مزمل شیخ بسمل صاحب!
کچھ باتیں پوچھنی ہیں:
1۔ حرف روی اور روی میں کیا فرق ہے؟ مثال دے کر سمجھائیے گا۔
2۔ حرف روی کی جامع اور مانع تعریف کیا ہے؟
3۔ مطلع کی کن کن چیزوں کا پوری نظم میں اشتراک اور التزام ضروری ہے۔
4۔ اس بحر کا کیا نام ہے؟ ”مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن“ اور اس کے آخری رکن کے پہلے سبب خفیف کو سبب ثقیل بناسکتے ہیں یا نہیں؟
بینوا توجروا۔
 
مزمل شیخ بسمل صاحب!
کچھ باتیں پوچھنی ہیں:
1۔ حرف روی اور روی میں کیا فرق ہے؟ مثال دے کر سمجھائیے گا۔
علمِ قافیہ کی رو سے روی اور حرفِ روی دو الگ نہیں بلکہ ایک ہی چیز ہے۔ :)

2۔ حرف روی کی جامع اور مانع تعریف کیا ہے؟
اس سوال کا جواب خاصہ تفصیل طلب ہے تو فراغت کے لیئے بچاتا ہوں

3۔ مطلع کی کن کن چیزوں کا پوری نظم میں اشتراک اور التزام ضروری ہے۔
اس کی ۳ صورتیں ہیں۔
۱۔ عام حالت میں حرفِ روی سے لیکر آخرِ مصرع تک سب کچھ مکرر آتا ہے۔ مثال:
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

روی ”ہوا“ اور ”دوا“ کا الف ہے۔ تو الف سے لیکر آگے سب کی تکرار اسی شکل میں رہے گی، بنا کسی تبدیلی کے ۔

۲۔ حرفِ روی ساکن ہو تو ما قبل کی حرکت جسے اصطلاح میں توجیہہ کہا جاتا ہے اس حرکت تکرار یا مطابقت بھی لازمی ہے اور اس کے بعد روی سے تمام حروف کی تکرار بھی اسی طرح ہوگی جیسے مطلعے میں تھی۔
مثال میں میری غزل کا مطلع:
اہلِ زباں نہیں تھے سخنور میں کچھ نہ تھا
الفاظ کی معانی و مصدر میں کچھ نہ تھا

”ر“ حرفِ روی ہے اور ساکن بھی ہے۔ ما قبل حرکت یعنی ”زبر“ جو توجیہہ ہے اس کا اعتبار ہوگا اور تکرار بھی رہے گی۔ اور ”ر“ سے آگے بنا کسی تبدیلی کے شعر مکمل کیا جائے گا۔

۳۔ قافیہ کی تیسری صورت وہ ہے جسے اصطلاح میں قافیہ مترادف کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح ہی بتاتی کے یہ قافیہ ”ردف“ کے ساتھ آتا ہے۔ ردف ایسا حرف ہے جو روی سے پہلے ہو اور ساکن ہو۔ اور وہ ساکن حرفِ مدہ یعنی الف واؤ اور ی ہوتا ہے۔ مثلاً: عید، دور، خار، پان، ٹھان وغیرہ۔ (لین جیسے اَور، دَور وغیرہ میں ردف نہیں ہوتا کیونکہ حرف علت کے ساتھ حرکت کی موافقت نہیں ہے )
اس ردف کے ساتھ کوئی قافیہ ہو تو روی اور اس سے پہلے ردف کی تکرار بھی لازم ہے۔ مثال غالب:
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو​
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو​
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں​
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو​
یہ قافیہ مترادف ہے۔ نون حرفِ روی، الف ردف ہے۔ اور الف کی پابندی بھی ویسے لازم ہے جیسے نون کی۔
ایک اور مثال:
بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو​
کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو​
تا گردشِ فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو​
ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو​
یہاں بھی الف کہ ردف ہے پابندی لازم ہے۔ اور میم روی ہے۔
4۔ اس بحر کا کیا نام ہے؟ ”مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن“ اور اس کے آخری رکن کے پہلے سبب خفیف کو سبب ثقیل بناسکتے ہیں یا نہیں؟

بحر کا نام: ”بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف“۔ لیکن یہ آخری رکن فعِلُن عین کے سکون سے نہیں بلکہ کسرے کے ساتھ ہے۔ اور ہم کسی سبب خفیف کو سبب ثقیل نہیں بنا سکتے کیونکہ عروض میں ابھی تک کوئی ایسا زحاف ایجاد نہیں ہوا جس سے ساکن کو متحرک کیا جاسکے البتہ متحرک کو ساکن کرنے کے زحافات کی بھرمار ہے۔ ”فعِلُن“ میں تین مسلسل متحرک حروف جمع ہوگئے ہیں تو اس میں درمیان والا متحرک ”تسکین اوسط“ کے زحاف سے ساکن کیا جاتا ہے۔ اور اسے فعْلن بسکون عین بنا دیتے ہیں۔
 
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب! (دامت برکاتکم العالیۃ)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و فیوض سے ہمیں تاحیات استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک درخواست ہے۔۔
شعریت کیا ہوتی ہے؟ اس بارے میں اگر وضاحت اور تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمادیں تو نوازش ہوگی۔
 

محدثہ

محفلین
لفظ ’’پسند‘‘ اصولی طور پر فعول کے وزن پر ہے۔
اس سے ہٹ کر تو ہر ایک کے اپنے اپنے حسن کی کرشمہ سازی ہو گی۔
پسند ، فعول کے وزن پہ کس طرح ہے؟
5531.gif
 
شعریت کیا ہوتی ہے؟ اس بارے میں اگر وضاحت اور تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمادیں تو نوازش ہوگی۔

مجھے پوری طرح تو معلوم نہیں، کہ یہ اصطلاح ابھی نئی ہے۔ تاہم میرا اندازہ ہے کہ:
شعریت سے مراد ہے وہ اوصاف جو شعر کو نثر اور کلامِ منظوم سے ممتاز کریں۔
واللہ اعلم۔
 
مجھے پوری طرح تو معلوم نہیں، کہ یہ اصطلاح ابھی نئی ہے۔ تاہم میرا اندازہ ہے کہ:
شعریت سے مراد ہے وہ اوصاف جو شعر کو نثر اور کلامِ منظوم سے ممتاز کریں۔
واللہ اعلم۔
بہت بہت شکریہ استاد محترم۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
پسند میں مادہ کیا ہے؟
جیسے ینصر ، یفعل کے وزن پہ ہے۔
فارسی اور اردو میں عربی کی نہج پر ’’مادہ‘‘ کا کوئی تصور نہیں، اور حروفِ اصلی کا اطلاق بھی یکساں انداز میں نہیں ہوتا بلکہ ہمیں اہلِ لغت کا تتبع کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً : مصدر جُستن (ڈھونڈنا) اور مضارع جُویَد میں صرف جیم مشترک ہے؛ مصدر خَرِیدن اور مضارع خَرَد میں خ، ر ؛ اردو کے مصدر جانا اور اس کے فعل ماضی گیا میں کوئی حرف مشترک نہیں۔
واضح رہے کہ : خَرَد (مذکورہ بالا) اور خِرَد (عقل) میں حروف بالکل یکساں ہیں تاہم یہ دو الگ الگ لفظ ہیں جن میں کوئی معنوی تعلق نہیں۔ اسی طرح خَر (فعل امر: تو خرید) اور خَر (گدھا) میں پورا لفظ متماثل ہونے کے باوجود معنوی لحاظ سے یہ دو الگ الگ لفظ ہیں۔
 
Top