دیوان منصورْ۔عتیق انور راجہ کی تحریر منصور آفاق کے دیوان کے بارے میں

منصور آفاق

محفلین
میں پچھلے کئی دنوں سے ایک حیرت میں گم ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں وقت کی حیرت انگیز کتاب کے مطالعے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ کتاب سائنسی انکشافات یا عجائبات پر مشتمل نہیں بلکہ علمی اور ادبی کارہائے نمایاں ہیں۔ ادب میں خصوصاً غزل کے میدان میں نئی جہتیں تلاش کی گئی ہیں اور پرانی کو نئے معنی و مفہوم عطا کئے گئے ہیں۔ میرے جیسے ادب کے ادنیٰ قاری کیلئے یہ مسلسل آگاہی کا عمل ہے۔ یہ صفحہ ایک نئی داستان بیان کرتا محسوس ہوتا ہے۔
آپ کا مزید امتحان لینے سے پہلے آپ کو بتا دوں کہ میں اس کتاب کا تذکرہ کر رہا ہوں جس نے پوری ادبی دنیا میں ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ کئی سالوں سے چرچا سُن رہے ہیں۔ کچھ ناقدین تو اسے محض افواہ سے تعبیر کر رہے تھے مگر ندیم بھابھہ کی شب و روز کاوشوں سے یہ منظر عام پر آ کر اپنی اہمیت منوا رہا ہے۔ یہ منصور آفاق کی شہرہ آفاق تصنیف ہے جسے اس نے دیوانِ منصور کا نام دیا ہے۔ اسکے 296 صفحات شاعرانہ صلاحیتوں سے سجے پڑے ہیں۔ کتاب کا مکمل ڈھنگ نرالا اور خوبصورت ہے۔
یوں تو احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، ظفر اقبال، منو بھائی، سید نصیر شاہ، عطاالحق قاسمی، ڈاکٹر طاہر تونسوی، ساقی فاروقی، قمر رضا شہزاد، یاسمین حبیب، ڈاکٹر صغرا صدف، شفیق احمد خان، فاضل جمیلی، تنویر حسین ملک اور ندیم بھابھہ کی رائے نے اسے چار چاند لگائے ہیں مگر شعیب بن عزیز جو منفرد لب و لہجے کے صاحبِ اسلوب شاعر ہیں کی یہ رائے منصور آفاق کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
شعیب بن عزیز لکھتے ہیں ”دیوانِ منصور کی اشاعت کے بعد اردو ادب کے کسی نقاد کے لئے منصور آفاق کو ہم عصر شعراءکی اگلی صف میں نمایاں جگہ نہ دینا ممکن نہیں رہا۔
میں اس کتاب پر فنی رائے کا اظہار تو نہیں کر سکتا مگر اس سے اپنی دلی وابستگی اور محبت تو ضرور بیان کر سکتا ہوں اور علی الاعلان یہ بات کرنے کی جرا¿ت بھی رکھتا ہوں کہ صاحبِ دیوان اس دور کا ایک اہم اور منفرد شاعر ہے۔ اس نے ادب کی کتاب میں اپنے نام ایک پورا عہد الاٹ کرا لیا ہے۔
مجھے امید ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا اور وہ نئے نئے تجربات سے اردو غزل کا دامن وسیع کر کے اسے مزید دلکشی بخشے گا۔ یہ دیوان ان تمام لوگوں کے لئے باعثِ تسکین ہو گا جن کے پاس روایت سے ہٹنے کیلئے کوئی چارہ نہیں تھا۔ منصور نے ایک نیا راستہ دریافت کر کے سب کو یہ پیغام دیا ہے کہ شاعری اسے کہتے ہیں۔ وہ ایک ہمہ وقت شاعر ہے، جب وہ شاعری نہیں کرتا تب بھی شاعری کر رہا ہوتا ہے۔ دوستوں سے گفتگو کے دوران بھی اس کے دماغ میں شعر ڈھلتے رہتے ہیں اور جونہی ذرا تنہائی نصیب ہوتی ہے وہ انہیں صفحہ¿ قرطاس پر رقم کر دیتا ہے۔ یوں تو اس دیوان میں میری بہت ساری پسندیدہ غزلیں ہیں جو مجھے نہ صرف ازبر ہیں بلکہ زندگی کے سفر میں وہ میرے ساتھ رہتی ہیں۔ کبھی کبھی مجھے یہ اپنی ذات سے جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ یہی زندہ شاعری کی علامت ہے۔
مقبول شاعری اور زندہ شاعری میں یہی فرق ہے۔ زندہ شاعری ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ یہ دیوان دیکھ کر داغ اور غالب بہت یاد آئے اور ان کے ساتھ جڑی ہوئی قدریں بھی دل میں جھانکتی رہیں۔ منصور کی ایک خوبصورت غزل آپ سب کے لئے:
وہ بات نہیں کرتا دشنام نہیں دیتا
کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا
بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکا
میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا
کچھ ایسے بھی اندھے ہیں کہتے ہیں خدا اپنا
پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا
رستے پر بقا کے بس قائم ہے منافع بخش
اس پیڑ نے کٹنا ہے جو آم نہیں دیتا
موتی میری پلکوں کے بازار میں رُلتے ہیں
کوئی بھی جواہر کے اب دام نہیں دیتا
کرداروں کے چہروں پر جھریاں ہیں ابھر آئیں
پھر بھی وہ کہانی کو انجام نہیں دیتا
بیڈ اپنا بدل لینا منصور ضروری ہے
یہ خواب دکھاتا ہے آرام نہیںدیتا
 
Top