دیکھتی ہوں میں

من

محفلین
عجب بکھرا ہوا سا ایک منظر دیکھتی ہوں میں
ہزاروں وحشتوں کا ایک پیکر دیکھتی ہوں میں

مری پلکوں کی دہلیزوں پہ آکے رک سے جاتے ہیں
شبیہہ سابقہ لمحوں کی اکثر دیکھتی ہوں میں

تخیل میں ابھرتی ہیں بہت سی ان کہی باتیں
ادھوری خواہشوں کا ایک لشکر دیکھتی ہوں میں

میں واقف ہوں حقیقت سے بہت اس زندگانی کی
گلوں کی سیج پہ کانٹوں کا بستر دیکھتی ہوں میں

دراریں پڑ گییں ہیں پتلیوں میں خشک ہے پانی
لٹی انکھوں میں برپا ایک محشر دیکھتی ہوں میں

میری انکھوں میں بس اک بار اسنے دھول جھونکی تھی
بھلا ہو اسکا اب پہلے سے بہتر دیکھتی ہوں میں

گراں میری طبیعت پر یہ شوخی؛ ناز برداری
کہ سوزِ غم؛ خراشِ دل کو چھو کر دیکھتی ہوں میں
مَنٌ
 
Top