اعتبار ساجد راستوں میں کوئی رستہ معتبر ایسا تو ہو

ظفری

لائبریرین
راستوں میں کوئی رستہ معتبر ایسا تو ہو
منزلیں نازاں ہوں جس پر اک سفر ایسا تو ہو

شام ڈھلتے ہی ہمیں زنجیر پہنانے لگے
محفلوں میں بھی ہمیں یاد آئے گھر ایسا تو ہو

جس کے دامن میں اُلٹ دیں اپنے دل کی کرچیاں
اس ہجومِ شہر میں اک چارہ گر ایسا تو ہو

پھر کہیں مل جائیں ہم ترکِ تعلق کے لیئے
ہجر جان لیو اسہی ، بار دگر ایسا تو ہو

کس لیئے ہم زحمتِ آرائش ِ خانہ کریں
حالِ دل جیسا ہے ، رنگِ بام و در ایسا تو ہو

بے نوا گلیوں میں ہم کیا دستکیں دیتے پھریں
کوئی ساجد صاحبِ زنجیرِ در ایسا تو ہو​
 
Top