے رخصت ہوگئے
مصرعہ نمبر 2۔ اور وہ عالم نہ دیکھ سکےجہاں تو ہے اور تو ہزاروں رنگ سے سنوار کر بنائے ہوتا۔


تبصرہ :


وہ جگہ دیکھنے کی جہاں تو ہی تو ہوتا اور جس انداز میں تجھے بنا سنورا دیکھتے کی ہمیں تمنا تھی وہ تمنا پوری نہیں ہوئی اور یہ تمنا نہ پوری ہونے کا داغ لیے ہم اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

[line]
019 - 07

عشرتِ پارۂ دل، زخمِ تمنا کھانا
لذت ریشِ جگر، غرقِ نمکداں ہونا​


فرہنگ

پارہ
ذُرہ ۔ پارچہ ۔ کن ۔ ریزہ ۔ جز ۔ ٹُوک ۔ ٹکڑا ۔ لخت

زخمِ تمنا
آرزو کا خوں ہونا

لذت
مزہ، ذائقہ، سواد

لذت ریشِ جگر
جگر کے زخم کی لذت

غرق
ڈوبنا ، محو، جذب ، بے خبری

نمک داں
نمک رکھنے کا برتن


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر1۔ دل کےلئےسامان عش و عشرت یہ ہے کہ وہ پارہ پارہ ہوتا رہےاور تمنا کا زخم کھاتا رہے۔
مصرعہ نمبر 2۔ اسی طرح زخم جگر کی لذت یابی اس میں ہے کہ وہ نمکدان میں غرق رہے۔


تبصرہ

عاشقوں کے لئے محبت میں کسی طرح کا کوئی غم نہیں ہوتا وہ تو راہِ عشق میں ناکامی کو کامیابی اور مصیبت کو راحت سمجھتے ہیں۔


لفظی و معنوی خوبیاں

غالب نے اس شعر میں فعل " ہے " کو استعمال نہیں کیا ہے ۔ یہ عموما مصرعے کو ہم وزن کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اسے دولخت کہا جاتا ہے۔

[line]
019 - 08

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا​


فرہنگ

توبہ
کسی کام کو ترک کرنا، افسوس ، پچھتاوا

جفا
ظلم، ذیادتی، تشدد، ناانصافی

زود
جلد، فوراً

زود پشیماں
بہت جلد پچھتانے والا


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر1۔ میرے قتل کے بعد میرے معاشوق نے ظلم جبر کرنا ترک کردیا
مصرعہ نمبر 2۔ ہائے اس پشیمان کی اتنی جلد پشیمانی ۔ ظالم کا اتنی جلد پچھتاوا اورتائسف


تبصرہ


میرے معاشوق نے ظلم و ستم نہ کرنے کا قول دیا ہے مگر دیکھواسے یہ ندامت میرے قتل کے بود ہوئی۔


لفظی و معنوی خوبیاں

بہایت خوبصورتی سے محبوب کی جفا پر طنز کیا ہے۔

[line]
019 - 09

حیف اُس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب!
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا​


فرہنگ

حیف
درئع، افسوس، ہائے، ظلم و ستم، جبر، تعدی

گرہ
ناپ

عاشق
چاہنے والا، محبت کرنے والا، طالب، فریفتہ، پسند کرنے والا، عارف، کامل، بے فکرا، بے پروا

گریباں
پوشاک کا وہ حصہ جو گلے کے نیچے رہتا ہے


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر1۔ مجھےاس چار گرہ کے کپڑے کی قسمت پر دکھ ہوتا ہے۔
مصرعہ نمبر 2۔ جس کی قسمت میں عاشق کا گریبان بنا ہے۔


تبصرہ


مجھےاس چارگرہ کپڑا کی قسمت پر افسوس ہوتا ہے جو عاشق کا گریبان بنےگا۔ کیونکہ عاشق کا ہاتھ ہمیشہ گریبان پر ہی رہتا ہے۔​
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 020 -

شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا

یک قدم وحشت سے درسِ دفتر امکاں کھلا
جادہ، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا

مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلےٰ کون ہے؟
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

پوچھ مت رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن
دست مرہونِ حنا، رخسار رہنِ غازہ تھا

نالۂ دل نے دیئے اوراقِ لختِ دل بہ باد
یادگارِ نالہ اک دیوانِ بے شیرازہ تھا

border3.jpg


[line]
020 – 01

شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیزاندازہ تھا
تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا​


فرہنگ

شب
رات

خمار
نشہ، سرشاری، کیف، نشہ اترنے کے قریب

ساقی
شراب یا حقہ پلانے والا

خمارِ شوقِ ساقی
ساقی کا انتظار یا آمد کا اشتیاق

رست خیز
حشر، قیامت، فردائے قیامت، پرلے، روزمحشر

رست خیز اندازہ
قیامت جیسی، مانند روز حشر

محیط
کنارہ، حد، گھیرا، گھماؤ، حاوی، وسیع، شمار کرنا
بادہ
مَے، شراب، خُمر

تامحتط بادہ
پیالے کا وہ نشان جو ظاہر کے کہ شراب کہاں تک بھری ہے۔

خانہ
کوٹھا، کمرا، کوٹھڑی، گھر، مکان، بیت، آشیانہ، شترنج کی بساط کا ایک حصہ، انگوٹھی کا وہ حصہ جہاں نگینہ رکھتے ہیں

خمیازہ
بدلہ، مکافات، رنج، تکلیف، پشمانی، افسوس، انگڑائ، بدن تاننا

صورت خانہ خمیازہ
انگرائی کی شکل صورت گری


نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ ساقی کا انتظار رات کو بلکل اس طرح تھا جیسے کوئی روز محشر کا انتظار کرے۔
مصرع نمبر 2۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پیالہ میں شراب بھی انگرائی لےرہی ہو۔


تبصرہ

رات ساقی کو دیکھنےکا اشتیاق قیامت کا نمونہ بن گیا۔ میری انگرائیاں شراب کےدریا کیطرف پھیل رہی تھیں جسےوہ اس اپنے آغوش میں لینا چاہتی ہوں۔

[line]
020 – 02

یک قدم وحشت سے درسِ دفتر امکاں کھلا
جادہ، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا​

فرہنگ

یک
وحشت
درس
دفتر
امکان
جادہ اجزا
ولم
دشت
شیرازہ


نثری ترجمہ


مصرع نمبر 1
مصرع نمبر 2


تبصرہ

قصص و روایات
لفظی و معنوی خوبیاں
شاعری کےاصطلاحات

[line]
020 – 03

مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلےٰ کون ہے؟
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا​

فرہنگ

مانع
وحشت
خرامی
لیلیٰ
مجنوں
صھرا
گرد


نثری ترجمہ


مصرع نمبر 1
مصرع نمبر 2


تبصرہ

قصص و روایات
لفظی و معنوی خوبیاں
شاعری کےاصطلاحات

[line]
020 – 04

مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلےٰ کون ہے؟
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا​

فرہنگ

مانع
وحشت
خرامی
لیلیٰ
مجنوں
صھرا
گرد


نثری ترجمہ


مصرع نمبر 1
مصرع نمبر 2


تبصرہ

قصص و روایات
لفظی و معنوی خوبیاں
شاعری کےاصطلاحات

[line]
020 – 05

مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلےٰ کون ہے؟
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا​

فرہنگ

مانع
وحشت
خرامی
لیلیٰ
مجنوں
صھرا
گرد


نثری ترجمہ


مصرع نمبر 1
مصرع نمبر 2


تبصرہ

قصص و روایات
لفظی و معنوی خوبیاں
شاعری کےاصطلاحات​
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 021 -


دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے 'کیا'؟

حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا

خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا

ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسد
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟

border3.jpg



[line]
021 – 01

دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا​


فرہنگ

غمخواری
دکھ درد کا شریک کرنا، ہمدردی کرنا

سعی
دوڑ دھوپ، کوشش، جدوجہد، محنت، سفارش

تلک
تک


نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1 ۔ کیا میرے دوست مجھ سے ہمدری کرنے کی کوشش کریں گے
مصرع نمبر 2 ۔ کیا میرا زخم بھرنے تک میرے ناخن بڑھ نہ چکے ہوں گے۔

تبصرہ

میرے دوست کتنی ہی کوشش کریں کہ میرے دل کے زخم بھر جائیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ اگر وہ یہ سمجھتے کہ میرے ناخن کانٹنے سے وہ مجھے زخم کریدنے سے باز رکھ سکتے ہیں تو یہ ممکن نہیں کیونکہ ایسا بھی توہوسکتا ہے کہ زخم کے بھر نے تک میرے ناخن بڑھ جائیں۔

لفظی و معنوی خوبیاں

پہلے مصرع میں کیا برائے تحقیر استعمال ہواہے اور دوسرے میں استفہام انکاری ہے۔ دونوں مصرع کو لہر اور جذبہ سے پڑھا جاسکتا ہے ۔ ردیف ' کیا ' انشائیہ کو پیدا کرتی ہے۔ شعر میں کنایہ بھی موجود ہے۔ ہمیں بہت سی چیزیں اخذ کرنی پڑتی ہیں ۔ انگلیوں اور دوستوں کا ناخن کا کاٹنا، زخم کا بھرنا اور زخم کو نئے بڑھے ہوئے ناخونوں سے دوبارہ کھولنے کی ممکینیت وغیرہ

معنی آفرینی۔
ایک بات میں کئی معنی چُھپے ہوں۔ غالب کےا شعا ر زیادہ تر ذو معنی ہوتے ہیں۔

انشائیہ۔
ایساجملہ جس کوجھوٹ نہیں کہا جاسکتا۔ عام طور سوالیہ، قیاسیہ، ندائیہ، شرطیہ، تعجباً جملےایسے ہوتے ہیں۔ انشائیہ کا تضاد خبریہ کہلاتا ہے۔
جس طرح کہ بعض اوقات دنیا میں فریادی ناانصافی کےخلاف شمع جلاتے ہیں یا عرب لوگ مقتول کے خون سے بھرے ہوئے کپڑوں کی کھمبوں پرنمائش کرتے ہیں، اسی طرح ایران میں ایک رسم ہے جیسےنقشِ فریادی کہتے ہیں۔ اس رسم کےمطابق فریادی حکمران کے پاس کاغذ کا لباس پہن کرجاتا ہے

کنایہ
کنایہ لغت میں مخفی اشارہ یا پوشیدہ بات کو کہتے ہیں ۔ علمِ بیان کی اصطلاح میں کنایہ وہ لفظ ہے جس کے معنئ حقیقی مراد نہ ہوں بلکہ معنئ غیر حقیقی مراد ہوں اور اگر حقیقی معنی بھی مراد لئےجائیں توجائز ہو، اس میں ملزوم سے لازم مراد لیا جائے۔ مثلا سفید ریش سے بوڑھا مراد لینا ہے۔
ع ہوگئے موئے سیاہ موئے سپید

اس کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ سیاہ بال سفید ہوگئے مگر مراد مجازی معنی لئے جاتے ہیں کہ جوانی گئی اور بڑھاپا آیا تاہم اگر حقیقی معنی بھی مراد لیں تو درست ہیں۔

مکتبِ غمِ دل ایک اچھا کنایہ ہے جو ناقابوجذبہ کو ظاہر کرتاہے۔

[line]
021 - 02

بے نیازی حد سےگزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے ' کیا ' ؟​


فرہنگ

بے نیازی
بے وابستگی، علیحدگی، تنہائی، خود سری، خود مختاری، بے پروائی، بےتعلقی، استغنا، استقلال

بندہ پرور
تعظیم و تکریم کا لفظ جیسے حضور، حضرت، خداوند،‌ آپ، ‌رورا،‌قبلہ،‌ ‌پیر، مرشد

حال
فی الحال ، کیفیت، حیثیت، طور طریق، وَجد، بےخودی، ذکراس وقت، مجذوب کی کیفیت


نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1 ۔ آپ کی خود سری اور بےتعلقی کی انتہا ہوگی ۔ اب یہ کب تک جاری رہے گی۔
مصرع نمبر 2 ۔ ہم آپ سے ہمارے دل کی کیفیت کا اظہار کریں گے۔ آپ کا کیا مطلب ہے؟


تبصرہ

اس شعر میں عاشق کی بے قراری اور معشوش کی بے پروائی کا ذکر ہے۔ جب کوئی بات نہ سننے تو بولنے والے کو یہ بات ناپسند آتی ہے۔

بار بار کہے جانا کہ کیا کہا؟ بے نیازی کا ثبوت ہے۔ بندہ پرور اس بے نیازئ کیوں ہم تو حال دل کہیں اور آپ کا جواب کیا کہا۔ گویا کچھ سنا ہی نہیں۔

[line]
021 - 03

حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟​


فرہنگ

ناصح
نصیحت کرنے والا، صلاح کار

دیدہ و دل
دل کی آنکھ، باطنی آنکھ

فرشِ راہ
انکساری اور مہمان نوازی کی علامت


نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1 ۔ میر صلاح کار شوق سے آئے ۔ میں اس کی راہ میں قالین بچھا دوں گا۔
مصرع نمبر 2 ۔ مگر کوئی مجھے یہ بتائے کہ وہ مجھے کیا سمجھائے گا؟


تبصرہ

حضرت ناصح ضرور آئیں میں ان کے لیے دیدہ و دل فراش راہ کئے رہوں گا لیکن میری تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ان کی یہ کوشش ہے کہ میں عشق کرنا چھوڑدوں تو یہ ممکن نہیں۔ تو مجھے عشق سے باز رکھنے کی نصحیت کا کیا فائدہ ہوگا۔


شاعری کےاصطلاحات

ناصح
شاعری میں ایک فرضی عقل مند اور دانا کردار کا نام ہے جو ہمیشہ عاشق کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے اور عاشق کو نصحیت کرتا ہے۔طبعاً عاشق اس کی بات نہیں سنتا۔

[line]
021 - 04

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا​


فرہنگ

تیغ
شمشیر، تلوار، تیغ

کفن
وہ کپڑا جس میں مُردے کو لپیٹتے ہیں، مُردے کی چادر

تیغ و کفن باندھ کر جانا ( محاورہ)
لڑنے مرنے لے لیے تیار ہو کر جانا

عذر
بہانہ ، حلیہ، ٹال مٹول، دھوکا، فریب، ظاہرداری،

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1 ۔آج میں لڑنے مرنی کی تیار کرکے وہاں جاتا ہوں
مصرع نمبر 2 ۔ اب وہ مجھے قتل نہ کرنے کا کونسا بہانہ بنائیں گے؟


تبصرہ

عاشق کے لیے معشوق کے ہاتھ موت عشق کا حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے میں آج سر پر کفن باندہ کر اور ہاتھ میں تلوار قتل کرنے کا آلہ لے کر اس کے پاس جاؤں گا۔ اب دیکھتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کرنے سے کیسے انکار کر سکتا ہے؟


قصص و روایات

پرانے زمانے میں عربوں میں ایک رسم تھی۔ جب کوئی مرنے کا مضبوط ارادہ کرلیتا تھا۔ وہ اپنے سر ایک کپڑا باند لیتا تھا۔اس نشانی کی بنا پر کوئی اسے مرنے سے نہیں روکتا تھا۔

[line]
021 - 05

گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا​


فرہنگ

جنون
سودا، خفقان، دیوانگی، حیوانیت، گھبراہٹ

عشق
محبت پریم، پیار، چاہ،


نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1 ۔ اگر ناصح مجھے جیل میں ڈال دے ۔ تو یہ ہی سہی۔
مصرع نمبر 2 ۔ تو کیا اس سے میری محبت کی دیوانگی کم ہوجائے گی؟


تبصرہ

مجھے قید میں رکھنے سے میرے جذبہِ محبت میں کم نہیں ہوگی۔ یہ محض ایک خام خیالی ہے۔

[line]
021 - 06

خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زندن سے گھبرائیں گے کیا​


فرہنگ

خانہ زاد
انکساری کا کلمہ، لونڈی کا بچہ

زلف
بلوں کا لچھا جو کان، کے پاس کنپٹی پر لٹکتا ہے، کاکل، گیسو

زنجیر
لڑی کا سلسلہ ، دروازے کی کنڈی

وفا
نباہ، ساتھ دینا، خیر خواہی، نمک حلالی، وبستگی

زندان
قید خانہ، جیل

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1 ۔ہم ہمشہ سے زلف کے غلام ہیں زنجیر سے کیوں دور بھاگیں۔
مصرع نمبر 2 ۔ ہم تو وابستگی کے قائل ہیں اور وقید خانے سے کیوں ڈریں گے۔

تبصرہ

ہم توطبعاً عشق پیشہ ہیں اور وفا اور زندان دونوں جذبہ عشق کا ایک نہ ٹوٹنے والا حصہ ہیں۔ اس لیے ہم زلف کی غلامی اور وفا کی اسیری سے نہیں گھبراتے۔


لفظی و معنوی خوبیاں

دولخت
پہلے مصرع میں کہا گیا ہے کی ہم خانہ زادِ زلف ہیں ۔ یعنی ہم زلف کے اسیری ہیں۔ مگر دوسرے مصرع میں کہا گیا ہے کہ ہم اسیری ہونے کو تیار ہیں۔ اور دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی ہے۔اور دونوں مصروں کی لمبائی برابر ہے

[line]
021 - 07

ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسد
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟​


فرہنگ

معمورہ
آبادی، بستی، کاشت شدہ زمین

غم کھانا
( محاورہ ) رنج سہنا، صدمہ اٹھانا، دکھ بھوگنا

قحط
کال، خشک سالی، گرانی، مہنگائی، کمیابی

اسد
اسد اللہ خان غالب کا پہلا تخلص،غالب نے یہ تخلص کم از کم چالیس غزلوں میں استعمال کیا ہے


نثری ترجمہ


مصرع نمبر 1 ۔ اس شہر میں ان غم الفت کی کم ہے۔
مصرع نمبر 2 ۔ اگر ہم اس شہر میں رہیں گے تو ہم کیا کھائیں گے۔

تبصرہ

دلی کی آبادی میں عشق و محبت ختم ہوچکی ہے۔ ہم کوغم کھانے کی عادت ہے۔ ہم اس بستی میں کس کرگزارہ کریں گےاور کس طرح زندہ رہ سکیں گے۔​
 

تفسیر

محفلین

border3.jpg



- 022 -


یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا

غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا


border3.jpg



[line]
022 - 01

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا​



فرہنگ

وصال
صُحبت، ہم بستری، ملنا ملاپ، انسان کا خدا سے ملنا، مر جانا، وحدت میں فنا ہوجانا

یار
دوست، مدگار، پیارا، چہیتا، ساتھی، رفیق، معشوق، محبوب

انتظار
راہ دیکھنا، آسرا، اُمید


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ ہماری قسمت میں محبوب سے ملاقات نہیں تھی۔
مصرعہ نمبر 2۔ اگر ہماری عمر اور بڑی ہوتی تو پھر بھی ہماری یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔


تبصرہ

اچھا ہوا کہ ہم اس دنیا سے چلے گئے۔تو موت انتظار سے بہتر نکلی۔ اس سے ملنے کے انتظار میں جو غم و درد ہوتا اس سے ہم بچ گئے۔

[line]

022 – 02

ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا​

فرہنگ

وعدہ
بچن۔ قول و قرار۔ قول۔ عہد و پیمان۔ قرار۔ شرط۔ معاہدہ

جینا (جئے)
زندہ رہنا، ، جاندار، زیادہ، بیش

اعتبار
بھروسا، اعتبار، پتیارا، پرتیت، ساکھ، اعتماد

نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ ہمیں تیرے وعدے پر یقین نہیں آیا پھر بھی ہم تجھ سےملاپ کی تمنا میں زندہ رہے۔
مصرعہ نمبر 2۔اگر ہمیں تجھ پر یقین آجاتا تو ہم اس خوشی میں مر جاتے ۔


تبصرہ

میں تیرے وعدہ محض اس لیے جیتا رہا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ تیرا وعدہ جھوٹا ہے۔ اگر مجھے یہ یقین آجاتا کہ تو وعدہ وفا کرے گا تو میں مارے خوشی کے مر جاتا۔

لفظی و معنوی خوبیاں

پہلے مصرعے میں جان ایک فعل امر ہے۔ یعنی جان لے یعنی معنی آفرینی ۔

[line]
022 – 03

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا​


فرہنگ

نازکی
نرمی، بودا، کمزور، ملائمت، باریکی، لطافت ، صفائی ، ہلکا پن

عہد
وقت، زمانہ، سال، قول و قرار، سلطنت کا زمانہ، پابندی

بودا
ناپائیدار۔ فانی۔ کمزور۔ غیر مستقل، کم ہمت

استوار
مضبوط ، پکا ، پختہ


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ کیونکہ تو کمزور ہے ۔ اس لئے تو نے اپنا کیا ہوا وعدہ توڑ دیا۔
مصرعہ نمبر 2۔ اگر تو مضبوط ارادہ ہوتا تو عہد قائم رہتا ۔


تبصرہ
کیونکہ محبوب نازک ہے اس لیئے اس کا عہد بھی نازک ہے۔ تونے جو عشق کو نبھانے کا وعدہ کیا تھا وہ بہت کمزور تھا۔ اسلئے تجھ سےعہد شکنی ہوی۔ اگر تیرا عہد عشق مضبوط ہوتا تو اپنی نازکی کی بنا پر اسے کبھی نہ توڑ سکتا۔


[line]
022 – 04

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا​


فرہنگ

تیر
سیدھا اور لمبا ٹکڑا۔ ایک قسم کا جنگلی ہتھیار جو کمان میں رکہ کر چلایا جاتا ہے، پتنگ کا
گز، تیج کا تیوہار، طعن و تشنع

تیر نیم کش
وہ تیر جس کو چلانے میں آدھی کماں کو خم دیا جائے سینے میں آدھا پیوست ہو

خلش
چھبن، اڑک، تیس، رنج وغم

جگر
کلیجہ،، جان، طاقت، حقیقت، معشوق، بیٹا، یار

پار
کسی چیز کے ایک طرف سے دوسرے طرف


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔وہ تیر جو میرے سینے میں آدھا پیوست اس کے متعلق مجھ سے پوچھو۔
مصرعہ نمبر 2۔ اگر یہ تیر میرے جگر سےگزر گیا ہوتا تو اتنی تکلیف نہیں ہوتی۔


تبصرہ

اگر تم اس تیر کو پوری قوت سے چلاتیں تو یہ میرے دل کے جگر کے پار ہوجاتا اور مجھے تکلیف نہیں ہوتی۔ مگر تم نے محبت کا تیر حسن کی پوری کمان کو پورا کھینچ کر نہیں چلایا اس لءے یہ میرے حق میں مفید ثابت ہوا۔ اگر پار ہوجاتا تو یہ خلش جو اس وقت لذت دے دی رہی ہے کہاں ہوتے۔

لفظی و معنوی خوبیاں
کوئی میرے دل سے پوچھے – یہ الفاظ خلش کی لذت بیان کرنے کے لئے ہے‏۔

[line]

022– 05

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا​


فرہنگ

ناصح
نصیحت کرنے والا، صلاح کار

چارہ ساز
تد بیروعلاج کرنے والا، مدد کرنے والا ، یار

غمگسار
درد مند، ہمدرد، غم خوار

نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ یہ کیسی دوستی ہے کہ کی اب دوست بھی نصحت کرنے لگے ہیں۔
مصرعہ نمبر 2۔ کاش کوءی ہمارا مدرگار ہو یا شریک غم ہوتا۔


تبصرہ
یہ کیسے دوست ہیں کہ ناصحیتں کرنے لگے۔ یہ تو دل آزاری ہےاس سے تو بہتر ہوتا کہ ہم سے ہمدردی کرتے اور ہماری مدد کرتے۔


[line]
022 – 06

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا​

فرہنگ

رگِ سنگ
استعارہ معروف استعارہ ہے۔ سنگ میں شرار کا وجود بھی مسلم ہے ۔ لہو کے لیے

لہو
لوہو کا مخفف ۔ خون، ایک باپ کی اولاد، کنایتاً ۔ بہت سرخ

تھمنا
رکنا

غم
رنج، دُکھ، افسوس، ملال، حزن، الم

شرار
دو پتھر کے رگڑنے سے جو چنگاری پیدا ہوتی ہے

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ پتھر کی رگوں سے وہ خون ٹپکیتا کہ کبھی روکنے کا نام نہیں لیتا۔
مصرعہ نمبر 2۔ اگر عشق کا غم ایک چنگاری کی طرح ہوتا


تبصرہ
میرے غم عشق کی تپش انتہا پر ہے۔اگر پتھر میں میں یہ غم چنگاری کی صورت میں موجود ہو تو اس کی رگوں سے خون کے ایسے فوارے چھٹیں گے جو کبھی تھمنے کا نام نہیں لیں گے۔

لفظی و معنوی خوبیاں
انسانی بدن کو زخم دیا جاتا ہے تو اسے خون نکلتا ہے۔ جب ایک پتھر کو رگرٹا جاتا ہے تو اس سے چنگاری نکلتی ہے۔
رگ سنگ معروف استعارہ ہے۔ سنگ میں شرار کا وجود بھی مسلم ہے ۔

[line]
022 -07

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا​

فرہنگ

جاں گسل
جان کو گھلادینے والا


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ اگرچہ غم زندگی کو برباد کردیتا ہے ۔ مگر ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ کیونکہ دل تو ہمیشہ موجود ہے ۔ ( دل اور غم میں نہ مٹنے والا رشتہ ہے۔ )
مصرعہ نمبر 2۔ اور اگر غم وعشق نہ بھی ہوتا تو روٹی کپڑے کی پریشانی تو ہوتی ہی ہوتی۔


تبصرہ
آدمی جب تک زندہ رہتا ہے وہ کسی ن کسی مصیبت میں گرفتار رہتا ہے۔ اگر اس کی جان کے ساتھ غم کا روگ لگا رہتا ہے۔ اگر غم جاناں نہیں تو غم روزگار جان کو آلگتا ہے۔


[line]
022 – 08

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا​

فرہنگ

شب غم
ہجر کی رات، جداءی کی رات

بلا
آفت ۔ مصیبت

نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ میں کس سے کہوں کہ غم کی رات کتنی تکلیف دہ ہے۔
مصرعہ نمبر 2۔ اگر میں مرتا تو اس کی تکلیف صرف ایک بار ہوتی۔


تبصرہ: ہجر کی رات کاٹنا ایک سخت عذاب ہے اور مرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ کیوں کہ مرنا توصرف ایک ہی بار ہوتا ہے۔ لیکن ہجر کی رات ادیت تو ایک مسلسل عمل ہے۔

[line]
022 – 09

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا​


فرہنگ

رسوا
کلنک،لگنا، بےعزتی ہونا، بدنامی ہونا، بےحرمتی ہونا

غرق
ڈوبنا ، محو، جذب ، بے خبری

جنازہ اٹھنا
مردے کو قبرستان لئے جانا

مزار
قبر، تربت ، گور


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ مرنے کے بعد ہم دنیا بھر میں بدنام ہوئے ۔اس کے بجائے اگر ہم دریا میں ڈوب جاتے
مصرعہ نمبر 2۔ تو لوگ نہ تو ہی ہم کو دفانانے لے جاتے اور نہ ہماری قبر ہوتی


تبصرہ: مرنے کے بعد لوگ مرنے والے کا ذکر کرتے ہیں کہ یہ فلاں شخص کا جنازہ ہے یا یہ فلاں ناکام محبت کا مزار ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم ڈوب جاتے اور نہ یہ جنازہ اٹھایا جاتا اور نہ ہی مزار بنایا جاتا۔ عاشقی میں عام طریقہ سے جان دے کر جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑا عاشق چاہتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ وہ گمنامی کی موت مر کراس رسوائی سے بچ جاتا۔

[line]
022 – 10

اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا​

فرہنگ

یگانہ
علحیدہ

یکتا
تنہا، اکیلا

دوئی
دو

دوچار
ملاقات، ملنا
بو
باس، مہک، خوشبو، بدبو، سڑاند، خبر، بھنک

نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ کون اسے دیکھ سکتا ہے ۔ وہ تو یکتا ہے (اللہ تعالی)
مصرعہ نمبر 2۔ اگر اس بات میں زرہ برابر بھی حقیت ہوتی کہ وہ یگانہ نہیں تو وہ دو یا چار ہوتا۔


تبصرہ : یہاں " اسے کون دیکھ سکتا" سے محبوب حقیقی یعنی اللہ تعالی سے مراد ہے۔ اللہ تعالی کی ذات واحد ہے اور دیدار ناممکن ۔ اس جیسا دوسرا نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں وہ کسیی نہ کسی شکل دوسری شکل میں بھی نظر آتا یا ملتا۔

[line]
022 – 11

یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا​


فرہنگ

مسائل
(جمع مسئلہ)
اصولات ، قائدے

تصّوف
علم باطن، علم حاضرات ، عرفان ، ربانیت، وحدانیت

ولی
پیر، عمر رسیدہ، مُعمر، بوڑھا، ہادی، رہنما، مُرشد ، بُرگ

بادہ
مَے ،شراب، خُمر

بادہ خوار
شراب پینے والا


نثری ترجمہ


مصرعہ نمبر 1۔ اے غالب! تیری تصوف کے مسائل سے واقفیت اور ان سے متعلق گفتگو
مصرعہ نمبر 2۔ اگر تو شراب پینے والانہ ہو تو ہم تجھے پہنچا ہوا آدمی سمجھتے۔


تبصرہ :
شاعر مقطع میں اپنا تخلص استعمال کر تے ہیں اور عموماً وہ اپنے آپ کوخطاب کرتے ہیں اور اپنی خود ستاءی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کبار وہ ایسے اس طرح استعمال کرتے جیسے وہ دوسروں کا خیال پیش کررہے ہوں۔ یہاں غالب کہتے ہیں کہ اگر میں شراب خور نہ ہوتا تو لوگ میری علم تصوف میں مہارت اور اسکی کی بیانی کی وجہ سے مجھے ولی سمجھتے ۔

ایک اور جگہ گلب کہتے ہیں

دیکھو غالب سےگر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھالا


لفظی و معنوی خوبیاں : اس غزل کے تمام اشعار میں بیان کی صفائی ، سلاست اور زبان کی بے تکلفی ہے۔ اور یہ معنی آفرینی اور جدت سے بھری ہوءی ہے۔
مطلع بہت ناطق اور سلیس ہے۔

روایات
مولانا حالی فرماتے ہیں کہ یہ غزل بادشاہ دہلی کے سامنے پڑی گی تو بادشاہ نے فرمایا، بھئی ! ہم تو جب بھی تمہیں ولی نہ سمجھتے۔ اس پر غالب نے جواب دیا کہ حضور تو اب بھی ایسا ہی خیال فرماتے ہیں( ولی سمجھتے ہیں) مگر یہ اس لئے ارشاد ہو ا کہ میں اپنی ولایت پر مغرور نہ ہوجاؤں
 

تفسیر

محفلین


border3.jpg


[line]
- 023 -


ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟

نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا

نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا

فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا

نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا

دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا کیا

دلِ ہر قطرہ ہے سازِ ’انا البحر‘
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا

محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا

سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن
شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا

کیا کس نے جگرداری کا دعویٰ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا

یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟

بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!

border3.jpg

[line]

01 - 023
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا​



فرہنگ

ہوس ۔ خواہش ،
نشاطِ کار ۔ کام کرنے کی امنگ

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر1۔ انسان کے دل کو کسی کام کو سر انجام دے کر کتنی لذت ہوتی ہے۔
مصرعہ نمبر2۔ اگر موت نہ ہوتی تو زندگی کا لطف چلا جاتا

تبصرہ

اس شعر میں ہوس سے مراد انسان کی انتہائی آرزو مندی اور ذوق و شوق ہے۔ نشاط کار کو بمعنی خوشی اور لذت استعمال کیا گیا ہے۔ یہ شعر انسانی زندگی کی ایک نہایت ہی حسین محاکاتی تصویر ہے۔اگر انسان کو یہ نہ پتہ ہو کہ اس کی زندگی فانی ہے تو وہ سست ہوجائے گا۔ یہ جان کر کہ زندگی مختصر ہے وہ ہر کام کو خوشی سے اور جلد از کرنا چاہتا ہے۔

[line]

02 - 023
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟​


فرہنگ

تجاہل
انجان بننا، ٹالنا، چشم پوشی، بےپروائی

پیشگی
وہ اجرت جو کام کرنے سے پہلے دی جائے

مُدعا
مطلب، مقصد، مراد، غرض، خواہش، ارادہ، مال

سراپا
تمام بدن سر سے پاؤں تک، حلیہ، پورا خلعت

سراپا ناز
محبوب

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ یہ ظاہر کرنا کہ جیسے میری بات سنائی نہیں دے مجھ سے یہ کہنا ۔ کیا؟
مصرع نمبر 2۔ اب کب تک میرے محبوب مجھ سے یہ دانستہ غفلت برتو گے۔

تبصرہ ؛ میرے محبوب تم کیوں حسن کی دولت پر نازاں ہو اور کیوں انجان بنے جاتے ہو ۔ ہر بات میں یہ تکرار ۔ کیا کہا؟ کہاں تک چلے گی۔ جان بوجھ کر انجان بنے سے تمہارا کیا مقصد ہے۔

لفظی و معنوی خوبیاں

کیا، کیا میں کئی معنی پنہاں ہیں۔
اپنے محبوب کی بے پروائی، انجان پن، اور اپنے کو اس طرح سر سے پاؤن تک ناز و انداز سے پیش کرنا پیش کرنا۔

غالب نے ایک اور جگہ کہا ہے

بے نیازی حد سےگزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں کیا۔

[line]
03 - 023
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا​


فرہنگ

نوازش
مہربانی، عنایت، کرم

بے جا
ناحق، بلا سبب، بےموقع، فضول

نوازش ہاے بیجا
غیروں پر بلا سبب مہربانی

شکایت ہائے رنگیں
وہ شکائیتں جواز راہ محبت میں کی جائیں

گلا (گلہ)
شکوہ، شکایت

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ غیر پر تیری بے جا نواشیں دیکھ رہا ہوں
مصرعہ نمبر 2۔ میرے شکایت کرنے پر الٹا مجھ سے گلا کرتے ہو کہ یہ کیا روش اختیار کی ہے

تبصرہ

عاشق محبوب سے کہتا ہے کہ میں کبھی ازراہ محبت بھی شکوہ کرتا ہوں تو آپ شکایت کرتے ہیں اور برا مانتے ہیں۔ لیکن میں اغیار پر آپ کی عنایت بے جا دیکھتا ہوں پھر بھی چپ ہوں۔

[line]

04 - 023
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا​



فرہنگ

مُحابا
لحاظ، مرّوت، ڈر، خوف

نگاہِ بے محابا
بے تکلف محبت بھری نگاہ

تَغافُل
جان بوجھ کرغفلت، بے الفاتی، بے پرواہی

تمکیں
طاقت، مرتبہ، عزت

تغافل ہائے تمکیں آزما
وہ چشم پوشی جو صبر کا امتحان لینے کے لیے کی جائے


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ بے تکلف اور محبت بھری نظروں سے مجھے دیکھو
مصرعہ نمبر 2۔ یہ صبر کوا آزمانے والا تغافل کیوں اختیار کر رکھا ہے۔

تبصرہ

میں چاہتا ہوں کہ آپ نے بے تکلف ہو کر مجھ سے آنکھیں ملایں اور بےجابانہ مجھ سے ملیں آخر بے تکلف ہونے میں صبر آزما غفلت سے کیوں کام لیا جارہا ہے۔

[line]
05 - 023
فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا​


فرہنگ

فروغ
روشنی، نور، چمک، دمک، رونق

شعلۂ
روشنی، چمک، آگ کی لپٹ، لو

خس
گھاس کے تنکا

فروغِ شعلۂ خس
گھاس کے تنکے سے پیدا ہونے والا شعلہ

ہوس
ہوس کار یا رقیب

ناموس
آبرو، شرم، عزت

پاسِ ناموسِ وفا
محبت کی عزت کا پا

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ رقیبوں کو وفائے محبت کی عزت کا پاس نہیں ہوتا ۔
مصرعہ نمبر 2۔ ان کی محبت کا زور و شور خس کے شعلے روشنی کی طرح دم بھر کی

تبصرہ

رقیب کی جھوٹی محبت گھاس ایک تنکے کے اس شعلے کی طرح ہے جو لمحہ بھر کے لیے لپک کر بجھ جاتا ہے۔ اور ایسا ہونا تعجب کی بات نہیں کیونکہ ہوس کے بندے کو ناموس وفا کا خیال نہیں رہتا وہ تو اپنی نفسانی خواہش کی آسودگی چاہتا ہے۔


[line]
06 - 023
نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا​


فرہنگ

نفس
نَفَس، سانس ، دم، گھڑی، ساعت

موج
لہر، ترنگ، طلاطم، امنگ، جوش، ولولہ، طبیعت

محیطِ
احاطہ کرنے والا، چکر

بیخودی
بے ہوشی، شرشاری ، مستی

تغافل
جان بوجھ کرغفلت، بے الفاتی، بے پروائ

ساقی
شراب پلانے والا

گلا
شکوہ ، شکایت


نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ میرا ہر سانس مستی و بے خودی کی سوچ بن کر میرے سارے وجود پر چھایا ہوا ہے۔
مصرعہ نمبر 2۔ مجھے کسی اور نشہ کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مجھے ساقی سے کوئی شکایت ہے

تبصرہ

اگر ساقی میری طرف توجہ نہیں دیتا میں اس کی شکایت کیوں کروں میری تو ہر سانس میں مستی کے دریا کی ایک موج ہے۔

[line]

07 - 023
دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا کیا​


فرہنگ

پیراہن
کرتہ

صبا
صبح کی ہوا، مشرقی ہوا

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ محبوب کےکرتہ سے آنے والی بو یقینًا کسی اور نے لگائی ہوگی جو مجھے گوارا نہیں ہے
مصرعہ نمبر 2۔ اگر صبا اپنی آورگی کی بنا اس کو اڑا لے جائے تو مجھے اس کا غم نہیں ہوگا


تبصرہ

ہم تو محبت کی بو کےطلب گار ہیں۔ صبا اس کرتہ پرلگی ہوئی بو کو اڑا کر کےجاسکتی۔ ہمیں مصنوعی عطر کی خوشبو کی پرواہ نہیں۔ اور نہ ہی غم ہوگا۔

[line]
08 - 023
دل ہر قطرہ ہے سازِ ’انا البحر‘
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا​


فرہنگ

قطرہ
پانی کی ایک بوند

سازِ
موسیقی

’انا البحر‘ میں سمندر ہوں

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ ہر قطرہ اپنے آپ کو سمندر سمجھتا ہے
مصرعہ نمبر 2۔ ہماری عظمت تو اور بھی زیادہ ہے۔ ہم اس کی ذات کا نور ہیں

تبصرہ

1۔ ہر ایک قطرہ کا یہ گارہا ہے کہ میں سمندر ہوں کیونکہ میں سمندر میں مل کر سمندر بن جاتا ہوں تو ہماری عظمت کا اندازہ کس سے ہوسکتا ہے۔ ہم تو اس ہی ذات کا نور ہیں.
2 ۔ جس طرح ہرقطرہ خود کوسمندر سمجھتا ہے۔ اسطرح ہم بھی ہمارے بنانے والے کا نور ہیں۔


ایک اور جگہ غالب کہتے ہیں

قطرہ اور طوفان
دل میں پھر گریا نےایک شور اُٹھایا
آ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو ظوفاں نکلا

قطرہ اور گوہر
دامِ ہر موج میں ہے حلقہِ سد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گوہر ہونے تک

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

[line]
09 - 023
محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا​


فرہنگ

مُحابا
ڈر،، لحاظ، مرّوت، پاس داری، صلح، اِعانت، فروگزاشت، احتیاط، ڈر، خوف

محابا کیا ہے
ڈرنے کی کیا بات ہے

ضامِن
ذمّہ دار

شہیدانِ نگہ
محبوب کی نظروں کے شہید

بہا
قیمت، مول، دام

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ میرے محبوب میری طرف دیکھ اس میں ڈرنے کی کوی بات نہیں۔ میں اس بات کی ذمہ داری لیتا ہوں
مصرعہ نمبر 2۔ نظروں کے تیر سے مرنےوالوں کےخون کا بہا کہاں طلب کیا جاتا ہے۔

تبصرہ

محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔ اے قاتل میری طرف بےخوفی سےدیکھ۔ میں تجھےبری الذمہ کردینے کا ظامن بنتا ہوں. یوں بھی نظروں کے تیرسےشہید والوں کےخون کا بہا کہاں طلب کیا جاتا ہے۔


[line]
09 - 023

سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن
شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا​


فرہنگ

جنسِ وفا
عشق و وفا کے بندے

غارت گرِ جنسِ وفا
محبوب

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ اے جنس وفا کو لوٹنے والے سن۔
مصرعہ نمبر 2۔ اس کے بغیر دل کی قیمت شکست ہوچکی ہے۔

تبصرہ ؛
دل ٹوٹتا ہے تو ( آواز ) فریاد بھی نکلتی ہے۔ اور اس سےڈرنا بجا بھی تھا۔ مگر دل کی قیمت ٹوٹ گی تو اس کی فریاد نہیں ہے تو ڈر کس بات کا ہے۔

لفظی و خوبی معنیٰ

جنس اور قیمت نیز سُن اور صدا کی رعائتیں قابل توجہ ہیں۔

[line]
11 - 023
کیا کس نے جگرداری کا دعویٰ ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا​


فرہنگ

جگرداری
صبر و ضبط

دعویٰ
درخواست، خواہش، مطالبہ، مانگ

شکیب
صبر، تحمل، بُرباری، برداشت

شکیبِ خاطرِ عاشق
عاشق کے صبر و تحمل

نثری ترجمہ

مصرعہ نمبر 1۔ اے محبوب تو میرے صبر کا مطالبہ کیوں کرتا ہے۔
مصرعہ نمبر 2۔ بھلا عاشق کےدل میں صبر و تحمل رہ سکتا ہے

تبصرہ

میرے محبوب تو میرے صبر و ضبط کا امتحان کیوں لے رہا ہے۔ یہ امتحان تو اس صورت میں کیا جاتا کہ میں جگرداری کا دعویٰ کرتا۔ ایک عاشق کے دل میں برداشت نہیں ہوتی ہے۔


[line]
12 - 023
یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟​



فرہنگ

قاتل
قتل کرنے والا، جلّاد، خونی، مہلک، جان لیوا، ظالم

کافر
خدا کو نہ مانےوالا، بے دین، مجازﴼ

فتنہ
جھگڑا، فساد، آزمائش، شوخ

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ یہ صبر آزما وعدہ جو قاتل ہے
مصرع نمبر 2۔ اور یہ کافر فتنہ جو میری طاقت کو اڑا کر کے جا رہا ہے

تبصرہ

اے محبوب ایسا صبر آزما وعدہ جو میرے لیے قاتل ثابت ہو رہا ہے کیوں کیا۔ اس قسم کا فتنہ محشر جوطاقت کو زائل کردے اور جو خدا کی بھی پرواہ نہ کرے کیوں برپا کیا۔


[line]
013 - 023
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!​
فرہنگ
بلا ( ئے)
سختی، مصیبت، آسیب

بلائےجان
ستم ڈھانے والی

عبارات (جمع عبارت)
ر، مضمون، مدعا، بیان

اشارات (جمع اشارہ)
کنایہ، رمز، ایما

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔اس کی ہر بات ستم ڈھاتی ہے
مصرع نمبر 2۔ تحریر، کنایہ اور ادا بھی

تبصرہ

محبوب کی ہر بات، ہراشارہ اور ہرادا اپنی غیرمعمولی دلکشی و دلآویزی کےسبب میرے پرستم ڈھاتی ہے۔ نہیں کیونکہ ہوس کے بندے کو ناموس وفا کا خیال نہیں رہتا وہ تو اپنی نفسانی خواہش کی آسودگی چاہتا ہے۔

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 024 -


درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا

کم نہیں نازشِ ہمنامئ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا

سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا*

ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا


border3.jpg



[line]
01 - 024
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا​


فرہنگ

درخورِ
لائق، قابل، سزاوار، رسائ پہنچ، دخل

قہر
غصہ ، غلبہ ، جوش

غضب
قہر، مصیبت، بے انصافی، بڑھ چڑھ کر

درخورِ قہر و غضب
محبوب کے ظلم و ستم کے برداشت کرنے کا اہل

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ میری طرح تمہارا ظلم و ستم برداشت کرنے والا کوئ نہیں ہوگا
مصرع نمبر 2۔ اس لئے اگر میں اپنے آپ کو بے مثال کہوں تو یہ غلط نہیں ہوگا

تبصرہ

تم مجھے اپنے ظلم و ستم کے برداشت کرنے کا اہل سمجھتے ہو۔ اس لئے اگر ہم یہ کہیں کہ ہم جیسا کوئی اور پیدا ہی نہیں ہوا تو ہمارا یہ دعویٰ غلط نہیں ہوگا

[line]
02 - 024
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا​


فرہنگ

بندگی
پرستش، انکسار، خدمت ،سلام

خودبیں
خود دار، مغرور، خود پسند

وا
کُھلاہوا، کشادہ، جُدا، الگ، پھیلا ہوا، دوسری دفعہ، پھر، بعد

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ہم عبادت و اطاعت میں بھی خودار ہیں
مصرع نمبر 2۔ اگر کعبہ کا دروازہ کھلا نہ ہو تو ہم واپس لوٹ آئیں گے

تبصرہ

میری خود داری اورآذاد پسندی کا یہ عالم ہے کہ اگر مجھے کعبہ کا دروازہ کھلا نہ ملے تو میری خود بینی مجھ سےالٹے پاؤں لوٹنے کا تقاضا کرے گئی۔


[line]
03 - 024
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا​


فرہنگ

دعویٰ
درخواست، خواہش، مطالبہ، مانگ

یکتائی
وحدانیت، انوکھا پن

روبرو
آمنے سامنے ، مقابل، مُنہ درمُنہ

بُت
مورتی، مجسہ، ( مجازاً) معشوق، محبوب

سیما
ماتھا، پیشانی، چہرہ ، مُنہ

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ سب نے یہ مان لیا ہے کہ تو یکتا ہے
مصرع نمبر 2۔ تیرے سامنے آئینے جیسی پیشانی والا کوئی نہیں آیا۔

تبصرہ

1 ۔ کیونکہ سب نے یہ مان لیا ہے کہ تو یکتا اور یگانہ ہے اور تجھےاپنا معبود جانا ہے۔ تبھی کسی اور نے یکتا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۔

2 ۔ کیونکہ آج تک آئینےجیسی پسشانی والا تیرے روبرو نہیں آیا اسی سےثابت ہوتا ہے کہ تیری یکتائی کوسب مانتے ہیں۔


[line]
04 - 024
کم نہیں نازشِ ہمنامئ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا​



فرہنگ

نازش
ناز، فخر، بے پرواہی، بدماغی

ہم نامی
اصطلاحاً بہ معنی ہم سری

چشم
آنکھ، دیدہ، نین، آس، امید

چشمِ خوباں
حسینوں کی آنکھ، آدھی کھلی آدھی بند، نیم وا

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ میری حیسنوں سے ہم سری باعث فخر ہے۔
مصرع نمبر 2۔ تیرا بیمارِ غم تندرست نہیں ہوسکا تو کوئی بُری بات نہیں۔

تبصرہ

چشمِ محبوب کو بھی بیمار کہتے ہیں اور میں بھی محبوب کی محبت کا بیمار ہوں اس طرح ہم دونوں ہم نام ہوگئے، یہ ہم نامی میرے لیے باعث فخر ہے۔ یہی عزت میرے لیے بہت ہے

[line]
05 - 024
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا​


فرہنگ

نالہ
فریاد، واویلا، شور، غُل، فغاں

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ میری سینے سے نکل کر لب تک نہ آسکی اور سینےمیں ایک داغ بن گئی
مصرع نمبر 2۔ جس طرح قطرہ، دریا تک نہیں پہونچ پاتا اور ریت کی غذا بن جاتا ہے۔

تبصرہ

میرا نالہ لبوں تک نہیں پہونچ پایا اور ایک قطرہ کی طرح جو دریا تک پہونچے کی کوشش میں مٹی میں جذب ہوجاتا ہے میرا نالہ سینے میں ایک داغ بن گیا۔

[line]
07 - 024
ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خون ناب
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا​


فرہنگ
دمِ ذکر
بیان کرتے وقت

بُنِ مو
ایک ایک بال سے

خون ناب
خالص خون، خون کے آنسو، سرخ

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ بیان کرتے ہوئے ایک ایک بال سے خون ٹپکتا ہے
مصرع نمبر 2۔ اگر ایسا نہ ہو توحمزہ کے عشق صرف ایک کہائی کہلائے

تبصرہ
سچے عشق کے بیان کی یہ تاثر ہے کے سن کر ایک ایک روئیں سے خون بہنے لگتا ہے۔ اگرایسا نہ ہوتوعشق کوامیرحمزہ کا قصہ یعنی ایک کہانی ہی کہا جائے گا۔


قصص و روایات

حمزہ کا قصہ
امیرحمزہ ، خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں ایک باغی جوان تھا جس کی داستان “طلسم ہوش ربا“ کتاب میں درج ہے۔ امیر حمزہ دور دور جہگوں پر سینکڑوں بار خوبصورت عورتوں کے عشق میں گرفتار ہوا تھا۔


[line]
08 - 024
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا​


فرہنگ

دجلہ
دریا

جز
ٹکڑا ، سوائے، علاوہ

کُل
تمام، سب، پورا، ہرایک

دیدۂ بینا
ہوشیار، تیزفہم، تیزنظر

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ اگر قطرے میں دریا نہ دیکھائی دے اور ٹکڑے میں کُل
مصرع نمبر 2۔ تو یہ تیز فہمی نہیں ہے یہ تو بچوں کا کھیل ہے

تبصرہ

جو لوگ حقیقی عارف ہوتے ہیں وہ قطرہ میں دریا اور جز میں کُل کی پہچان کرلیتےہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان کوعرفان معرفت کےعہدہ پر فائز کرنا درست نہیں اور یہ تو بچوں کا کھیل سمجھاجائےگا۔

[line]
09 - 024
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا​



فرہنگ

پُرزے اُڑانا
ٹکڑے ٹکڑے کرنا، محاواً ہدفِ ملامت بنانا

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔کہا گیا کے آج غالب کوہدفِ ملامت بنایا جائےگا۔
مصرع نمبر 2۔ ہم بھی دیکھنے گئےمگر وہاں تو اس کا کچھ نہیں ہوا۔

تبصرہ

یہ کہا جارہا تھا کہ آج غالب کی رسوائی ہوگی اور یہ تفریح و تماشا دیکھنے کوملےگا۔ ہم بھی دیکھنے پہونچے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

 

تفسیر

محفلین


border3.jpg


- 025 -

اسدہم وہ جنوں جولاں گدائے بےسروپاہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا


border3.jpg


[line]

01 - 025
اسد ہم وہ جنوں جولاں گدائے بےسر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا​


فرہنگ

جنوں جولاں
جنوں میں گرفتار، دیوانہ وار پھرنا

گدائے بےسر و پا
یکسر نے سرو ساماں

سر پنجۂ مژگانِ آہو

پشت خار
پیٹھ کو کھجانے کا پنجۂ

نثری ترجمہ


مصرع نمبر 1۔ اسد میری کیفیت ایک وحشت زدہ اور یکسر بے سروسامان کی سی ہے
مصرع نمبر 2۔ اس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ میرے پاس پشت خار نہیں اور میں یہ کام سر پنجۂ مژگانِ آہو سےلیتا ہوں۔

تبصرہ

میں اپنی وحشت ناکی میں رم کرکے آہوان صحرا سے آگے نکل جاتا ہوں اور ان کی آنکھیں جب میری پشت پر پڑتی ہیں تو گویا پشت خار کا کام کرتی ہیں۔

تشبیہ
مژگاں کو پہلے پنجۂ سےتشبیہ دی ہے اور پھر پنجۂ مژگان کو پشت خار سےمشابہ کہا۔
آہو کا ذکر بھی اسد بہ معنی شیر کی فرضی رعایت سے آیا ہے۔​
 

تفسیر

محفلین


border3.jpg


- 026 -


پئے نذرِ کرم تحفہ ہے شرمِ نا رسائی کا
بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ، دعویٰ پارسائی کا

نہ ہو' حسنِ تماشا دوست' رسوا بے وفائی کا
بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا

زکاتِ حسن دے، اے جلوۂ بینش، کہ مہر آسا
چراغِ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا

نہ مارا جان کر بے جرم، غافل!* تیری گردن پر
رہا مانند خونِ بے گنہ حق آشنائی کا

تمنائے زباں محوِ سپاسِ بے زبانی ہے
مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا

وہی اک بات ہے جو یاں نفَس واں نکہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا

دہانِ ہر" بتِ پیغارہ جُو"، زنجیرِ رسوائی
عدم تک بے وفا چرچا ہے تیری بے وفائی کا

نہ دے نامے کو اتنا طول غالب، مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا


border3.jpg


[line]
01 - 026
پئے نذرِ کرم تحفہ ہے شرمِ نارسائی کا
بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ، دعویٰ پارسائی کا​



فرہنگ

کرم
کرم سے مراد کریم

شرمِ نا رسائی
عدم معرفت کی شرم

صد رنگ
سو رنگ

دعوی
درخواست، خواہش، مطالبہ، مانگ

پارسائی
نیکی، پاکی، عفت، زہد، پاکیزگی

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ ہم شرم و حیا کی وجہ سے پارسائی کا دعویٰ نہیں کرتے۔
مصرع نمبر 2۔ دعویٰ پارسائی کا سو رنگ سےخون میں لوٹا ہے۔

تبصرہ
میری پارسائی کا دعوی بھی پاکیزہ نہیں ہے یہ طرح طرح کی لغزیشوں سے آلودہ ہے۔ یعنی بہ سب شرم وخجالت کے ہم پارسائی کا دعویٰ نہیں کرتےگویا پارسائی کا دعویٰ کرنا بے شرمی ہے۔

پارسائی کا دعویٰ جوصدہا گناہوں کی حسرتوں کےخون سے آلودہ ہورہا ہے۔ نارسئی کی شرم و ندامت کےعالم میں ایک تحفہ سمجھ کر کریم کی بارگاہ میں نذر کرنے لایا ہوں۔

[line]
02- 026
نہ ہو' حسنِ تماشا دوست' رسوا بے وفائی کا
بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا​



فرہنگ

حسنِ تماشا دوست
تماشا اور نطارگی کو پسند کرنے والا حسن

رسوا
بدنام، مذمت، کلنک، بہتان ، بدگوئی

مہر
چھاپ

صد
ایک سو

دعویٰ
درخواست، خواہش، مطالبہ، مانگ

پارسائی
نیکی ، پاکی، عفت، زہد، پاکیزگی



نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ حسن کا اپنا جلوہ دیکھانے کو بے وفائی کا الزام دیا جارہا ہے
مصرع نمبر 2۔ سینکڑوں نظریں تیرے چہرے پر مہر لگا کر تیری پارسائی کے دعویٰ کی تائید کر رہی ہیں۔

تبصرہ
ہمارا محبوب پاک دامن ہے مگر اس میں عیب ہے تو صرف اتنا کہ وہ بے وفا ہے جس کی وجہ سے ہو رسوا ہوگیا ہے۔ مگر اس کی پاک دامنی میں کوئی شبہ نہیں ہے۔


تشبیہ
‘چشم‘ کی تشبیہ ‘مہر‘ کےساتھ دیجاتی ہے اور یہاں قاعدہ مجازِ مرسل کے لحاظ سے نظر بمعنی چشم مستعمل ہوا ہے۔

[line]
026-03
زکاتِ حسن دے، اے جلوۂ بینش، کہ مہر آسا
چراغِ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا​


فرہنگ

زکات
صدقہ، خیرات

زکاتِ حسن
خوبصورتی کا صدقہ ، بوسہ

جلوۂ
دیدار

بینش
نظر، نگاہ، دانائی

جلوۂ بینش
دیدار دوست ۔ مراد محبوب

آسا
مانند

مہر آسا
سورج کے مانند

کاسہ
کٹورا، پیالہ

گدائی
فقیری

کاسہ گدائی
بھیک کا ٹھیکرا ، کشکول

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ اے سورج کے مانند محبوب مجھے ایک بوسہ تو خیرات میں دے۔
مصرع نمبر 2۔ تاکہ اس فقیر کا پیالہ چراغ بن جائے۔

تبصرہ

اے مہر آسا محبوب مجھے اپنےحسن کا تھوڑا سا جلوہ تو دکھا تاکہ میرے گھر کا چراغ بن کر مہر عالم کےجیسا بن جائے۔

کاسہ اور مہر کی مشابہت
زکاتِ حسن (کنایہ) خوبصورتی کا صدقہ ، بوسہ

[line]
026-04
نہ مارا جان کر بے جرم، غافل!* تیری گردن پر
رہا مانند خونِ بے گنہ حق آشنائی کا​

فرہنگ


نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ غافل، تونےمجھے بےقصور سمجھ کرنہیں قتل کیا۔ مگر تیری گردن پر ۔۔۔
مصرع نمبر 2۔ یہ خون اب بھی سوار ہے کیونکہ دوستی کا حق ادا نہ ہوا۔

تبصرہ

تونےمجھے بےگناہ سمجھ کر قتل نہیں کیا کہ یہ قتل تیری گردن پر سوار نہ رہے۔ لیکن تجھے معلوم تھاکہ میں خود تیرے ہاتھوں سے مرنا چاہتا ہوں اب ایسی صورت میں تیری گردن پر ایک بے گناہ کا قتل نہ رہا ۔ لیکن حق آشنائی یعنی حقیقت حال سے واقف ہونے کا بار تو بہرحال رہا۔

مستغنی عن اتوصیف دوستی کےحق کو خونِ بےگنہ ثابت کرنا اعجاز بیانی ہے اور سب سے زیادہ نازک بات یہ ہے کہ قتل نہ کرنے کو بےگنہ کا خون بہانا قرار دیا ہے۔

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 027 -


گر نہ ‘اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہوجائے گا

زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پر توِ مہتاب سیلِ خانماں ہوجائے گا

لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہوجائے گا

دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہوجائے گا

سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہوجائے گا

گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط
شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہوجائے گا

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر ایک "چشمِ خوں فشاں" ہوجائے گا

وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہوجائے گا

فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسد!
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہوجائے گا


border3.jpg

[line]

01 -027
گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہوجائے گا​


فرہنگ

اَندوہ
رنج و غم، فکر، تروّد

شب
رات، رَین

فُرقت
جدائی، ہجر، علحیدگی

بیان
روشن، واضع، ذکر، خبر

بے تکلف
بناوٹ کے بغیر، قدرتی، آزادانہ

داغ
دھبا، نشان ، عیب، کلنک کا ٹیکہ، غم، حسد ، عیب

دہاں
دہن ، منہ

مہ
چاند ، چاند سے یہاں مراد محبوب ہے

مُہر
کسی چیز پر کھدا نام، خاتم، انکوٹھی، اشرفی، سونے کا ایک سکہ

داغِ مہ
محبوب کی جدائی کا داغ

مُہرِ دہاں
منہ پر مُہر

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ اگر میں جدائی کی رات کے رنج و غم کا ذکر نہ کروں۔
مصرع نمبر 2 ۔ تویہ داغِ غم میرے منہ پرخاموشی کی مُہر لگادیےگا۔

تبصرہ

یہاں چاند سے مراد محبوب ہے۔ اور داغ مہ یعنی محبوب کی جدائی کاداغ ۔ اگر میں شبِ فراق کاغم و اندوہ بیان نہ کروں گا۔ یعنی اگر تم نہیں سننو گے تو اس کا نتیج یہ ہوگا کہ تمہاری جدائی کا داغ میرے منہ پر مُہر بن کر مھے خاموش کردے گا۔ اور میرے کچھ نہ کہنے سے بھی تمہاری رسوائی ہوگی۔ اور میں اندوے شب غم سے میرے سینے میں جو تنگی پیدا پوگئی وہ میر جان لے لئے گی۔


[line]
027-02
زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پر توِ مہتاب سیلِ خانماں ہوجائے گا​


فرہنگ

زہرہ
پتہ

پرتوِ مہتاب
چاندنی

شامِ ہجر
جدائی کی شام

آبِ
پانی، پسینہ، آنسو، عرق، چمک

سیل (مذکر)
چھوٹا نیزہ ، تیر

سیل (مونث)
نمی ، شرم ، سردی ، سیرت

خانماں
گھر کا اسباب ، مال و متاع


نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ اگر شام جدائی کے باعث ہر شہ کا پتہ پانی ہوتا رہا
مصرع نمبر 2۔ تو کسے معلوم کے چاندی کا پتہ بھی پانی بن کر میرے گھر کو بہا کر لئے جائے

تبصرہ

اگر شام جدائی میں ہر ایک چیز کا کلیجہ اسی طرح پانی ہوتا رہا تو چاند کی روشنی بھی میرے گھر کے لیے سیلاب بن جائے گی۔
گاہے بہ گاہے شبِ فراق میں عشاقوں کی وحشت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ انہیں خوبصورت سےخوبصوت چیزیں بھی مہیب و خوفناک نظر آنے لگتی ہیں۔


[line]
027-03
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہوجائے گا​


فرہنگ

بوسہ
چومنا ، پیار، چوما چاٹی

کافر
غیر، دشن ، خدا کو نہ مانے والا ( اصلاحاً )، محبوب ( مجازاً )

بدگماں
بُرا خیال رکھنے والا، بدظن ، شکی

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ جب میرا محبوب سو رہا ہو تو میں ایسا کرسکتا ہوں کے اس کے پاؤں کو چوم لوں
مصرع نمبر 2 ۔ لیکن اگر اُس کو یہ معلوم ہوگیا تو وہ میری محبت کو شک کی نگاہ سے دیکھے گا۔

تبصرہ

میرا دل چاہتا ہے کہ میں محو خواب محبوب کے پاؤں کوچوم لوں۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ وہ میرے پاکیزہ عشق کو ہوسناکی سمجھ کر مجھ سے کنارہ کشی نہ اختیار کرلے

[line]

027-04
دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہوجائے گا


فرہنگ

صرفِ وفا
معنی دل کی وفا داری

نذرِ
بھینٹ، قربانی، منت

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ ہم کو کیا معلوم تھاکہ دل ہمارا ساتھ نہیں دے گا
مصرع نمبر 2 ۔ امتحان کےموقع پر اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

تبصرہ

ہم نے دل کو وفادار سمجھا تھا۔ اسوجہ سے یہ سوچا تھا کہ عشق کی تمام منزلیں کامیابی سے طے ہوجائیں گی۔ لیکن دل تو پہلے کی امتحان میں ہار گیا۔

[line]
027-05
سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہوجائے گا​


فرہنگ

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ ہر دل میں تیرے لئے ایک جگہ ہے ۔اگر تو راضی ہوجائے
مصرع نمبر 2 ۔ تو سارا زمابے مجھ پر مہرنان ہوجائے گا۔

تبصرہ

اے محبوب تیری چاہت تو ہر دل میں ہے اس لیے اگر تو مجھ پر مہربان ہوجائے اور مجھے چاہنے لگے تو ساری دنیا خود بخود مجھے بھی چاہنے لگے گی۔

[line]

027-06
گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط
شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہوجائے گا​


فرہنگ

نگاہِ گرم
ملامت اور غصہ کی نگاہ

ضبط
نگہبانی، حفاظت، انتظام، روک و رکاوٹ، قید

نہاں
چھپا ہوا، پوشیدہ

خس
سوکھی گھاس، پھوس، خاشاک ، ایک خاص قسم کی خوشبودارگھاس کی جڑ جوگرمی کے موسم میں ٹٹیاں بنانے کے کام

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ اگر تیری عتاب کی نظریں ضبط رکھنے کا حکم دیتی رہیں
مصرع نمبر 2 ۔ خوف سے تنکوں کے اندر آگ اسطرح چھپتی پھرے گی جس طرح رگوں میں خون چھپا رہتا ہے۔


تبصرہ

تیرے عتاب کے خوف سے میری قوت ضبط پوشیدہ رہ کر اندر مزید طاقتور ہوجائے گی۔

[line]
07-027
باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر ایک "چشمِ خوں فشاں" ہوجائے گا​


فرہنگ

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ مجھ کو باغ میں نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
مصرع نمبر 2 ۔ پھول بھی لہو رونے لگیں گے۔

تبصرہ

گلِ تر کو اس کی سرخی کی وجہ سے چشمِ خون فشاں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مجھے باغ میں لےجانا مناسب نہیں۔ ورنہ میرے حال پر ہر گلاب کا پھول اپنی آنکھوں سےخون رسانے لگے گا۔

[line]
027-08
وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہوجائے گا​


فرہنگ

وائے
کلمہ افسوس جو اظہار مصیب یا رنج الم کے موقع پر زبان پر آتا ہے۔

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ مجھے افسوس ہوگا گر میرا تیرا انصاف محشر میں نہ ہوا
مصرع نمبر 2 ۔ اب تک تو یہ امید ہے کے وہاں ہوجائے گا

تبصرہ

ابھی تک تویہ امید ہے کہ تونے مجھ پر جو ظلم ڈھائےہیں، جب میں ان کی فریاد میں محشر میں لے جاؤں گا۔ تو میرے ساتھ انصاف ہوگا۔ اور اگر وہاں بھی انصاف نہیں ہوا تو اپنی بدقسمتی کا رونا کس سے روؤں گا۔

[line]
027-09
فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسد!
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہوجائے گا​


فرہنگ

دانا
عقل مند، ہوشیار، دانش مند

زِیاں
زر، نقصان، خسارہ

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ اسد تو بھی ہوہشار ہے سوچ کے اس میں کیا فائدہ ہے۔
مصرع نمبر 2 ۔ ناداں کی دوستی سے نقصان پہنچے گا۔

تبصرہ

نادان اور دانا میں صنعتِ تضاد کا لطف ہے۔ نادان کی دوستی جی کا زیاں یہ محاورہ ہے۔
اسد! آپ تو ہوشیار ہو، یہ سوچو کہ کسی نادان کی دوستی کا کیا فائدہ ہے؟ اس میں تو سراسر نقصان ہے اس لیےدانائی کا تقاضہ ہے کہ نادان کی دوستی سے دور رہا جائے۔

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg



- 028 -

درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب ،"کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا"
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں* ہے کہ حق ادا نہ ہوا
زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما
کام گر رک گیا، روا نہ ہوا
رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، "دلستاں" روانہ ہوا
کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا!

border3.jpg

[line]
028-001
درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا​

فرہنگ
مِنّت کشِ
احسان اٹھانے والا

اچھا نہ ہونا
تندرست نہ ہونا

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ میرے درد کو دوا کا احسان نہیں اٹھانا پڑھا
مصرع نمبر 2۔ میں صحت مند نہہوسکا۔ یہ اچھی بات ہوئی ۔

تبصرہ

میرا درد لاعلاج تھا۔ دوا کے نا اثر کرنے کی وجہ سے میں اس کا احسان مند ہوا نہیں ہوا۔ پس اگر تندرست نہیں ہوا تو کوئی ہرج نہیں احسان سے تو بچ گیا۔ مطلب ہے کہ احسان اٹھانے سے بہتر مرجانا بہترہے۔

[line]
028-002
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا​

فرہنگ

رقیب
ایک معشوق کے عاشقوں میں سے کوئ ایک ، حریف، ہم پیشہ ، نگہبان

تماشا
دید ، سیر، تفریح، نظارہ، لطف، کھیل، مذاق, ناٹک

گلا
شکوہ، شکایت

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ میرے رقیبوں کو کیوں بلایا ہے۔
مصرع نمبر 2۔ یہ تو میرے شکوہ کو سننا نہیں بلکہ میرا مذاق اُڑانا ہے۔

تبصرہ

غیروں کوبلا کر ان کے سامنے میرے شکوہ و شکایت کو سننا مناسب نہیں ہے ۔ یہ تو ہم دونوں کے درمیان ہے۔ اگر میں شکایت کو میرے رقیبوں کے سامنے بیان کروں گا تو وہ میرا مذاق اڑائیں گا۔

[line]
028-003
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا​

فرہنگ

آزما
امتحان لینا

خنجر
ایک ہتھیار جو چھرے کی طرح ہوتا ہے، کٹار

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ میں اب کہاں اپنی قسمت کو آزمانے جاؤں
مصرع نمبر 2۔ تونے ہی میری جان نہیں لی

تبصرہ

میری آرزو تھی تو میری عاشقی کا امتحان لے یعنی مجھے شہید کردے۔ اب میں یہ حسرت لے کر جاؤں اور کس کے پاس جاؤن جب توہی اس پر آمادہ نہیں ہوا۔

[line]
028-004
کتنے شیریں ہیں تیرے لب ،"کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا"​

فرہنگ

شرین
میٹھا، خوشگوار، فرہاد کی معشوقہ کا نام

لب
ہونٹ

گالیاں کھانا
بُرا بھلا سننا

بے مزا
بہ معنی خفا

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ تیرے ہونٹوں میں کتنی مٹھاس ہے کہ میرا مخالف
مصرع نمبر 2۔ بھی تجھ سے بُرا بھلا سن کر خفا تک نہیں ہوا۔

تبصرہ

یہاں بے مزا بہ معنی حفا کے استعمال ہوا ہے۔ یہ قافیہ شریں کی مناسبت سے آیا ہے۔
محبوب کے ہونٹوں میں کتنی مٹھاس ہے کے اس کی گالیاں بھی تلخ نہیں ہوتیں۔ میرے رقیب کو بھی یہ ناگوار نہیں ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تیرے لب شرین ہیں۔

[line]
028-005
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا​

فرہنگ

خبر آنا
( محاورہ ) اطلاع آنا۔ موت کی سناؤنی کا آنا

بوریا
چٹائی، غریبانہ بستر

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ ان کے آنے کی خبر بھیل گئی ہے
مصرع نمبر 2۔ لیکن آج گھر میں ایک چٹائی بھی موجودنہیں

تبصرہ

میری غربت کی یہ انتہاہے کہ محبوب کی آمد آمد ہے لیکن گر میں آنے والوں کے حیر ومقدم کے لیے جو ایک بوریا تھا وہ بھی اس وقت موجود نہیں۔

[line]
028-006
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا​

فرہنگ

نمرود
خصرت ابراہیم کے زمانے میں ایک بادشاہ

بندگی
عبادت، پرستش

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
مصرع نمبر 2۔ اس کی عبادت سے بھی مجھے کچھ نہیں ملا۔

تبصرہ
جس طرح نمرود کو اپنی خدائی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ایسی طرح مجھے میرے بندگی سے کوئی فائدہ پہنچا۔
یا
کیا وہ خدا جس کی میں نے عبادت کی نمرود تھا اور کیا اس کی خدائی نمرود کی خدائی تھی کہ اس کی عبادت سے مجھے کچھ نہیں ملا
یا
اگر ہم بندگی کے معنی بندہ ہونا لیں تو نمرود عبودیت سے انکار کرتا ہے اور خدائی کا دعویٰ رکھتا تھا۔اس کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میں عبودیت کا اقرار کیا پھر بھی کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
یہاں عبویت کو خدائی دعویٰ قرار دینا معنی آفرینی اور جّدتِ خیال ہے۔

نمرود
وہ باشاہ جس نے حضرت ابراہم علیہ السلام کو آگ میں ڈلوادیا تھا۔ اور آگ اللہ کے خکم سے ٹھنڈی ہوگئی تھی۔

[line]
028-007
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں* ہے کہ حق ادا نہ ہوا​

فرہنگ

حق
پہلے حق کے معنی سچ اور دوسرے کے معنی ذمہ اور فرض

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ میں جو جان کی قربانی دی ہے یہ خدا کی امانت تھی۔
مصرع نمبر 2۔ سچ توہے کہ اس سے میرا فرض پورا نہیں ہوا۔

تبصرہ

بظاہرایسا لگتا ہے ہے کے خدا کی راہ میں جان دے کر ہم نے اپنا فریضہ پورا کردیا ہے۔ لیکن کسی کی دی ہوئی چیز کو واپس کرناکوئی ذاتی ایثار وقربانی نہیں۔

[line]
028-008
زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما
کام گر رک گیا، روا نہ ہوا​

فرہنگ

دب
دباؤ

لہو
لوہو کا مخفف ۔ خون، ایک باپ کی اولاد، کنایتاً ۔ بہت سرخ خون

تھمنا
رُکنا، ٹھہرنا

رَوَا
دُرست، ٹھیک، پُورا کرنے والا، جاری کرنے والا، نافذ کرنے والا

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ ذخم کے دبنے کے باوجود خون جاری رہا۔
مصرع نمبر 2۔ کام رُکنے کے بعد جاری نہیں ہوا

تبصرہ

جب زخم پردباؤ ڈالا جاتا ہے تو خوب بہنا بند ہوجاتا ہے ۔ یہ اصول کے مطابق ہے۔ لیکن اس طرح رُکے ہوئے کام کو پھر سے شروع نونا چاہئے لیکن زخمِ عشق کا معاملہ عجیب ہے کہ اس سے لہو پھر جاری ہوگیا۔

[line]
028-009
رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، "دلستاں" روانہ ہوا​


فرہنگ

رہزنی
ڈکیتی

دل ستانی
دل لے جانا

دلستاں
دل لے جانے والا ، دلبر

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ یہ ڈکیتی ہے یادل کو کے جانا ہے
مصرع نمبر 2۔ میرا دلبر دل لے کر چلا گیا

تبصرہ
میرا محبوب میر دل لوٹ کر لے گیا۔ یہ دل کا لے جانا ہوا یا ڈکیتی۔

ردیف کا ایک حصہ قافیہ میں آملے تو ایسے قافیہ معمولہ کہتے ہیں۔ یہ عیب میں داخل ہے ۔ مگر غزل میں ایک دفعہ جائز مان لیس گیا۔یہاں دلستانی کے انداز کو رہزنی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

[line]
028-010
کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا!​

فرہنگ

کچھ تو پڑھئے
مراد یر طرحی کلام ہی سنائے

سرا
گانے والا

غزل سرا
غزل پڑھنا

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ کوئی سی بھی غزل سننا دیں
مصرع نمبر 2۔ لوگ کہ رہے ہیں کہ آج آپ نے کوئی بھی غزل پیش نہیں کی۔

تبصرہ
غالب آپ بزم تو شامل ہیں۔ ہم گذارش کرتےہیں آپ اپنےکچھ اشعار تو سننائیں۔


رویت
یہ غزل قلعہ معلیٰ کے مشاعرے میں حاضریں کے اصرار پر غالب نے پڑھی تھی۔ انہوں نے طرحی غزل نہیں کہی تھی۔ مقطع حسب حال کہا ہو۔ اور پہلا مقطع چھوڑدیا ہوگا​

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 029 -

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب!
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ* ہائے بے جا کا

ہنوز محرمئ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا

دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا

فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسد
جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*نسخۂ نظامی کی املا ہے ’خند ہائے‘


border3.jpg

[line]
029-01
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا​


فرہنگ

گلا ( گلہ )
شکوہ، شکایت

تنگی
کوتاہی، کمی، چھوٹا پن، غربت، مشکل، کنجوسی

تنگئ جا
جگہ کی کمی

گہر
موتی

محو
گم، معدوم

اضطراب
بے قراری، بے چینی، گھبراہٹ

اضطراب دریا
تلاطم و امواج

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ شوق کو شکایت ہے کہ دل میں جگہ کی تنگی ہے
مصرع نمبر 2۔ دریا کا اضطراب موتی میں گم ہوگیا

تبصرہ

شوق کو دریا اور دل کوگوہرسےتشبیہ دی ہے۔ میرے شوق بے پایاں عشق کو دل سے تنگی کی شکایت ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دریا کا اضطراب سمٹ کر موتی بندگیا ہے۔

[line]
029-02
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسُخِ مکتوب!
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا​


فرہنگ

پاسُخ
جواب، اتر

پاسُخِ مکتوب
خط کا جواب

فرسا
تباہ کرنے والا

خامہ فرسا
قلم گھسانے والا

نثری ترجمہ


مصرع نمبر 1۔ یہ تو سے بعید ہے کی تو میرے خط کا جواب لکھے۔
مصرع نمبر 2۔ مگر ذوق خامہ فرسا کچھ نہ کچھ مجھ سے لکھواتا ہے۔

تبصرہ

مجھےتجھ سےامید نہیں کہ تو میرے خط کا جواب دے مگرمیں پھر بھی بار بار تجھےخط لکھ رہا ہوں کہ قلم سے کچھ نہ کچھ لکھنے کےذوق نےمجھ کو مجبور کر رکھا ہے۔ اور مجھ پر یہ ستم ا سی ذوقِ تحریر نےڈھا رکھا ہے۔

‘ اور‘ پاسُخِ مکتوب
اور استبعاد کےلیے ہے یعنی یہ بات بعید ہے کہ تو پاسُخِ مکتوب لکھے

[line]
029-04
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ* ہائے بے جا کا​


فرہنگ

فراق
جدائ، ہجر، علیحدگی، مفارقت، خیال، دُھن

دماغ نہیں
برداشت کی قوت

خندہ
ہنسی، شوخ

بے جا
ناحق، بلا سبب، بےموقع، فضول

خندہ ہائے بے جا
خندہِ گل ( اخذ کیے معنی)

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ مجھے غم فراق میں باغ کی سیر کی دعوت مت دو
مصرع نمبر 2۔ مجھے پھولوں کی طنزآمیز ہنسی سےسیر کا مزا نہیں آے گا

تبصرہ
مجھے غم کی حالت میں باغ کی سیر کی دعوت دینا مناسب نہیں۔ میرے غم و الم کو دیکھ کر اُن کی ہنسی بدستور رہے گی اور میں اس قسم کی بےجا اور بےمحل ہنسی کو برداشت نہیں کرسکتا۔

مجھے دماغ نہیں ۔۔۔ دماغ ندارم ( فارسی کا محاورہ ) یعنی قوت شامّہ ( سونگھنے ) صحیح نہیں ہے۔

[line]
029-05
ہنوز محرمئ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا​


فرہنگ

ہنوز
ابھی تک، اب تک، اس وقت تک، ابھی

محرمی
نزدیکی ،واقفکاری

ترسنا
کسی چیز کے لئے حد سے زیادہ خواہش کرنا

محرمئ حسن
حسن کا تماشا یا دیدار جمال

بُنِ مو
بال کی ہر جڑ

چشمِ بینا
حقیقت کو دیکھنے والی نظر، ہوشیار، تیز فہم، تیز نظر

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ اب تک مجھے جمال حقیقی کا دیدار میسر ہوا
مصرع نمبر 2۔ باوجود اس کے بال کی ہرجڑ چشمِ بینا کا کام کرتی ہے

تبصرہ

میرے بدن کے بالوں کی ہر جڑ دیکھنے والی آنکھ کا کام کر رہی ہے۔ پھر بھی دیدار جمال نصیب نہ ہوسکا ۔

“ کرے ہے“ ، اب متروک ہے اس جگہ میں کرتا ہے کہیں گے۔ اور کو بمعنی برائے کے لیےاستعمال ہوا ہے۔

[line]
029-06
دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا​


فرہنگ

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ معشوق کواپنا دل اس کے ناز و ادا کرنے سے دے بیٹھے
مصرع نمبر 2۔ میں نے انتظار نہیں کیا کے محبوب کا حسن مجھ سے دید کا تقاضا کرے

تبصرہ

حُُسن نے نازو ادا سے پہلے ہی دل جیت لیا ہے۔ اب ناز و ادا ‌ کس چیز کا تقاضہ کر رہا ہے۔ اس قسم کے تقاضوں کو برداشت کرنے کا میرے پاس دماغ نہیں ہے۔

تقاضا اسم غیرسالم ہے مگرغالب نےاسےسالم باندھا ہے۔ حُسن کے تقاضے کا چاہیےتھا۔

“ ہمیں دماغ کہاں“ ، یعنی ہمیں دماغ نہیں ہے

[line]
029-07
نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا​


فرہنگ

گریہ
رونا، پیٹنا، آہ زاری کرنا

بمقدار
اندازہ کے مطابق

حسرت
افسوس، پشیمانی، آرزو، ارمان، شوق


نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ گریہ حسرتِ دل سے بڑھ کر ہے۔
مصرع نمبر 2۔ اور گریہ کی مقدار بقدر دریا کے ہے۔ نہ کے بقدر حسرتِ دل کے

تبصرہ

یہ مت خیال کر کے میں جس قدر رونا چاہتا ہو ں اسی قدر رو رہا ہوں۔ حسرتِ دل تو اشک کےدریا کو ایک ہی د فعہ میں بہادینا چاہتی ہے۔ مگر میں اس دریا کا ذخیرہ خاص انداز سے خرچ کر رہا ہوں اور اس کا جمع خرچ پرنگاہ میں رکھتا ہوں۔

گریہ بمقدار دریا کے ہے۔ گریہ میں مبالغہ کیا ہے۔ یہاں باموافقت کے لیے ہے۔ یعنی موافق مقدار

[line]
029-08
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسد
جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا​


فرہنگ

فلک
آسمان، گردوں، چرخ

جَفا
ظلم، ذیادتی، تشدد، ناانصافی

کارفرما
مراد اعلیٰ طاقت ، کام لینے اور کام بنانے والا، حکم کرنے اور چلانے والا، کمانڈر، بادشاہ، اُستاد

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ جب میں آسمان کو دیکھتا ہوں تومحبوب یاد آجاتا ہے
مصرع نمبر 2۔ تیری جفاؤں میں وہی انداز ہے جو کار فرما نے آسمان کودیا ہے

تبصرہ

میں جب آسمان پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے تو یاد آجاتا ہے کیونکہ کےظلم و ستم کے سلسلے میں تم دونوں ہم رنگ اور ہم مزاج ہو۔ یعنی فلک کی ستم گاریاں محبوب کی جفا کاریوں سے ملتے جلتی ہیں۔

 

تفسیر

محفلین

border3.jpg


- 030 -

قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
خطِّ جامِ مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا

اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا


border3.jpg

[line]
01 - 030
قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
خطِّ جامِ مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا​


فرہنگ

نفس پرور
کاہل، ست، منجمد، ساکت، جان پرور

گوہر
موتی، جوہر، قیمتی پتھر

رشتۂ گوہر
موتی پرونے کا تاگہ

خطِ جام مے
پیالے میں حددِ شراب کا دائرہ نما خط

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ شراب کا قطرہ حیرت ذدہ ہوکرمنجمد ہوگیا
مصرع نمبر 2۔ اور پیالے میں حددِ شراب کا دائرہ نماخط ایک موتی پُرویا تاگا بن گیا

تبصرہ

شراب کا قطرہ حسن ساقی ( یا لبِ معشوق ) سےحیرت ذدہ ہوکر ساکت ہوگیا۔ اور بجائے ٹپکنے کے بوندیں تھم کر منسلک موتیوں کی طرح نظر آنےلگیں۔پیالہ کا خط ان موتیوں کے لیے تاگا بن گیا۔

اس شعر میں ‘ سراسر ‘ کا لفظ حشو اور زائد ہے۔

[line]
030-02
اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا​


فرہنگ

خانہ خرابی
بربادی، تباہی، ستیاناس

آہ
کلمۂ افسوس، ہائے، وائے، اُف، سانس، دم، نفس

نثری ترجمہ

مصرع نمبر 1۔ میری عاشقی پر محبوب کواتنا اعتیبار ہے۔
مصرع نمبر 2۔ کےجب کوئ غیر بھی آہ بھرتا ہے وہ مجھ پرخفا ہوتا ہے۔


تبصرہ

محبوب کو میرے عشق پراتنا اعتیبار تھا کہ جب میرے رقیب نے آہ بھری وہ سمجھا کےمیں نے آہ بھری ہوگی چناچہ اس آہ پرمحبوب مجھ سے ناراض ہوا اور اس کی یہ ناراضگی میری بربادی کا سبب بن گئی۔​

 
Top