دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں (نیرنگ خیال)

نیرنگ خیال

لائبریرین
گزشتہ دنوں لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ یوں تو ہر کچھ عرصہ کے بعد لاہور کا چکر لگتا رہتا تھا اور ہے۔ لیکن اس بار پنجاب یونیورسٹی جانا تھا۔ میں جامعہ پنجاب کا طالبعلم تو کبھی نہیں رہا لیکن لاہور شہر کے اندر بسے اس شہر سے ہمیشہ سے ایک عقیدت رہی ہے۔ درمیان سے بہتی نہر کے ایک طرف تو جامعہ کے شعبہ جات ہیں۔ جبکہ دوسرے کنارے کے ساتھ ساتھ ہاسٹلز کی ایک قطار ہے۔ ان ہاسٹلز کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے بنے میدان تھے۔
ان میدانوں کے ایک سرے پر کچھ تعمیر کا کام ہو رہا تھا۔ میں پہلی نگاہ میں یہ سمجھا کہ جامعہ کی طرف کوئی سپورٹس کمپلیکس بنانے کا ارادہ ہوگا جس کی تکمیل کے لیے یہ کام کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب ان پر میں نے شادی ہال کے جگمگاتے بورڈز دیکھے تو مجھے شدید دکھ اور کرب کا سامنا کرنا پڑا۔ تو اب جامعہ اپنی آمدن کے لیے شادی ہال چلائے گی۔ ایک طرف طلباء کو تعلیم دے گی اور دوسری طرف کاروبار چمکایا جائے گا۔ بلاشبہ لاہور جیسے شہر میں بڑا شادی ہال بنانا ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ لیکن کیا اب پنجاب حکومت اس قدر تنگدست ہوچکی ہے کہ جامعہ کو اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے کاروبار چلانے پڑیں گے۔ غیر سرکاری تعلیمی اداروں نے تو پہلے ہی تعلیم کو کاروبار بنا کر دیوالیہ نکال دیا ہے۔ ان کے لیے طالبعلم ایک صارف ہے۔ اور استاد ایک کاروبار بڑھانے والا سیلز مین۔
لاہور کے اکھڑی سڑکیں، نئے نئے نقشے یقینی طور پر ظاہری ترقی کی علامت ہیں۔ لیکن وہ قوم جس کے حکمران دلالی کو اپنی وراثت اور لوٹ کھسوٹ کو اپنا فرض سمجھتے ہوں۔ وہ قوم جو ہر آنے والے لٹیرے کو رہنما سمجھ کر خود کی ہی نیلامی میں شریک ہوتی ہو۔ اس قوم کو کیا کھلی سڑکیں ، بڑی کاریں اور ظاہری چمک دمک کی ضرورت ہے یا تعلیم اور شعور کی۔ یقینی طور پر شعور کی۔ من حیث القوم بنا کسی علمی مقام تک پہنچے اور شعور کی بنیادی منازل طے کیے بغیر ایسی ترقی کا خواب بھی ذہنی عیاشی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایسی علم گاہوں کی شدید کمی ہے جو قوم کی ذہنی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ جن کی مدد سے نوجوان طبقہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے لیے نئے آسمان پیدا کر سکے۔ سڑکوں او رظاہری شان و شوکت پر اربوں روپیہ لگانے والوں کے پاس کیا اس قدر رقم بھی نہیں کہ صوبے کی سب سے بڑی جامعہ کے اخراجات ہی پورے کر دیے جائیں۔ طلباء کے کھیلوں کے میدان پر بنائے گئے ان شادی ہالوں کی جگہ ان کے لیے ذہنی بالیدگی کی فضا قائم کی جاتی۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا آج اگر میں اٹھارہ برس کا ایک لڑکا ہوتا جو جامعہ داخلے کے لیے آتا۔ اور جامعہ کو اس قسم کے کاروبار کرتے دیکھتا۔ تو شاید میں اپنے گاؤں واپس لوٹ جاتا۔ وہ رقم جو میں نے اپنی تعلیم پر خرچ کرنی تھی۔ وہ میں اسی طرز کے کسی بڑے پلاٹ پر تنبو قناطیں کھڑی کرنے پر لگا دیتا۔ چھوٹے پیمانے سے شروع کرتا۔ اور شاید کامیاب بھی رہتا۔لیکن جب میں اپنے گردونواح پر نظر ڈالتا ہوں۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ سب سے آہستہ رفتار والی لائن میں جانے پر بھی پیچھے سے کوئی گاڑی والا آپ کو بار بار لائٹس مارتا ہے۔ جب کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کا شیشہ نیچے ہوتا ہے۔ اور ان کے اندر سے ایک جوس کا ڈبہ یا کوئی خالی بوتل اور بسکٹوں کو خالی ڈبہ باہر اچھال کر شیشہ واپس اوپر کر لیا جاتا ہے۔ جب پولیس والا کمتر کا چالان اور ظاہری شان رکھنے والے کو جانے دیتا ہے۔ جب سفارشی عہدے پر ہوتا ہے۔ اور علم اپنی علمیت کا بوجھ اٹھائے در در کے چکر لگاتا ہے۔ تو پھر میں سوچنے لگتا ہوں کہ جامعہ کا فیصلہ درست ہے۔ اس ذہنی بدکار اور بیکار قوم کو تعلیم اور کھیلوں کے میدان کی نہیں شادی ہالوں کی ہی ضرورت ہے۔​
 

فلک شیر

محفلین
اہم اور سنجیدہ موضوع کی طرف توجہ دلائی آپ نے ذوالقرنین بھائی ۔
جامعات اور شادی ہال ۔ انتخاب دیکھیے کیا فرمایا ہے ان حضرات نے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
درست کہا۔ اس قوم کے لیے شادی ہی سب سے بڑی سزا ہے۔ ہور چوپو!
ہاہاہااا۔۔۔ بالکل۔۔۔

اہم اور سنجیدہ موضوع کی طرف توجہ دلائی آپ نے ذوالقرنین بھائی ۔
جامعات اور شادی ہال ۔ انتخاب دیکھیے کیا فرمایا ہے ان حضرات نے
آمدن میں اضافہ۔۔۔۔
 

زیک

مسافر
یونیورسٹی اب آل ان ون ہو گی۔ وہیں رشتے کے لئے لوگ آئیں اور شادی بھی انہیں کے ہال میں ہو گی
 

محمد وارث

لائبریرین
بس ہمارے حکم رانوں کی ترجیحات ہیں اپنی، وہ اتنے پڑھے لکھے ہیں کہ "ضرورت" کو "سہولت" سمجھتے ہیں اور سہولت کو "کار و بار"، سو روٹی تو بہر طور کما کھائے ہے مچھندر :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بس ہمارے حکم رانوں کی ترجیحات ہیں اپنی، وہ اتنے پڑھے لکھے ہیں کہ "ضرورت" کو "سہولت" سمجھتے ہیں اور سہولت کو "کار و بار"، سو روٹی تو بہر طور کما کھائے ہے مچھندر :)
سچ بات ہے وارث بھائی۔۔۔۔۔۔ کار اور بار۔۔۔ دونوں یوں بھی اچھی چلتی ہیں۔۔۔۔
 

حسن ترمذی

محفلین
اب تو یونیورسٹی کے گرد لگے جنگلے ہٹاکر اینٹوں کی دیواریں بنائی جارہی ہیں ۔۔ لاہور کو واپس قلعہ بنانے پہ کام شروع ہوگیا ۔۔ بہت جلد ہم لوگ لاہور شہر نام کی ایک بہت بڑی چاردیواری میں قید ہوجائیں گے
 

الشفاء

لائبریرین
درمیان سے بہتی نہر کے ایک طرف تو جامعہ کے شعبہ جات ہیں۔ جبکہ دوسرے کنارے کے ساتھ ساتھ ہاسٹلز کی ایک قطار ہے۔ ان ہاسٹلز کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے بنے میدان تھے۔
ہاہ۔۔۔
آج یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی۔۔۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کراچی میں مرکزِ علم و ثقافت کو سینما گھر میں بدل دیا گیا۔ شادی ہال تو پھر بھی گوارا ہیں لیکن یہ سب بھی اسی پاکستان میں ہوتا ہے۔

قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مرکزِ علم و ثقافت ، دراصل اسلامی سینٹر کے نام سے بنا تھا۔

----------------

خبر :

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک )شہر قائد میں حکومت نے اسلامی مرکز کو سینما گھر میں تبدیل کردیا ۔کراچی کے علاقہ بلدیہ عظمیٰ میں واقع اسلامی سنٹر کا خیال 1980میں جماعت اسلامی کے جنرل کونسلر اخلاق احمد نے دیکھا ۔سابق گورنرسندھ لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم عباسی نے 1982میں اسلامی مرکز کا سنگ بنیاد رکھا جس کے آٹھ سال بعد 1990میں اسلامی مرکز کی تعمیر مکمل کی گئی۔حکومتی عدم توجہ کی وجہ سے اسلامی مرکز کو فعال نہیں کیا جا سکا ۔2005میں ایم کیوایم کے ناظم مصطفی کمال نے اسلامی مرکز کو شانزے ایڈیٹوریم میں تبدیل کردیا جس پر علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا اور شانزے آڈیٹوریم کو ثقافتی اور علمی مرکز میں تبدیل کردیا گیا ۔کچھ عرصے بعد علمی اور ثقافتی مرکز کو سینما گھر میں تبدیل کردیا گیا ۔

ربط
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اب تو یونیورسٹی کے گرد لگے جنگلے ہٹاکر اینٹوں کی دیواریں بنائی جارہی ہیں ۔۔ لاہور کو واپس قلعہ بنانے پہ کام شروع ہوگیا ۔۔ بہت جلد ہم لوگ لاہور شہر نام کی ایک بہت بڑی چاردیواری میں قید ہوجائیں گے
خوف ۔۔۔۔ اس سے چھٹکارہ حاصل کرتے بھی اب صدیاں لگیں گی۔۔۔۔
 
Top