دیوان غالب کی شرح

غالب نئے پڑھنے والوں کے لیے عموما مشکل شاعر ہیں۔ خصوصا ان کے دیوان کا ابتدائی حصہ تو سر پر اوپر سے گزر جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سوچا ہے کہ غالب کے دیوان کی شرح بمعہ لغات کے ساتھ پیش کی جائے۔ پہلی غزل کی شرح آپ کے سامنے ہے۔ یہ شرح غلام رسول مہر کی کتاب(نوائے سروش) سے لی گئی ہے۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

لغات:۔ نقش سے مراد (نقش و نگار، نشان ،تصویر یہاں تصویر کے معنی میں استعمال ہوا ہے)
کاغذی پیرہن( کاغذی لباس ایران میں رسم رہی کہ بادشاہ کے سامنے فریاد کے لیے کاغذی لباس پہن کر اپنی فریاد پیش کی جاتی تھی)

شرح:۔ محبوب حقیقی سے جدائی نے ہستی کو فریاد پر مجبور کر دیا ہے۔ اس درد و غم کے دو سبب ہوئے اول وجود حقیقی سے جدائی ، دوم اس کے حکموں کی تعمیل میں کوتاہی۔ شاعر کہتاہے کہ ہر نقش کسی کی شوخی تحریر کا فریادی ہے۔ جس کے باعث ہرتصویر نے کاغذی لباس پہن رکھا ہے۔ ہستی کو تصویر اس لیے کہا کہ اس کا وجود حقیقی نہیں۔ غیر اعتباری ہے مگر اعتباری اور عارضی ہونے کے باوجود وہ اتنے رنج و ملال کا باعث ہوئی کہ ہر ہستی سراپا فریاد بن گئی۔

کاو کاو سخت جانیہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کر نا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

لغت( کاو کاو کے معنی کھودنا ، سخت محنت ، رنج)
جوئے شیر سے مراد فرہاد کی نکالی ہوئی دودھ کی نہر

تشریح:۔ جدائی کی حالت میں جن جن کاوشوں ، اور مشقتوں کا میں تختہ مشق بنا ہوا ہوں ان کا حال کچھ نہ پوچھو۔ نہ میں بیان کر سکتا ہوں نہ سخت جانی کے باعث دم نکلتاہے۔ بس یہ سمجھو کہ رات گزارنا اور شام کا صبح کرنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا فرہاد کے لیے بے ستون کو کاٹ کر جوئے شیر لانا دشوار تھا۔

جذبہء بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیئے
سینہء شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

لغات(شوق سے یہاں مراد شوق قتل ہے۔ جبکہ دم سے مراد تلوار کی دھار ہے۔

شرح:۔ میرے شوقِ قتل کا جذبہ جو اختیار سے باہر ہے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی کا یہ کرشمہ ہے کہ تلوار کا دم یعنی اس کی دھار کھنچ کر سینے سے باہر نکل آئی ہے۔ چونکہ تلوار میں ایک گونہ جھکاو ہوتا ہے اس لیے شاعر نے کہا کہ اس کی دھار کھچ کر سینے سے باہر نکل آئی ہے۔ اس میں لطف یہ ہے کہ دم کے دونوں معنی شاعر کے پیش نظر رہے۔ عام سانس سینے کے اندر ہوتے ہیں۔ لیکن شوق قتل کا جذبہ تلوار کی دھار(دم) کھینچ کر سینے سے باہر لے آیا۔

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

لغات(آگہی یعنی آگاہی سے مراد شعور، علم ، واقفیت ، باخبری ہے۔ جبکہ عنقا ایک خیالی پرندہ ہے۔ یہ پرندہ ناپید ہے یہاں شعر میں اس سے مراد (ناپید اور گم ) کے ہیں)

شرح: آگہی یعنی عقل و علم مقصد پھانسنے کے لیے کتنے ہی جال پھیلا دیں۔ مگر ہمارے کلام کے مفہوم و مطالب کو پھانس نہیں سکتے۔ یعنی جو ہم کچھ کہتے ہیں اس کا مفہوم و مطلب بلند ہے۔ اسے عنقا کی طرح ناپید کہنا بھی نا مناسب نہ ہوگا۔ شاعر کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اس کا مطلب کچھ نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ ہمارا مطلب اتنا دقیق اور نازک ہوتا ہے کہ اس تک عام علم و عقل کی رسائی نہیں ہو سکتی۔

بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ میری زنجیر کا

لغات( بسکہ سے مراد چونکہ ہے آتش زیر پا لفظی معنی پاوں کے نیچے آگ لیکن محاورہ میں مطلب مضطرب و بے قرار، موئے آتش دیدہ سے مراد ایسا بال جسے آگ نے چھوا ہو۔ ایسا بال بل کھا کر حلقے کی شکل اختیار کر لیتا ہے)

شرح:۔ اے غالب میں قید میں بھی بے قرار ہوں اور جو زنجیر میرے پاوں میں ڈال دی گئی ہے۔ اس کی ہر کڑی میرے آتش زیرِ پا ہونے کے باعث اُس بال کی سی ہو گئی ہے جسے آگ چھو گئی ہے۔یعنی بالکل کمزور ہے اور میری بے قراری کو روک نہیں سکتی۔ شاعر کی مراد یہ ہےکہ اگرچہ دنیا سے تعلق کی زنجیر میرے پاوں میں پڑی ہوئی ہے لیکن میرا عشق ربانی اس قدر پختہ ہے کہ وہ زنجیر مجھے حقیقی راستے سے روک نہیں سکتی۔
 
دوسری غزل

غزل


جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر بہ تنگی چشم حسود تھا

لغات:۔
قیس:۔ مشہور عاشق مجنوں کا اصل نام
بروئے کارآنا:۔ نمایاں ہونا۔ برسر کار آنا
حسود:۔ بہت حسد کرنے والا۔

شرح:۔
عمریں گزر گئیں، قیس کے سوا کوئی دوسرے آدمی نے جنون عشق میں نمایاں حیثیت حاصل نہ کی اور اس کی طرح صحرا گردی میں عمر نہ گزاری۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحرابھی وسعت کے باوجود بہت حسد کرنے والے شخص کی آنکھ کی طرح تنگ تھا۔
چشم حاسد کی تنگی اس لیے مشہور ہوئی کہ وہ اپنے سوا ہر شخص کی نعمت کا زوال چاہتا ہے، کسی کو پھولتا پھلتا دیکھنا گوارا نہیں ہوتا۔ شاعر کہتا ہے کہ صحرا دیکھنےمیں کتنا ہی وسیع اور کشادہ کیوں نہ ہو۔ لیکن جب ہم یہ حقیقت پیش نظر رکھتے ہیں کہ قیس کے سوا کوئی اور فردِ جنون عشق کی سرگشتگی میں صحرا کے اندر نہ پہنچ سکا تو معلوم ہوا کہ صحرا چشم حاسد کی طرح تنگ ہے۔ یعنی وہاں کسی دوسرے کو قدم رکھنے کے لیے جگہ نہ مل سکی۔

آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

لغات:۔
سویدا۔ دل کاسیاہ نقطہ۔ شاعر نے پریشانی اور آشفتگی کو دھوئیں سے ، دل کے سیاہ نقطے کو داغ سے تشبیہ دی ہے۔

شرح:۔
عشق کی پریشانی کے باعث سے آہ و فغاں کا دھواں اٹھتا رہتا تھا۔ اسی دھوئیں سے دل کے سیاہ نقطے کی صورت قائم ہو گئی۔ معلوم ہے جس مقام پر دھواں مسلسل لگتا رہے، وہاں سیاہی پیدا ہو جاتی ہے۔ شاعر کے نزدیک دل کے نقطے یعنی سویدا کی سیاہی آہ فغاں کے اسی دھوئیں کا کرشمہ تھی۔ جو عشق کی پریشانی و آشفتگی میں مسلسل اٹھتا رہتا ہے۔ اسی صورت حال پر شاعر نےاپنا عام مشاہدہ چسپاں کر دیا یعنی یہ کہ داغ کا اصل سرمایہ اور راس المال صرف دھواں ہوتا ہے کیونکہ جس جگہ دھواں مسلسل لگتا رہے وہ سیاہ ہو جاتی ہے۔

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھانہ سود تھا

شرح:۔
اے محبوب ! عالم بیداری میں تو تیرے ساتھ عشق ومحبت کے معاملے کی کوئی صورت نہیں۔ البتہ تو خواب میں آجاتا ہے تو خیال تجھ سے معاملے کی باتیں کرتا ہے۔ مثلا کبھی شوق کی فراوانی پیش کر دی۔ کبھی عرض کر دیا کہ سچے جانبازوں سے بے تعلق نہ رہنا چاہیئے۔ کبھی شوق وصل کا اظہار کر دیا۔ محبوب عالم خواب میں ایسی کسی گزراش پر متوجہ نہیں ہوتا۔ پھر آنکھ کھل جاتی ہے اور خواب کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے تو شاعر پر واضح ہوتا ہے کہ نفع و نقصان یا سود و زیاں کی جو بات چیت ہو رہی تھی۔ وہ تو خواب و خیال کی حیثیت رکھتی تھی۔ عالم بیداری میں تو کوئی معاملہ ہی پیش نہ آیا۔ لہذا سود و زیاں کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محبوب کے ساتھ جو معاملے پیش آئے اور عیش و راحت یا رنج کے جن واقعات سے سابقہ پڑا ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ عالم خواب میں خیال کے کرشمے تھے۔ جب آنکھ کھل گئی تو عیش و راحت اور رنج و ملال یعنی سود زیاں میں سے کچھ بھی نہ رہا۔ کیونکہ خواب کی تمام باتوں کا اثر آنکھ کھلتے ہی زائل ہو جاتا ہے۔

لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا

شرح:۔ میں غم دل یعنی عشق کے مکتب میں ابھی پڑھنے لگاہوں۔ اور میرا سبق بالکل ابتدائی حالت میں ہے، یعنی ابھی رفت(گیا) اور بود(تھا) یاد کر رہا ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ عشق کی درس گاہ میں ابھی مبتدی اور نوآموز ہوں۔قدم آگے بڑھے گا اور تعلیم کے ابتدائی درجوں سے ترقی کرتا ہوا اوپر کے درجوں میں پہنچوں گا تو خدا جانے کیا کیفیت رونما ہوگی۔

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

لغات:۔ ننگِ وجود: ہستی کے لیے ننگ و عار کا باعث

شرح:۔ مجھ سے برہنہ ہونے کے جتنے عیب تھے، ان سب کا داغ کفن نے ڈھانپ لیا، ورنہ میری حالت یہ تھی کہ کوئی بھی لباس پہن لیتا ، ہستی اور انسانیت کے لیے شرم اور ننگ و عار کا باعث تھا۔
برہنگی کا مطلب ہے اخلاقی محاسن اور انسانی شرف کے اوصاف سے خالی ہونا۔ لباس اس لیے پہنا جاتا ہے کہ انسان برہنہ نظر نہ آئے ۔ شعر کا مطلب یہ ہے کہ میں اعلیٰ اوصاف سے عاری ہونے کے باعث اپنے وجود یعنی ہستی اور انسانیت کے لیے باعث شرم ہوگیا۔ کوئی بھی لباس اختیار کرتا۔ برہنہ ہونے کے عیب چھپ نہ سکتے۔ زندگی اسی حالت میں گزر گئی۔ آخر موت آئی اور مجھے کفن پہنایا گیا تو اس سے وہ عیب جو قطعا نہیں چھپ سکتے تھے۔ جو زندگی میں شرفِ انسانیت سے محرومی کے باعث مجھے لگ، البتہ صرف برہنہ ہونے کا داغ کفن نے ڈھانپ لیا۔
اس شعر سے خیال قران مجید کی اس ایت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ جس میں فرمایا گیا: اے اولادِ آدم ! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس مہیا کر دیا ، جو جسم کی ستر پوشی کرتا ہے اور ایسی چیزیں بھی دے دیں جو زیب و زینت کا ذریعہ ہیں۔ نیز پرہیز گاری کی راہ دکھا دی کہ تمام لباسوں سے بہتر لباس ہے۔(سورہء اعراف)

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد!
سرگشتہء خمار رسوم و قیود تھا

لغات:۔
کوہکن :۔ لغوی معنی (پہاڑ کھودنے والا) یہاں مراد شریں والا فرہاد ہے۔
سرگشتہ :۔ لغوی معنی جس کا سر پھر گیا ہو، یعنی حیران و پریشان
خمار:۔ نشے کے اتار کی کیفیت۔ اس میں نشہ پینے والے پر بے لطفی اور اعضا شکنی سی طاری ہو جاتی ہے۔
رسم و قیود: رسم اورقید کی جمع۔ یعنی رسمیں اور پابندیاں

شرح:۔
اے اسد فرہاد تیشے کے بغیر جان نہ دے سکا۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ دینوی رسم و رواج کی پابندیوں کے خمار میں حیران و پریشان تھا۔
شعر کا مطلب یہ ہے کہ عشق صادق و کامل ہوتو عاشق کے لیے مرنے کے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، جیسے فرہاد نے خود کشی کے لیے تیشہ استعمال کیا۔ یہ رسم کی پابندی تھی حالانکہ ایسی پابندی عشق کامل کی آزادگی سے کوئی مناسب نہیں رکھتی۔ تیشہ مار کر ہر شخص مر سکتا ہے ، اس میں فرہاد کے عشق نے کیا کمال دکھایا؟ کمال یہ تھا کہ وہ ایسی کسی چیز کا روادار نہ ہوتا، مثلا ایک آہ سرد کھینچتا اور جان دے دیتا۔ افسوس کہ اس نے انتظار کیا، ایک بڑھیا شریں کی موت کی جھوٹی خبر لائے وہ سنے اور پھر تیشہ مار کر اپنے آپ کو ہلاک کرے۔
 
غزل نمبر 3

کہتے ہو نہ دینگے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجیے ہم نے مدعا پایا

شرح؛۔

اے محبوب! تم کہتے ہو کہ تیرا دل کہیں پڑا پائیں گے تو واپس نہ دیں گے، لیکن ہمارے پاس دل ہے ہی کہاں کہ گم ہو۔ وہ تو ہم پہلے ہی دے چکے ہیں۔ البتہ آپ کی اس بات کا مطلب ہم سمجھ گئے ہیں کہ ہمارا دل تمہارے پاس ہے اور ہمارا مدعا بھی یہی ہے کہ تمہارے پاس ہی رہے۔
دو بے تکلف دوستوں میں سے کسی کی چیز گم ہو جائے اور دوسرے کے ہاتھ آ جائے تو وہ اسے چھپائے رکھتا ہے اور مالک سے کہتا ہے کہ اگر وہ چیز ہمیں مل گئی تو ہر گز واپس نہ دیں گے۔ اسی عام معمول سے غالب نے ایک پرلطف مضمون پیدا کر لیا۔
ہم نے مدعا پایا کے دو مطلب ہیں اول یہ کہ ہم نے تمہارا مطلب سمجھ لیا یعنی دل تمہارے پاس ہےدوم یہ کہ دل کا تمہارے پاس رہنا ہمارامقصد تھا وہ مقصد ہم نے پالیا

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا

شرح؛۔
زندگی بے کیف اور بے لطف ہی نہیں، طرح طرح کی تکلیفوں اور دکھوں سے بھری ہوئی تھی۔ عشق آیا اور اس نے زندگی میں خاص لذت و کیفیت پیدا کر دی۔ جس سے تمام درد اور دکھ مٹ گئے۔ کیونکہ عشق ان کے لیے دوا بن گیا۔ لیکن خود عشق ایسا درد ہے جس کی کوئی دوا نہیں۔
زندگی کے بے کیف اور بےمزہ ہونے کا سبب بظاہر یہ ہے کہ کسی شے سے کوئی دلبستگی نہ تھی۔ لشتم پشتم دن گزر رہے تھے۔ عشق نے خاص دلبستگی پیدا کرکے زندگی کو پرمزہ بنا دیا۔
یہ حقیقت محتاج تشریح نہیں کہ زندگی گوناگوں آرزوں سے لبریز ہوتی ہے۔کوئی آرزو ایسی نہیں، جسے پورا کرنے کے لیے محنت و مشقت سے کام نہ لینا پڑے محنت و مشقت کے بعد بھی بعض آرزوئیں پوری ہوتی ہیں اور بعض نہیں ہوتیں گویا ان آرزوں کے باعث زندگی دکھ درد کا مرقع بن جاتی ہے۔عشق آیا تو تمام دکھ مٹا دیئے۔ بہرحال عشق ہی زندگی میں لطف و کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اور تمام دکھوں کا وہی علاج ہے۔ لیکن خود اس کی دوا نہیں۔

دوستدار دشمن ہے اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا

شرح؛۔
جس سے ہم محبت کرتے ہیں، وہ ہماری جان کا دشمن بنا ہوا ہے۔اور دل بھی ہمارا ساتھ چھوڑ کر اسی کا دوست بن گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب اس پر کیا بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ دشمن سے دل کی دوستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے جتنی آہیں کیں، وہ کوئی اثر پیدا نہ کرسکیں۔ اور جتنے نالے کھینچے، وہ مقصد پر نہ پہنچ سکے۔
اس شعر میں مرزا نے نہایت پر لطف طریق پر اپنے عشق کی کیفیت بیان کر دی۔ عشق کا مرکز دل ہوتا ہے۔ وہ محبوب کے ساتھ ہے۔ مرزا اپنے آپ کو ایک الگ شخص فرض کرکے آہ و فغاں کی بے اثری کا یہ سبب بتاتے ہیں کہ جب دل ہی ساتھ نہیں تو میرے رونے دھونے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔

سادگی و پرکاری بیخودی و ہوشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا

لغت؛۔
بیخودی؛۔ اپنے آپ میں نہ رہنا، یعنی ہوش میں نہ رہنا، بے خبری، زیر نظر شعر میں اس سے مراد تجاہل یعنی جان بوجھ کر انجان بننا ہے۔
جرات آزما؛۔ حوصلے اور ہمت کا امتحان لینے والا

شرح؛۔
حسین بظاہر بڑے سادہ اور بھولے بھالے نظر آتے ہیں، لیکن اصل میں بہت ہوشیار اور چالاک ہیں۔ وہ کبھی کبھی جان بوجھ کر انجان بن جاتے ہیں اور بے پروائی سی اختیار کر لیتے ہیں، مگر اس حالت میں بھی ہوشیاری اور خبرداری ترک نہیں کرتے۔ بھولے بن جانے سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دیکھیں، جو لوگ عشق کے مدعی ہیں، ان کے حوصلے اور ہمت کا کیا حال ہے۔ صبر و استقلال کی کیا کیفیت ہے۔ آیا وہ ہماری سادگی سے فائدہ اٹھا کر کسی گستاخی پر تو نہیں اتر آتے؟گویا ان کی سادگی اور تجاہل سے مقصود عاشق کی آزمائش ہوتی ہے۔

غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا

شرح؛۔
بہار آگئی اور کلیاں کھلنے لگیں۔ یہ کیفیت دیکھتے ہی ہمیں اپنا دل یاد آگیا، جو اسی طرح خوں ہوا تھا، جس طرح کلی کھل کر سرخی کے باعث سراپا خون نظر آتی ہے۔نیز ہم نے اپنا دل پالیا۔ جو کھو گیا تھا۔

حال دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈھا تم نے بارہا پایا

شرح؛۔
ہمیں دل کا حال کچھ معلوم نہیں، صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہم اسے برابر ڈھونڈھتے رہے اور کبھی نہ پایا۔ تم نے اے محبوب! ڈھونڈے بغیراسے ہمیشہ پالیا۔ مطلب یہ کہ ہمارا دل جب سے آپ کے قبضے میں آیا، ہمیں کبھی نہ ملا اور آپ اس پر برابر قابض رہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہے کہ دل کو محبوب کے پاس رہنےکا انتہائی شوق ہے۔ جب اسے ڈھونڈا جائے، وہ معشوق ہی کو ملتا ہے۔ عاشق کو نہیں ملتا۔


شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھرکا
آپ سے کوئی پوچھ تم نے کیا مزہ پایا

تشریح؛۔
ناصح نے ترکِ محبت کی نصیحت کرکے ہمارے زخم پر نمک چھڑک دیا۔ یعنی ہمیں حد درجہ دکھ پہنچایا۔ کیونکہ ہم سے ترکِ عشق ہو ہی نہیں سکتا۔اس سے پوچھنا چاہیئے کہ ایسی نصیحت کرکے تمہیں کیا مزہ ملا؟
شور اور نمک کی مناسبت کسی تشریح کی محتاج نہیں، اگرچہ شعر میں شور سے مراد یہ ہے کہ ناصح نے نصیحت بڑے زور و شور سے اور ہنگامہ آرائی کے انداز میں کی۔
 
غزل ٤

دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا

لغات؛۔

بے محابا۔ بے تکلف، بے خوف، بے دھڑک
آتشِ خاموش؛ دبی ہوئی آگ جو بظاہر بجھی ہوئی معلوم ہو لیکن اندر اندر جل رہی ہو۔

شرح؛۔

میرا دل اُس سوز سے جل گیا،جو اندر ہی اندر اپنا کام کررہا ہے۔سمجھنا چاہیے کہ وہ اُس آگ کی طرح جل گیا جو بظاہر راکھ معلوم ہوتی ہے، لیکن اندر اندر برابر جلتی رہتی ہے۔ ‘خاموش‘ اور ‘گویا‘ کی مناسبت ظاہر ہے۔عشق کی آگ کا یہی طریقہ ہے کہ عاشق صبرو ضبط سے کام لیتا ہے اور آگ خفیہ خفیہ اس کا دل جلاتی رہتی ہے۔

دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھرمیں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

شرح؛۔

دل میں میں وصل کا شوق اور محبوب کی یاد تک باقی نہ رہی۔ یہی اس کی سب سے بڑھ کر قیمتی اور عزیز متاع تھی۔ گویا اس گھر میں ایسی آگ لگی جو کچھ بھی اس میں تھا، سارے کا سارا جل کر بھسم ہوگیا۔
کہا جاسکتا ہے کہ وہ عشق کیا ہوا، جس میں محبوب کی یاد اور وصل کا شوق بھی سلامت نہ بچا۔ معلوم ہے کہ یہ دونوں چیزیں عشق کا مرکز اور نصب العین ہیں۔ اس سلسلے میں شعر کی دو تاولیں ہوسکتی ہیں؛ اول نفس عشق کی فروانی نے دل میں اتنا غلبہ حاصل کرلیا کہ محبوب کی یاد اور وصل کے شوق کے لیے گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ گویا دل سراپا عشق بن گیا۔ دوسرا پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ محبوب کی مسلسل بے اعتنائی اور سنگ دلی سے عاشق کی مایوسی و ناامیدی آخری حد تک پہنچ گئی ، جس کے بیان کے لیے عاشق کو زیادہ موثر صورت یہی نظر آئی کہ جو چیزیں عشق کی جان تھیں، انھیں بھی موہوم قرار دے لے۔ وہ کہنا یہ چاہتا ہے کہ مایوسی ایسی صورت اختیار کرچکی ہے، جس کے پیشِ نظر ذوقِ وصل اور یاد یار کا وجود ہی محل نظر رہ گیا ہے۔

میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہِ آتشیں سے بال عنقا جل گیا

شرح؛

میں عدم سے بھی آگے نکل گیا، یعنی اس درجہ معدوم ہوگیا کہ عدم بھی میرے مقام کے تعلق میں وجود کی حیثیت رکھتا ہے، ورنہ جب تک عدم یعنی عالمِ فنا میں تھا تو بارہا ایسا ہوا کہ میرے دل میں آگ برسانے والی جو آہ اُٹھتی تھی، اس سے عنقا کے پر جل جاتے تھے۔

عرض کیجیے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیاتھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

لغات؛۔
جوہر اندیشہ؛۔ سوچ بچار اور غورو فکر کا جوہر، جوہر اس چیز کو کہتے ہیں جو قائم بالذات ہو۔ اس سے مراد مادے کا وہ ذرہ لیتے ہیں، جس کا تجزیہ نہ ہوسکے۔ اسی لیے اسے جزو لایتجزیٰ کہتے تھے۔ لیکن معلوم ہے کہ یہ نظریہ مدت ہوئی غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اور اب جوہر یعنی ایٹم کا تجزیہ کرکے ایسی قوت دریافت کرلی گئی ہے جسے بے پناہ مانا جاتا ہے۔ عجیب امر یہ ہے کہ غالب نے اس شعر میں جوہر کا یہی پہلو پیشِ نظر رکھا ہے۔

شرح؛

میں سوچ و بچار اور غور و فکر کے جوہر کی گرمی کہاں ظاہر کروں؟ کس مقام پر دکھاؤں؟ کیونکر معرضِ بیان میں لاؤں؟ صورتِ حال یہ ہے کہ وحشت کا خیال آتے ہی صحرا جل کر خاک ہوگیا۔ وحشت میں صحرا گردی ہی پیشِ نظر تھی، مگر صحرا جوہر اندیشہ کی گرمی کا تصور بھی برداشت نہ کرسکا۔
آج جوہر یعنی ایٹم کی قوت مرزا کے اس بیان کی تصدیق کررہی ہے۔ یعنی وہ اتنی ہولناک ہے کہ کوئی شے اس کا تصور بھی دماغ میں لے آئے تو جل کر خاکستر ہوجائے۔

دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا

لغات؛۔

چراغاں؛ بہت سے چراغ، لیکن اس لفظ کو چراغ کی جمع نہ سمجھنا چاہیے
کارفرما؛ حاکم، دوسروں سے کام لینے والا

شرح؛

میرے پاس دل ہی نہیں رہا، ورنہ تمہیں دکھاتا کہ سینے کے داغوں کی بہار کا کیا رنگ ہے۔ میں کیا کروں، داغوں کے ان بے شمار چراغوں کا انتظام کرنے والا اوران سے کام لینے والا ہی باقی نہیں رہا۔ شعر میں سینے کے داغوں کو چراغاں سے تشبیہ دی ہے اور دل کو اس چراغاں کا منتظم و کار فرما بنادیا ہے

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا

لغات؛۔

افسردگی؛ پژ مردگی۔ دل بجھ جانا
تپاک؛ محبت کی گرم جوشی ، اضطراب۔ بے قراری۔ یہاں طرزِ تپاک سے مراد اہل دنیا کی منافقت اور ریاکاری ہے، جس کی وجہ سے دل بجھ گیا۔

شرح؛

اہل دنیا کا ریا کارانہ برتاؤ دیکھ کردل اس طرح جل بجھا ہے کہ اے غالب! تمام آرزوئیں اور تمنائیں ختم ہوگئی ہیں۔ صرف افسردگی و پژمردگی کی آرزو باقی رہ گئی ہے۔
افسردگی اور تپاک کی مناسبت محتاجِ بیان نہیں۔
 
Top