ذرا سوچیے

الف نظامی

لائبریرین
متنازعہ حقوق نسواں بل کی "ذرا سوچیے" کے تحت مہم چلانے والی جیو پر آج حکومت نے آرا چلایا تو واویلا کیوں؟
ذرا سوچیے!​
 

الف نظامی

لائبریرین
آج قوم کو اشتعال دلا کر اپنے مقاصد پورا کرنے والے واشنگٹن و ماسکو کے بجائے مکہ و مدینہ کی طرف کیوں نہیں دیکھتے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
ہم بیٹے کس کے ، فلاں کے۔
ہم بازو کس کے ، فلاں کے۔
فرزند پاکستان قوم تمہارے ساتھ ہے۔
فلاں ساڈا آوے ای آوے۔
جئے فلاں بھائی۔
جیے فلاں۔
کیا شخصیت پرستی کی سیاست ہے!
ہمارے سیاسی جلسے جلوسوں میں نظریات پر مبنی نعرہ بازی کے بجائے شخصی نعرہ بازی پر اتنا زور کیوں؟
 

عمر میرزا

محفلین
تو پھر جیو کو بند کرنا کیا گیم ہے؟
" جیو چینل " جنگ گروپ والوں کا ہے اور جنگ والے ہمیشہ برسراقتدار حکمرانوں کے خلیف ہی رہے ہیں انہوں نے اقتدار کے ہر چڑھتے سورج کے آگے ماتھا ٹیکا ہے اور جب وہ ڈوبنے کو آیا تو " تو میرا خدا نہیں " کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سیاست کے افق پر نظر آنے والے نئے سورج کے آگے جھکنے کے لئے تیار ہو گئے۔
اور اب بھی ایسا ہی ہوا ہے جب انہوں نےدیکھا کہ مشرف حکومت کواقتدار ڈانواں ڈول ہے اور مشرف اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ وہ اپنی کرسی کو بچانے کےلئے اس پر دوسروں کو بھی بٹھانے کے لئے تیار ہو چکا ہے توپھر اس حکومتی کمزوری کو بھانپتے ہوئے اور نئی قیادت کی نظر میں سرخرو ہونے کے لئے جیو نے کھل ڈھل کر حکومتی پالیسوں کی دھجیاں اڑانا شروع کر دیں جوابا حکومت نے اسے بین کر دیا مگر اسکا فائدہ بھی جیو کو ہی ہوا اس نے اپنے اخبارات اور صحافیوں کے اختجاج کے زریعے عوام کی بھرپور تائید حاصل کر لی ہے اور اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر کے ڈھیر ساری عوامی ہمدردیاں خاصل کر لی ہیں یعنی اسنے صرف انگلی کٹائی اور شہیدوں میں نام لکھوا لیا ۔
ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ یہی وہ چینل تھا جس نےحقوق نسواں بل کو عوامی تائید دلانے کےلئے حکمرانوں کے لئے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ،بھارتی اداکاروں سے دوستی کی پینگیں بڑھانے والا اور بھارتی فلموں کو پیش کرنے والا بھی یہی ہے اسکے علاوہ اسی جیو ہی نے پاکستانی عوام کوامیریکی ثقافت اور ترقی سے مرعوب کروانے کے لئے وائس آف امریکہ کی کھڑکی کھولی ۔اور "خدا کے نام پر" جیسی متنازعہ فلمیں بنواییں۔
 
۔۔۔۔۔۔اور رمضان المبارک میں عالم آن لائن سے دین کی ’’خدمت‘‘ کر وا کر اور رمضان کے فوراََ بعد عید میں ’’محبتاں سچیاں‘‘ جیسی فلموں کی صورت میں اور انڈین ایوارڈ شوز دکھا کر دین سے اگلے رمضان تک کے لئے ہمارا پیچھا چھڑایا!!!
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم !
تقریبا چار ماہ قبل ہم نے ایک سیمینار بعنوان "پاکستان میں عدلیہ کا بحران "منعقد کیا تھا ۔اس میں صحافی بھی مدعو تھے ۔ نوائے وقت کے ارشاد حسین عارف صاحب مقررین میں سے تھے انہوں نے بڑی دلچسپ بات کی کہ "
ادھر اعتزاز احسن نے جس طرح چیف جسٹس والے معاملے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور عوامی مقبولیت حاصل کی ادھر محترمہ ان کا نام سننا تک گوارہ نہیں کرتی انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں‌ اعتزاز احسن کی عوامی مقبولیت اتنی نہ بڑھ جائے کہ لوگ ان سے پیپلز پارٹی کا سربراہ بننے کا مطالبہ شروع کردیں اور انہیں پارٹی کی قیادت سے محروم ہونا پڑجائے"
 
۔۔۔۔۔۔اور رمضان المبارک میں عالم آن لائن سے دین کی ’’خدمت‘‘ کر وا کر اور رمضان کے فوراََ بعد عید میں ’’محبتاں سچیاں‘‘ جیسی فلموں کی صورت میں اور انڈین ایوارڈ شوز دکھا کر دین سے اگلے رمضان تک کے لئے ہمارا پیچھا چھڑایا!!!

کیا ہمارا دین سے تعلق عالم آن لائن کی حد تک ہے، کہ جیسے وہ ختم ہمارا پیچھا چھوٹا۔ اور معزرت کے ساتھ کیا جیو والے لوگوں کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر لوگوں کو محبتاں سچیاں دیکھنے پر مجبور کرتے رہے، اگر کیبل پر ایم نیٹ اور اسطرح کے دوسرے چینل آتے ہیں تو قصور کیا چینل کا ہے یا اس ناظر کا جو یہ جانتا ہے کہ جو چیز میں دیکھ رہا ہوں اس سے میرا مزہب مجھے روکتا ہے لیکن وہ پھر بھی اسے دیکھنے پر مصر ہے۔

ذرا سوچئیے
 

عمر میرزا

محفلین
اگر کیبل پر ایم نیٹ اور اسطرح کے دوسرے چینل آتے ہیں تو قصور کیا چینل کا ہے یا اس ناظر کا جو یہ جانتا ہے کہ جو چیز میں دیکھ رہا ہوں اس سے میرا مزہب مجھے روکتا ہے لیکن وہ پھر بھی اسے دیکھنے پر مصر ہے۔

چینل دکھانے والوں اور چلانے والوں کو پہلے سوچنا چاہیے کہ ان کا مذہب بھی ایسی چیزیں سے روکتا ہے سب سے زیادہ قصوروار تو یہ لوگ ٹھرتے ہیں جو معاشرے میں برائی کو عام کر رہے ہیں۔
 
چینل دکھانے والوں اور چلانے والوں کو پہلے سوچنا چاہیے کہ ان کا مذہب بھی ایسی چیزیں سے روکتا ہے سب سے زیادہ قصوروار تو یہ لوگ ٹھرتے ہیں جو معاشرے میں برائی کو عام کر رہے ہیں۔

جس کا پیشہ ہی نظر کی عیاشی کرانا ہو اس سے سوچنے کی بات کر رہے ہیں حضرت کچھ تو خیال کیجئے
 

الف نظامی

لائبریرین
السلام علیکم !
تقریبا چار ماہ قبل ہم نے ایک سیمینار بعنوان "پاکستان میں عدلیہ کا بحران "منعقد کیا تھا ۔اس میں صحافی بھی مدعو تھے ۔ نوائے وقت کے ارشاد حسین عارف صاحب مقررین میں سے تھے انہوں نے بڑی دلچسپ بات کی کہ "
ادھر اعتزاز احسن نے جس طرح چیف جسٹس والے معاملے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور عوامی مقبولیت حاصل کی ادھر محترمہ ان کا نام سننا تک گوارہ نہیں کرتی انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں‌ اعتزاز احسن کی عوامی مقبولیت اتنی نہ بڑھ جائے کہ لوگ ان سے پیپلز پارٹی کا سربراہ بننے کا مطالبہ شروع کردیں اور انہیں پارٹی کی قیادت سے محروم ہونا پڑجائے"
نام نہاد جمہوریت کی نام لیوا جماعتوں کے اندر خود اتنی آمریت ہے!
 

الف نظامی

لائبریرین
جس کا پیشہ ہی نظر کی عیاشی کرانا ہو اس سے سوچنے کی بات کر رہے ہیں حضرت کچھ تو خیال کیجئے
پاکستان میں نظری عیاشی (فحاشی) کا کاروبار ہوسکتا ہے؟
اسلامی قانون اور اسی پر مبنی آئین پاکستان تو یہ نہیں کہتا۔
عوام ان ذرائع ابلاغ سے متاثرہ فریق ہیں ، ذرائع ابلاغ کے خلاف مقدمات میں عوامی رائے بھی لی جائے ۔ اور ذرائع ابلاغ کو عوامی مزاج اور معاشرہ کو مدنظر رکھ کر پروگرام ترتیب دینا ہوں گے نہ کہ اپنے کاروبار چمکانے کے لیے مصالحہ پروگراموں کی بھرمار(جن سے عوام سخت تنگ ہیں ، اور انہوں نے یہ مقولہ تو سن رکھا ہوگا کہ تنگ آمد ۔۔۔۔)۔
جیو کو اگر کچھ کرنا ہے تو نیشنل جیوگرافک یا ڈسکوری کی طرز کے پروگرام نشر کرئے۔​
 
Top