دیکھ رہین احتیاط یوں نہ ابھی سنبھل کے چل

بنگش

محفلین
دیکھ رہین احتیاط یوں نہ ابھی سنبھل کے چل
صورت موج تند خو، سمت بدل بدل کے چل

قریہ ء جاں کے اس طرف روشنیوں کی بِھیڑ ہے
آج حدودِ ذات سے چار قدم نکل کے چل

دشتِ انا میں ہے تجھے، تیرگیوں کا سامنا
ذہن سے برف چھیل دے، دھوپ بدن پہ مل کے چل

موجِ ِہوا سے کر کشید، اور سفر کا حو صلہ
راہ کے خار خار کو پھول سمجھ ، مسل کے چل

موسمِ بے قبا ٹہر، وقتِ ودَاعِ شوق ہے
اوڑھ لے رات ہجر کی، درد کی لے میں ڈھل کے چل

نکتہء رازِ دل نشیں کون زماں کہاں زمیں
تو بھی تو بے کنار ہو تہہ سے کبھی اچھل کے چل

جاگ بھی محسنِ حزیں، زندگیوں کا بھید پا
سانس کی ہر صراط پہ ساتھ صدا اجل کے چل
 
Top