ثناءعامر
محفلین
خرم اپنے ماں باپ کی بگڑی ہوئی اولادتهی.اکلوتا ہونے کی وجہ سے ماں باپ نے اسکے خوب نخرے اٹهائے تهے.اسکے منہ سے بات نکلنے سے پہلے ہی اس کی ہر فرمائش پوری ہوجاتی تهی اسی وجہ سے خرم ضدی اور خودسر ہوگیا ہوا تها اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تهاچاہے کوئی چهوٹا ہو یا بڑا.
اسی وجہ سے خرم کی پڑهائی پر بهی کوئی خاص توجہ نہیں تهی- لیکن امتحان میں ہمیشہ پاس ہی ہوتا تها اور پاس ہونے کی وجہ یہ تهی کہ جب بهی امتحان قریب آنے خرم نے بہانے بہانے سے کبهی بیمار ہوجاتا یا اپنے اسکول اور کلاس کے متعلق رو رو کر ایسی من گهڑت کہانیاں سناتا کہ ماں کو ممتا کی ماری خرم کے والد کو اس بات کے لئے راضی کرلیتی کہ خرم کا اسکول پڑهنا کوئی ضروری نہیں ہے آخر کل کو اسنے آپکا ہی کاروبار سنبهالنا ہے اور کاروبار سنبهالنے کے لئے پڑهائی کی نہیں تجربے کی ضرورت ہوتی ہے اور وه آپ سے سیکھ لے گا جب بڑا ہوگا ابهی چهوٹا ہے اسکے اسکول میں میڈم سے بات کر کے خرم کو کلاس میں پاس کروادیں.
خرم کے والد بهی اس بات سے متفق تهے کہ خرم کا پڑهنا کوئی ضروری نہیں ہے لیکن چونکہ خرم کے والدین کاتعلق ایک لبرل اور فیشن ایبل سوسائٹی سے تها اس لئے خرم کا اسکول جانا ضروری تها.رہی بات پاس ہونے کی تو وہ کوئی مسئلہ نہیں تها کیونکہ وه ایک جانی پہچانی شخصیت کے مالک تهے اور وہ آسانی سےاسکول کی میڈم کو اپنے بیٹے کی سفارش کرسکتےتهے.
میڈم کو خرم کے والد کی سفارش ماننا پڑهتی تهی یہ جانتے ہوئے بهی کہ اس طرح خرم کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا اگر وہ نه مانے تو اسکول کو ایک بڑی رقم سے ہاتھ دھونا پڑے گے جو خرم کے والد ہر سال اسکول کو عطیہ کرتے ہیں اور خرم کی کلاس کی ٹیچر کو خرم کوپاس کرنا پڑتا تها کیونکہ وه اپنے گهر کی واحدکفیل تهیں.اگرانکارکرتیں تو اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتیں.
اسی طرح وقت گزرتا گیا خرم ہر کلاس اسی طرح پاس کرتا گیا. حتی کہ اس نے کالج میں داخلہ بهی اپنے والد کی سفارش سے ہی لیا.وقت کےساتھ ساتھ خرم کی بدتمیزیاں اور خودسری بهی بڑهتی گئی حتی کہ خرم نے اپنے والدین کا لحاظ بهی کرنا چهوڑدیا.
اب خرم کے والد کو لگا کہ اسے اپنے کاروبار میں شامل کرے لیکن بہت دیر ہوگئی تهی اسے اپنے والد کے کاروبار میں کوئی دلچسپی نہیں تهی اور ویسے بهی هر کام شارٹ کٹ طریقے سے کرنے کی عادت ہوگئی تهی.اس نے اپنا زیاده وقت باہر دوستوں میں گزارنا شروع کردیا.آ ہستہ آہستہ خرم کو بری عادتیں پڑ گئیں وہ چوری ڈاکے ڈالنا شروع ہوگیا.ایک دن کسی چوری کے الزام میں خرم کو پولیس گرفتار کر کے لے گئی.اسکے والد کو ان سب کا یقین نہیں تها لیکن جب ثبوت دکهائے تو خرم کے والد اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے-پراب کچھ نہیں ہوسکتا تها بهت دیر ہوگئی تهی.خرم کےوالدین کو اپنی پرورش پر پچهتاوا ہورہا تها.ممتا
کی ماری خرم کی والده نے آج پهر خرم کے والد کو خرم کو باہر نکلوانے کے لئے کہا لیکن والد صاحب نے منع کردیا کہ اگر آج بهی ہم نے اس کو
بچایا تو پهر وه کبهی بهی راہراست پر نہیں آئے گا۔
آج ہم وه غلطی دوبارہ نہیں کرے گے جو ہم اپنے بیٹے کے پیار میں کرتے آئیں ہیں.ماں نے اثبات میں سر تو ہلادیا لیکن انہیں کسی چین قرار نہ تها۔
خرم کی والده کو اب صرف ایک ہی ہستی نظر آرہی تهی جس سے ان کو یقین تها کہ اگر وہ اس کے حضور سر بسجده ہوجائیں اور دل سے سفارش کریں تو وه ضرور ان کی بگڑی بنادے گا اور وہ تهی الله.
اسی وقت خرم کی والده کے آنسو نکل آئے اور بے اختیار ہاتھ دعا کی صورت اٹھ گئے.وہ رو رو کر الله سے دعا کرنے لگی کہ اے اللہ تو ہی واحد ہستی ہے جس کا در ہمیشہ کهلا رہتا ہے.تو کسی کو خالی ہاتھ نہیں بهیجتا تیرا ہی در ہے جہاں سے جو مانگو ملتا ہے.میں اپنے ہاتهوں کی ہوئی غلطی اپنے بیٹے کو جیل میں دیکھ کر بهگت رہی ہوں.تو مجھ میری مدد کر تیرے علاوہ کوئی میری مدد نہیں کرسکتا یہ دنیا دار مجهے اس مشکل وقت میں تنہا چهوڑ گئے پر تو اپنے بندے کو تنہا نہیں چهوڑتا.اے اللہ میری مدد کر اور میرے بیٹے کو راه راست پر لادے.
دوسری طرف خرم خود بہت پچهتارہا تها وہ اپنے آپ کو اپنے گهر تباه ہونے کا قصوروار ٹہرارہا تها اور اس وقت کو کوس رہا تها جب اس کے والد نے اسے پاس کرنےکے لئے کس طرح سفارش کی تهی.اسوقت سے لے کر آج تک خرم اپنے لئے آسانیاں ہی ڈهونڈتا رہا تها اور آج اسی کی سزا بهگت رہا تها حالانکہ اسے اسکی ٹییچر کہا کرتی تهی آج تو تم اپنے والد کی سفارش سے پاس تو ہوجاتے ہو لیکن یہ تمهارے لئے نقصان کا باعث ہے اور اسطرح تم دوسرے طالبعلموں کا حق مارتے ہو.خرم اس وقت ان کی باتیں سن کر مسکرا دیا کرتا تها اور دل میں سوچتا کہ میرے لئےکوئی کاممشکلنہیں ہے.
پر آج وه واقعی میں مشکل میں تها اور اب کوئی اس کوسفارش بچانےوالا بهی نہیں تها.
وه دل ہی دل میں الله تعالٰی سےدعائیں مانگنے لگا کہ ایک ایک دفعہ اسے موقعہ ملے تو اپنے سارے برے کام چهوڑدے اور توبہ کرلے اور آگے پورے دہیان اور توجہ سے پڑهائی مکمل کرے.وہروتے روتے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے مانگتے سوگیا.
تین چار دن گزرنے کے بعد اسےرہا کر دیا گیا کیونکہ یہ اس کی پہلی غلطی تهی اور پچهلا ریکارڈ میں وہ کبهی بهی کسی جرم میں حوالات نہیں آیا تها.خرم کو رہا ہی اسی شرط پر کیا تها کہ اب وہ کوئی غلط کام نہیں کرے گااور دل لگا کر اپنی پڑهائی مکمل کرے گا.خرم نے وعده کیا کہ اب وه کوئی غلط کام نہیں کرے گا اور بری صحبت سے دور رہے گا اور دل لگا کر پرهے گا.
اسی وجہ سے خرم کی پڑهائی پر بهی کوئی خاص توجہ نہیں تهی- لیکن امتحان میں ہمیشہ پاس ہی ہوتا تها اور پاس ہونے کی وجہ یہ تهی کہ جب بهی امتحان قریب آنے خرم نے بہانے بہانے سے کبهی بیمار ہوجاتا یا اپنے اسکول اور کلاس کے متعلق رو رو کر ایسی من گهڑت کہانیاں سناتا کہ ماں کو ممتا کی ماری خرم کے والد کو اس بات کے لئے راضی کرلیتی کہ خرم کا اسکول پڑهنا کوئی ضروری نہیں ہے آخر کل کو اسنے آپکا ہی کاروبار سنبهالنا ہے اور کاروبار سنبهالنے کے لئے پڑهائی کی نہیں تجربے کی ضرورت ہوتی ہے اور وه آپ سے سیکھ لے گا جب بڑا ہوگا ابهی چهوٹا ہے اسکے اسکول میں میڈم سے بات کر کے خرم کو کلاس میں پاس کروادیں.
خرم کے والد بهی اس بات سے متفق تهے کہ خرم کا پڑهنا کوئی ضروری نہیں ہے لیکن چونکہ خرم کے والدین کاتعلق ایک لبرل اور فیشن ایبل سوسائٹی سے تها اس لئے خرم کا اسکول جانا ضروری تها.رہی بات پاس ہونے کی تو وہ کوئی مسئلہ نہیں تها کیونکہ وه ایک جانی پہچانی شخصیت کے مالک تهے اور وہ آسانی سےاسکول کی میڈم کو اپنے بیٹے کی سفارش کرسکتےتهے.
میڈم کو خرم کے والد کی سفارش ماننا پڑهتی تهی یہ جانتے ہوئے بهی کہ اس طرح خرم کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا اگر وہ نه مانے تو اسکول کو ایک بڑی رقم سے ہاتھ دھونا پڑے گے جو خرم کے والد ہر سال اسکول کو عطیہ کرتے ہیں اور خرم کی کلاس کی ٹیچر کو خرم کوپاس کرنا پڑتا تها کیونکہ وه اپنے گهر کی واحدکفیل تهیں.اگرانکارکرتیں تو اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتیں.
اسی طرح وقت گزرتا گیا خرم ہر کلاس اسی طرح پاس کرتا گیا. حتی کہ اس نے کالج میں داخلہ بهی اپنے والد کی سفارش سے ہی لیا.وقت کےساتھ ساتھ خرم کی بدتمیزیاں اور خودسری بهی بڑهتی گئی حتی کہ خرم نے اپنے والدین کا لحاظ بهی کرنا چهوڑدیا.
اب خرم کے والد کو لگا کہ اسے اپنے کاروبار میں شامل کرے لیکن بہت دیر ہوگئی تهی اسے اپنے والد کے کاروبار میں کوئی دلچسپی نہیں تهی اور ویسے بهی هر کام شارٹ کٹ طریقے سے کرنے کی عادت ہوگئی تهی.اس نے اپنا زیاده وقت باہر دوستوں میں گزارنا شروع کردیا.آ ہستہ آہستہ خرم کو بری عادتیں پڑ گئیں وہ چوری ڈاکے ڈالنا شروع ہوگیا.ایک دن کسی چوری کے الزام میں خرم کو پولیس گرفتار کر کے لے گئی.اسکے والد کو ان سب کا یقین نہیں تها لیکن جب ثبوت دکهائے تو خرم کے والد اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے-پراب کچھ نہیں ہوسکتا تها بهت دیر ہوگئی تهی.خرم کےوالدین کو اپنی پرورش پر پچهتاوا ہورہا تها.ممتا
کی ماری خرم کی والده نے آج پهر خرم کے والد کو خرم کو باہر نکلوانے کے لئے کہا لیکن والد صاحب نے منع کردیا کہ اگر آج بهی ہم نے اس کو
بچایا تو پهر وه کبهی بهی راہراست پر نہیں آئے گا۔
آج ہم وه غلطی دوبارہ نہیں کرے گے جو ہم اپنے بیٹے کے پیار میں کرتے آئیں ہیں.ماں نے اثبات میں سر تو ہلادیا لیکن انہیں کسی چین قرار نہ تها۔
خرم کی والده کو اب صرف ایک ہی ہستی نظر آرہی تهی جس سے ان کو یقین تها کہ اگر وہ اس کے حضور سر بسجده ہوجائیں اور دل سے سفارش کریں تو وه ضرور ان کی بگڑی بنادے گا اور وہ تهی الله.
اسی وقت خرم کی والده کے آنسو نکل آئے اور بے اختیار ہاتھ دعا کی صورت اٹھ گئے.وہ رو رو کر الله سے دعا کرنے لگی کہ اے اللہ تو ہی واحد ہستی ہے جس کا در ہمیشہ کهلا رہتا ہے.تو کسی کو خالی ہاتھ نہیں بهیجتا تیرا ہی در ہے جہاں سے جو مانگو ملتا ہے.میں اپنے ہاتهوں کی ہوئی غلطی اپنے بیٹے کو جیل میں دیکھ کر بهگت رہی ہوں.تو مجھ میری مدد کر تیرے علاوہ کوئی میری مدد نہیں کرسکتا یہ دنیا دار مجهے اس مشکل وقت میں تنہا چهوڑ گئے پر تو اپنے بندے کو تنہا نہیں چهوڑتا.اے اللہ میری مدد کر اور میرے بیٹے کو راه راست پر لادے.
دوسری طرف خرم خود بہت پچهتارہا تها وہ اپنے آپ کو اپنے گهر تباه ہونے کا قصوروار ٹہرارہا تها اور اس وقت کو کوس رہا تها جب اس کے والد نے اسے پاس کرنےکے لئے کس طرح سفارش کی تهی.اسوقت سے لے کر آج تک خرم اپنے لئے آسانیاں ہی ڈهونڈتا رہا تها اور آج اسی کی سزا بهگت رہا تها حالانکہ اسے اسکی ٹییچر کہا کرتی تهی آج تو تم اپنے والد کی سفارش سے پاس تو ہوجاتے ہو لیکن یہ تمهارے لئے نقصان کا باعث ہے اور اسطرح تم دوسرے طالبعلموں کا حق مارتے ہو.خرم اس وقت ان کی باتیں سن کر مسکرا دیا کرتا تها اور دل میں سوچتا کہ میرے لئےکوئی کاممشکلنہیں ہے.
پر آج وه واقعی میں مشکل میں تها اور اب کوئی اس کوسفارش بچانےوالا بهی نہیں تها.
وه دل ہی دل میں الله تعالٰی سےدعائیں مانگنے لگا کہ ایک ایک دفعہ اسے موقعہ ملے تو اپنے سارے برے کام چهوڑدے اور توبہ کرلے اور آگے پورے دہیان اور توجہ سے پڑهائی مکمل کرے.وہروتے روتے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے مانگتے سوگیا.
تین چار دن گزرنے کے بعد اسےرہا کر دیا گیا کیونکہ یہ اس کی پہلی غلطی تهی اور پچهلا ریکارڈ میں وہ کبهی بهی کسی جرم میں حوالات نہیں آیا تها.خرم کو رہا ہی اسی شرط پر کیا تها کہ اب وہ کوئی غلط کام نہیں کرے گااور دل لگا کر اپنی پڑهائی مکمل کرے گا.خرم نے وعده کیا کہ اب وه کوئی غلط کام نہیں کرے گا اور بری صحبت سے دور رہے گا اور دل لگا کر پرهے گا.