وہاب اعجاز خان
محفلین
غالب نئے پڑھنے والوں کے لیے عموما مشکل شاعر ہیں۔ خصوصا ان کے دیوان کا ابتدائی حصہ تو سر پر اوپر سے گزر جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سوچا ہے کہ غالب کے دیوان کی شرح بمعہ لغات کے ساتھ پیش کی جائے۔ پہلی غزل کی شرح آپ کے سامنے ہے۔ یہ شرح غلام رسول مہر کی کتاب(نوائے سروش) سے لی گئی ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
لغات:۔ نقش سے مراد (نقش و نگار، نشان ،تصویر یہاں تصویر کے معنی میں استعمال ہوا ہے)
کاغذی پیرہن( کاغذی لباس ایران میں رسم رہی کہ بادشاہ کے سامنے فریاد کے لیے کاغذی لباس پہن کر اپنی فریاد پیش کی جاتی تھی)
شرح:۔ محبوب حقیقی سے جدائی نے ہستی کو فریاد پر مجبور کر دیا ہے۔ اس درد و غم کے دو سبب ہوئے اول وجود حقیقی سے جدائی ، دوم اس کے حکموں کی تعمیل میں کوتاہی۔ شاعر کہتاہے کہ ہر نقش کسی کی شوخی تحریر کا فریادی ہے۔ جس کے باعث ہرتصویر نے کاغذی لباس پہن رکھا ہے۔ ہستی کو تصویر اس لیے کہا کہ اس کا وجود حقیقی نہیں۔ غیر اعتباری ہے مگر اعتباری اور عارضی ہونے کے باوجود وہ اتنے رنج و ملال کا باعث ہوئی کہ ہر ہستی سراپا فریاد بن گئی۔
کاو کاو سخت جانیہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کر نا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
لغت( کاو کاو کے معنی کھودنا ، سخت محنت ، رنج)
جوئے شیر سے مراد فرہاد کی نکالی ہوئی دودھ کی نہر
تشریح:۔ جدائی کی حالت میں جن جن کاوشوں ، اور مشقتوں کا میں تختہ مشق بنا ہوا ہوں ان کا حال کچھ نہ پوچھو۔ نہ میں بیان کر سکتا ہوں نہ سخت جانی کے باعث دم نکلتاہے۔ بس یہ سمجھو کہ رات گزارنا اور شام کا صبح کرنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا فرہاد کے لیے بے ستون کو کاٹ کر جوئے شیر لانا دشوار تھا۔
جذبہء بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیئے
سینہء شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
لغات(شوق سے یہاں مراد شوق قتل ہے۔ جبکہ دم سے مراد تلوار کی دھار ہے۔
شرح:۔ میرے شوقِ قتل کا جذبہ جو اختیار سے باہر ہے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی کا یہ کرشمہ ہے کہ تلوار کا دم یعنی اس کی دھار کھنچ کر سینے سے باہر نکل آئی ہے۔ چونکہ تلوار میں ایک گونہ جھکاو ہوتا ہے اس لیے شاعر نے کہا کہ اس کی دھار کھچ کر سینے سے باہر نکل آئی ہے۔ اس میں لطف یہ ہے کہ دم کے دونوں معنی شاعر کے پیش نظر رہے۔ عام سانس سینے کے اندر ہوتے ہیں۔ لیکن شوق قتل کا جذبہ تلوار کی دھار(دم) کھینچ کر سینے سے باہر لے آیا۔
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
لغات(آگہی یعنی آگاہی سے مراد شعور، علم ، واقفیت ، باخبری ہے۔ جبکہ عنقا ایک خیالی پرندہ ہے۔ یہ پرندہ ناپید ہے یہاں شعر میں اس سے مراد (ناپید اور گم ) کے ہیں)
شرح: آگہی یعنی عقل و علم مقصد پھانسنے کے لیے کتنے ہی جال پھیلا دیں۔ مگر ہمارے کلام کے مفہوم و مطالب کو پھانس نہیں سکتے۔ یعنی جو ہم کچھ کہتے ہیں اس کا مفہوم و مطلب بلند ہے۔ اسے عنقا کی طرح ناپید کہنا بھی نا مناسب نہ ہوگا۔ شاعر کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اس کا مطلب کچھ نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ ہمارا مطلب اتنا دقیق اور نازک ہوتا ہے کہ اس تک عام علم و عقل کی رسائی نہیں ہو سکتی۔
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ میری زنجیر کا
لغات( بسکہ سے مراد چونکہ ہے آتش زیر پا لفظی معنی پاوں کے نیچے آگ لیکن محاورہ میں مطلب مضطرب و بے قرار، موئے آتش دیدہ سے مراد ایسا بال جسے آگ نے چھوا ہو۔ ایسا بال بل کھا کر حلقے کی شکل اختیار کر لیتا ہے)
شرح:۔ اے غالب میں قید میں بھی بے قرار ہوں اور جو زنجیر میرے پاوں میں ڈال دی گئی ہے۔ اس کی ہر کڑی میرے آتش زیرِ پا ہونے کے باعث اُس بال کی سی ہو گئی ہے جسے آگ چھو گئی ہے۔یعنی بالکل کمزور ہے اور میری بے قراری کو روک نہیں سکتی۔ شاعر کی مراد یہ ہےکہ اگرچہ دنیا سے تعلق کی زنجیر میرے پاوں میں پڑی ہوئی ہے لیکن میرا عشق ربانی اس قدر پختہ ہے کہ وہ زنجیر مجھے حقیقی راستے سے روک نہیں سکتی۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
لغات:۔ نقش سے مراد (نقش و نگار، نشان ،تصویر یہاں تصویر کے معنی میں استعمال ہوا ہے)
کاغذی پیرہن( کاغذی لباس ایران میں رسم رہی کہ بادشاہ کے سامنے فریاد کے لیے کاغذی لباس پہن کر اپنی فریاد پیش کی جاتی تھی)
شرح:۔ محبوب حقیقی سے جدائی نے ہستی کو فریاد پر مجبور کر دیا ہے۔ اس درد و غم کے دو سبب ہوئے اول وجود حقیقی سے جدائی ، دوم اس کے حکموں کی تعمیل میں کوتاہی۔ شاعر کہتاہے کہ ہر نقش کسی کی شوخی تحریر کا فریادی ہے۔ جس کے باعث ہرتصویر نے کاغذی لباس پہن رکھا ہے۔ ہستی کو تصویر اس لیے کہا کہ اس کا وجود حقیقی نہیں۔ غیر اعتباری ہے مگر اعتباری اور عارضی ہونے کے باوجود وہ اتنے رنج و ملال کا باعث ہوئی کہ ہر ہستی سراپا فریاد بن گئی۔
کاو کاو سخت جانیہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کر نا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
لغت( کاو کاو کے معنی کھودنا ، سخت محنت ، رنج)
جوئے شیر سے مراد فرہاد کی نکالی ہوئی دودھ کی نہر
تشریح:۔ جدائی کی حالت میں جن جن کاوشوں ، اور مشقتوں کا میں تختہ مشق بنا ہوا ہوں ان کا حال کچھ نہ پوچھو۔ نہ میں بیان کر سکتا ہوں نہ سخت جانی کے باعث دم نکلتاہے۔ بس یہ سمجھو کہ رات گزارنا اور شام کا صبح کرنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا فرہاد کے لیے بے ستون کو کاٹ کر جوئے شیر لانا دشوار تھا۔
جذبہء بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیئے
سینہء شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
لغات(شوق سے یہاں مراد شوق قتل ہے۔ جبکہ دم سے مراد تلوار کی دھار ہے۔
شرح:۔ میرے شوقِ قتل کا جذبہ جو اختیار سے باہر ہے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی کا یہ کرشمہ ہے کہ تلوار کا دم یعنی اس کی دھار کھنچ کر سینے سے باہر نکل آئی ہے۔ چونکہ تلوار میں ایک گونہ جھکاو ہوتا ہے اس لیے شاعر نے کہا کہ اس کی دھار کھچ کر سینے سے باہر نکل آئی ہے۔ اس میں لطف یہ ہے کہ دم کے دونوں معنی شاعر کے پیش نظر رہے۔ عام سانس سینے کے اندر ہوتے ہیں۔ لیکن شوق قتل کا جذبہ تلوار کی دھار(دم) کھینچ کر سینے سے باہر لے آیا۔
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
لغات(آگہی یعنی آگاہی سے مراد شعور، علم ، واقفیت ، باخبری ہے۔ جبکہ عنقا ایک خیالی پرندہ ہے۔ یہ پرندہ ناپید ہے یہاں شعر میں اس سے مراد (ناپید اور گم ) کے ہیں)
شرح: آگہی یعنی عقل و علم مقصد پھانسنے کے لیے کتنے ہی جال پھیلا دیں۔ مگر ہمارے کلام کے مفہوم و مطالب کو پھانس نہیں سکتے۔ یعنی جو ہم کچھ کہتے ہیں اس کا مفہوم و مطلب بلند ہے۔ اسے عنقا کی طرح ناپید کہنا بھی نا مناسب نہ ہوگا۔ شاعر کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اس کا مطلب کچھ نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ ہمارا مطلب اتنا دقیق اور نازک ہوتا ہے کہ اس تک عام علم و عقل کی رسائی نہیں ہو سکتی۔
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ میری زنجیر کا
لغات( بسکہ سے مراد چونکہ ہے آتش زیر پا لفظی معنی پاوں کے نیچے آگ لیکن محاورہ میں مطلب مضطرب و بے قرار، موئے آتش دیدہ سے مراد ایسا بال جسے آگ نے چھوا ہو۔ ایسا بال بل کھا کر حلقے کی شکل اختیار کر لیتا ہے)
شرح:۔ اے غالب میں قید میں بھی بے قرار ہوں اور جو زنجیر میرے پاوں میں ڈال دی گئی ہے۔ اس کی ہر کڑی میرے آتش زیرِ پا ہونے کے باعث اُس بال کی سی ہو گئی ہے جسے آگ چھو گئی ہے۔یعنی بالکل کمزور ہے اور میری بے قراری کو روک نہیں سکتی۔ شاعر کی مراد یہ ہےکہ اگرچہ دنیا سے تعلق کی زنجیر میرے پاوں میں پڑی ہوئی ہے لیکن میرا عشق ربانی اس قدر پختہ ہے کہ وہ زنجیر مجھے حقیقی راستے سے روک نہیں سکتی۔