بہزاد لکھنوی ذرّے جو منور ہیں، روشن جو ستارے ہیں - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
کیفیاتِ حسیں
(بہزاد لکھنوی)
ذرّے جو منور ہیں، روشن جو ستارے ہیں
میں تو یہ سمجھتا ہوں، سب رنگ تمہارے ہیں

کیوں دیکھ رہے ہو تم تاروں کی درخشانی
تارے تو انہیں سمجھو آہوں کے شرارے ہیں

دیوانہ سا آیا ہوں میں اُن کی جو محفل میں
کچھ ان کے اشارے ہیں، کچھ دل کے اشارے ہیں

تم ہم سے نظر پھیرو، ہم تم پہ نظر ڈالیں
تم اور کسی کے ہو اور ہم تو تمہارے ہیں

خود پر بھی تباہی ہے دل پر بھی تباہی ہے
تیری ابھی اُلفت میں کچھ دن ہی گذارے ہیں

وہ چٹکے ہوئے تارے، یہ نکھرے ہوئے ذرّے
وہ رات کے منظر ہیں، یہ دن کے نظارے ہیں

بہزادِ حزیں میں تو دیوانہء الفت ہوں
آنکھوں میں مری پنہاں ساون کے نظارے ہیں
 
Top