بہزاد لکھنوی ذرّوں کا پرستار ہوں ذروں پہ جبیں ہے - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
ذرّوں کا پرستار ہوں ذروں پہ جبیں ہے
میرے لئے کعبہ ترے کوچے کی زمیں ہے

اب دوسرے عالم میں مرا قلبِ حزیں ہے
میرے لئے دُنیا میں نہ دُنیا ہے نہ دیں ہے

جس جا کہ میں رہتا ہوں، وہاں کچھ بھی نہیں ہے
تم ہو نہ تو میں ہوں، نہ فلک ہے نہ زمیں ہے

آغازِ محبت تو بڑا قلبِ نشیں ہے
انجامِ محبت کی خبر مجھ کو نہیں ہے

یہ فیضِ محبت ہے، محبت کے تصدّق
میں اور کہیں ہوں، مرا دل اور کہیں ہے

دل کو نہ یقین آئے تو میں کیا کروں اس کو
مجھ کو تو ستمگر ترے وعدے کا یقیں ہے

یہ چاک گریباں ہے محبت میں ضروری
جس میں نہ ہو وحشت وہ محبت ہی نہیں ہے

میں مستِ تخیل ہوں، تخیل کا تصدّق
دُنیائے تخیل کا ہر اک ذرہ حسیں ہے

ہر چیز پہ پڑتی ہیں مری مست نگاہیں
ہر چیز زمانے کی محبت میں حسیں ہے

تو مرکز صدعیش ہے، میں مرکز صدمحن
شاید مری دُنیا تری دُنیا سے حسیں ہے

بہزاد کا ایمان ہے، تو اور ترا جلوہ
یہ مست نگاہی تری بہزاد کا دیں ہے
 

طارق شاہ

محفلین

یہ فیضِ محبّت ہے، محبّت کے تصدّق !
میں اورکہیں ہُوں، مِرا دل اورکہیں ہے


کیا کہنے !

تشکّر کاشفی صاحب شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں
 
Top