راہِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم - زکی کیفی

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
راہِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم

عمر گلوں کی دو دن جس میں یہ بھی قیامت بیت گئی
دستِ ہوس نے نوچے لاکھوں شاخوں پر مرجھائے کم

آہ یہ ظالم تلخ حقیقت جتنے سفینے غرق ہوئے
اکشر اپنی موج میں ڈوبے طوفاں سے ٹکرائے کم

راہروی کا سب کو دعویٰ سب کو غرورِ عشق و وفا
راہِ وفا پر چلنے والے ہم نے لیکن پائے کم

دھیمی دھیمی چال سے ہم کو راہگذر طے کرنی ہے
ناز تھا جن کو تیز روی پر منزل تک وہ آئے کم

مجھ سے شکایت دنیا بھر کو شدتِ غم میں رونے کی
لیکن مجھ کو اس کا رونا آنکھ میں آنسو آئے کم

صرف یہی ہے ایک طریقہ دنیا میں خوش رہنے کا
دستِ تمنا کھینچے زیادہ دامنِ دل پھیلائے کم

صبر و سکوں کی دنیا لوٹے حسن دکا کر جلووں کو
عشق مگر خود شب بھر تڑپے اوروں کو تڑ پائے کم

عشق ادب کا نام ہے کیفی یہ بھی ادب میں شامل ہے
جس کی محبت دل میں بسی ہو اس کی گلی میں جا ئے کم

محمد زکی کیفی
 

سویدا

محفلین
یادیں تازہ کردیں اس کلام نے
بالکل ابتدائی شعروشاعری کے شعور کے زمانے میں یہ غزل اکثر ورد زبان رہتی تھی
 

سید زبیر

محفلین
نہائت اعلیٰ انتخاب
صرف یہی ہے ایک طریقہ دنیا میں خوش رہنے کا
دستِ تمنا کھینچے زیادہ دامنِ دل پھیلائے کم
بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا
 
Top