دین-6 ( کفر اور ایمان )

عارف ِ ربّانی شیخ عبدالغنی العمری القاسمی الادریسی الحسنی کے چھٹے لیکچر کا ترجمہ:
http://playit.pk/watch?v=EZa3_No6S_g
بسم اللہ الرحمٰن ارحیم والحمد للہ ربّ العالمین و صلّ اللہ و سلّم علیٰ سیّدنا محمّد خاتم النبیّین واشرف المرسلین و علیٰ آلہ وصحبہ والتابعین۔ امّا بعد:
اب جبکہ ہم دین کے بارے میں ایجاز اور اجمال کے ساتھ سابقہ لیکچرز میں کچھ گفتگو کرچکے ہیں، ضروری ہے کہ تفاصیلِ اسلام پر بات کرنے سے پہلے کفر اور اسلام کے بعض معانی اچھی طرح سمجھ لئے جائیں۔
لوگوں کی اکثریت بشمول مسلمانوں کے، کفر کو اس نظر سے دیکھتے ہیں جیسے یہ کوئی ایسی شئے ہو جو منطقِ وجود سے خارج ہے۔ جبکہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس بات کو ہم ان شاء اللہ اس لیکچر میں واضح کریں گے۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا ہمارے لئے ضروری ہے کہ انسان خواہ وہ کفر سے تعلق رکھتے ہوں یا ایمان سے، انکے کفر اور ایمان کا تعلق تکلیف ( Responsibility) اور اسکےمختلف توابع( Dimensions) سے ہے ۔ اور یہ کہ انسانوں کی اصل ایک ہی ہے اور وہ ہے فطرت۔ یعنی انسان اپنی جبلت کی رُو سے جس شئے پر ہے اسے فطرت کہتے ہیں۔ اور فطرت انسان کی وہ اصل ہے جس پر وہ بنایا گیا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ فأقم وجهك للدين حنيفا فطرة الله التي فطر الناس عليها "آپ اپنی توجہ کامل یکسوئی کے ساتھ دین کی طرف رکھیں جو اللہ کی( بنائی ہوئی) فطرت ہے جس پر اس نے اپنے بندوں کو بنایا ہے۔"۔ تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دین کی اصل فطرت میں ہے۔ اور یہ وہ عبودیتِ ذاتیہ(Instinctive) ہے جو بندوں کے نفوس میں اللہ کے لئے رکھ دی گئی ہے۔ اور اس اصل کی رُو سے تمام کے تمام بندے اپنی ذات کی جہت سے اللہ کی طاعت پر ہیں۔ بلکہ اسے طاعت کہنا بھی درست نہیں، کیونکہ یہ عبادت ِ شاملہ و کاملہ ہے۔جبکہ طاعت وہ عبادت ہے جو معصیت کے مقابلے میں ہے اور بے شک وہ عبادت کی ایک اہم شکل ہے۔ اور دین فطرت کا تسلسل ہے۔ اور کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ مشروع کردہ راستے کی پیروی کئے بغیر اپنی فطرتِ اصل کو برقرار رکھ سکے۔ کیونکہ جس نے فطرت بنائی اسی نے راستہ بھی مشروع کیا۔ چنانچہ اسی مقام سے ہر وہ شخص علیحدہ ہوگیا جو خیر اور حق کے زعمِ باطل میں اللہ کی مشروع کردہ راہ کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے نفس کے راستے پرچلا ۔ کیونکہ فطرت کی بنیاد ایسی شئے پر نہیں رکھی گئی جو مشروع نہ ہو۔ اور وہ سب کچھ جو شرع میں مشروع کیا گیا ہے، اس کو چھوڑ کر باقی سب کچھ حتمی طور پر فطرت کے مخالف ہے، چنانچہ اسی وجہ سے منقطع (Disconnected )ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں جو انقطاع (Disconnection)حاصل ہوتا ہے اسی کو کفر کا نام دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ ایمان کے لئے ایک اصل موجود ہے جو فطرت میں ہے۔ لیکن کفر کے لئے فطرت میں کوئی اصل(Root) نہیں ہے۔ البتہ حقائق میں کفر کے لئے اصل موجود ہے۔
بچھلے لیکچرز میں ہم نے دیکھا کہ ممکن(Possible Being) کی ایک جہت وجود سے ہے اور ایک جہت عدم سے۔ چنانچہ امکان کی اسی اصل سے ایمان اور کفر کا ظہور ہوا ہے۔ پس ایمان کی اصل وجود ہے یعنی حق ہے۔ جبکہ کفر کی اصل عدم ہے۔ اوریہی وہ انقطاع ہے جس کا ہم نے ذکر کیا۔ گویا ایک انسان جو مکّلف ہے، اس پرکفر اس کے عدمی الاصل ہونے کی جہت سے لوٹتا ہے اور حضرتِ امکان یعنی شہود میں داخل ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس شئے کے مخالف ہے جو اس پر طاری ہے یعنی اپنے حال کے مخالف ہے۔ اور چونکہ وہ مشہود ہوگیا چنانچہ اسکے لئے بہتر تھا کہ اس کے لئے ایمان کا دریچہ وا ہوتا۔
اور ایمان نور ہے اور نور سے ممکنات ظاہر ہوئے۔ اور عدم ظلمت ہے اندھیرا ہے، چنانچہ اس ظلمت کی وجہ سے ممکنات چھپ گئے اور اپنے عدمی الاصل حکم کی جانب لوٹ گئے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ ممکنات ظاہر ہوں، تو اللہ کی موافقت ایمان کی متقاضی ہوئی۔ اور اس نے کفر کو قبول نہ کیا۔
یہ فطرت جیسا کہ ہم نے کہا، عبادتِ اصلیہ ہے۔ اور اسی کو ہم نے سابقہ لیکچر میں عبادتِ قہریّہ کے نام سے موسوم کیا تھا۔ اور اس عبادتِ قہریّہ کو ہم نے مومن اور کافر میں مشترک ٹھہرا یا تھا، جیسا کہ مومن اور کافر اپنی اصلِ ایمان میں مشترک ہیں۔ کیونکہ فطرت جو کافر کے پاس ہے یہ وہ اصل ہے جو اسکے لئے ثابت ہے چنانچہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو فطرت کے مطابق پیدا کئے گئے۔ اور جیسا کہ ہم نے پچھلے لیکچر میں کہا تھا کہ کفر کےلغوی معنی ہیں پردہ ڈال دینا ڈھانپ دینا حجاب میں پڑ جانا۔ چنانچہ اسی وجہ سے اسے کافر کہا گیا کیونکہ اگر ہم مومن اور کافر کی تعریف (Definition ) کرنا چاہیں تو کافر وہ ہے جس سے اسکا ایمان اوجھل ہوگیا، مستور ہوگیا۔ اس نے اس پر پردہ ڈال دیا۔ اور ہم نے کہا کہ کفر ظلمت سے ہے۔ چنانچہ ظلمت نے قلبِ کافر کو ہر طرف سے ڈھانپ دیا تا آنکہ اسے کوئی نُور دکھائی نہ دیا۔ پس جب وہ اپنے نور سے حجاب میں آگیا تو اسے وجود میں صورِ عدمیہ یعنی عدمی صورتوں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا، اور ان صورِ عدمیہ میں اس کا نفس بھی شامل ہے۔ اس نے اپنی نفس ہی کو دیکھا جو ایک صورتِ عدمی ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کے حق میں بطورمذمّت (Condemnation) یہ فرمایا کہ وَعْدَ اللَّهِ لا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ (اللہ نے وعدہ کیا اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا، لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے)۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی یہ صفت بیان کی کہ يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ (وہ دنیا وی زندگی کے ظاہر سے ہی جانتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں)۔ یہ وہی لوگ ہیں جو لا يَعْلَمُونَ میں شامل ہیں اور اگر جانتے ہیں تو صرف وہی جو دنیاوی حیات سے ظاہری طور پر انکے ادراک میں آتا ہے۔ اسی طرح کافر ہے کہ جسے نور دکھائی نہیں دیتا، بلکہ صورِ عدمیہ کی ظلمت دکھائی دیتی ہے اور اس عدم کی وجہ سے حجاب میں رہتا ہے۔وَهُمْ عَنِ الآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ آخرۃ یعنی اُخریٰ، اس کے معانی وسیع تر ہیں بہ نسبت اس کے جو عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں۔ لوگ آخرت سے صرف وہ مراد لیتے ہیں جو دنیا کے بالمقابل ہے، یعنی اخروی زندگی، جبکہ اُخریٰ سے مراد ہے امور میں سے کسی بھی امر کی دوسری جہت، دوسرا پہلو۔ چنانچہ صورِ عدمیہ کے شہود کے مقابل جو دوسری چیز ہے وہ ہے حق کا شہود۔ چنانچہ شہودِ حق، صورِ عدمیہ کے شہود کی نسبت سے آخرۃ ہے۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم قرآن کا مطالعہ سرسری یا سطحی نظر سے نہ کریں۔ آیت کے مطابق یہ لوگ جو جانتے نہیں ہیں، وہ جانتے ہیں مگر صرف ظاہر کی حد تک۔ اور یہ لوگ جنہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، یعنی کفّار، اگر دیکھتے بھی ہیں تو صرف صورِ عدمیہ دیکھتے ہیں۔ یعنی ظلمتِ عدم۔ اور یہ ایسے امور ہیں کہ شدّتِ ظلمت کی وجہ سے کئی مرتبہ کافر کو اپنا یہ کفر دکھائی نہیں دیتا۔ یعنی وہ دنیا کو دیکھتا ہے، اپنے آپ کو بھی دیکھتا ہے، اپنے باطن پر بھی نظر ڈالتا ہے لیکن وہ نظر اس باطن کے ظاہر تک ہی محدود رہتی ہے۔ چنانچہ جس طرح وہ حیاتِ دنیا کے ظاہر کو دیکھتا ہے اسی طرح اپنے باطن کی بھی صرف ظاہری سطح ہی کو دیکھتا ہے۔ اور یہ وہ شئے ہے جسے ماہرینِ نفسیات (Psychology) نے نفس یعنی ایگو (Ego) کا نام دیا ہوا ہے۔ چنانچہ کفر کا علمِ نفس جس چیز کو Ego یا Self کہتا ہے ، یہ وہی چیز ہے جسے ہم نے ظاہر الباطن کہا۔ چنانچہ ہمارے نزدیک نفس کے جو معانی ہیں وہ ماہرینِ نفسیات کے Egoیا Self تک محدود نہیں ہیں ۔ اور ان معانی پر ہم ایک ایک کرکے تدریجاّ (Gradually) ان شاء اللہ ان حلقات میں بات کریں گے۔
اب ہم اس لیکچر کے موضوع یعنی کفر اور ایمان کی طرف واپس آتے ہیں۔ اطاعتِ ذاتیہ جو اشیاء کو اپنی ذات کی جہت سے حاصل ہے اور کافر کو بھی اس میں سے حصہ ملا ہے، اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کئی آیات میں فرمایا ہے، االلہ سبحانہ کے ان اقوال میں سے ایک یہ ہے کہ أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ کہ "کیا تم لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کچھ اور چاہ رہے ہو؟ اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اسی کے آگے چار و ناچار (چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی) سرِ تسلیم خم کرتا ہے اور اسی کی طرف واپس لوٹ کے جانے والا ہے"۔ چنانچہ اس اطاعتِ ذاتیہ کی جہت سے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ مسلم ہے یعنی اسکی اطاعت کرنے والا ہے۔ اور اس میں مؤمن اور کافر دونوں شامل ہیں۔ چنانچہ ان معنوں میں کافر بھی مسلمان ہے۔ لیکن یہ وہ اسلام ہے جو مومن اور کافر دونوں میں مشترکہ ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے، ان سب میں یہ اسلام مشترک ہے۔ اُن سب میں مشترک ہے جو چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے بھی، اسی کی عبادت میں مشغول ہیں۔ طَوْعًا وَكَرْهًا (چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے)۔ اور عبادتِ طوعیہ وہ ہے جو شرعی طور پر انسان انجام دیتا ہے، اور اسکے سوا جو کچھ ہے، وہ عبادتِ کرہیہ میں داخل ہے۔ چنانچہ کافر اپنے ہر سانس میں، اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے میں اس عبادتِ کرہیہ میں مشغول ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اسی کی عبادت کر رہا ہے، اور اس بات کا علم نہ اسے ہے اور نہ ہی مسلمانوں میں سے غافلین کو ہے۔ چنانچہ کائنات کی ہرشئے بشمول کافر و مؤمن، اللہ ہی کی عبادت میں مصروف ہے ۔ یہ عبادتِ ذاتیہ ہے۔ چنانچہ سرکش سے سرکش کافر کی گردن میں بھی اللہ کی بندگی کا پٹا پڑا ہوا ہے۔ اور اگر اسے اس عبادت کا علم ہوجائے تو شرعی اسلام لاکرمسلمان ہوجائے۔ لیکن وہ اپنی اس عبادت سے حجاب میں ہے اور یہ عجیب ترین امور میں سے ایک ہے کہ انسان اپنے آپ سے ہی بے خبر ہے۔ اگر وہ اپنے نفس کو پہچان لے تو حقیقت کو بھی پہچان لے گا اور بندگی و عبودیت کو جان لے گا۔ لیکن وہ اس سے حجاب میں ہے۔اور کافر کی اس عبادتِ کرہیہ میں اسرار ہیں جن کا تعلق علومِ خاص سے ہے کہ جن کی تفاصیل اور اظہارِحقیقت کا افشاء مناسب نہیں ہے۔اور ہم صرف ان کا ذکر ہی کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ایک دوسری آیت میں فرماتے ہیں کہ وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۔اور آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے، اللہ ہی کو سجدہ کرتا ہے، خوشی سے یا مجبوری سے اور انکے سائے بھی صبح و شام۔ یعنی آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے، وہ ساجد ہے۔ سجدے کی حالت میں ہے۔ یہ کون سا سجدہ ہے؟ کیا یہ وہ سجدہ ہے جسے فقہی حوالے سے ہم جانتے ہیں؟ یا یہ سجدے کی حقیقت ہے؟ بے شک یہ سجدے کی حقیقت ہے۔ اور یہ سجدہ ِ عام ہے جس میں کُل مخلوق خوشی سے یا مجبوری سے چار و ناچار شامل ہے۔ اور طوعاّ و کرھاّ کا یہ مطلب نہیں کہ طاعت و معصیت، نہیں، بلکہ یہ عبادتِ طوعیہ اور عبادتِ کرہیہ ہے۔ یہ دونوں قسم کی عبادت کو شامل ہے جس میں جمیع مخلوقات مستغرق ہیں۔ چنانچہ ہر بندہ سجدہ ریز ہے درحقیقت، حتیّ کہ وہ شخص بھی جو شرعی سجدے کا منکر ہے۔ چنانچہ اس جہت سے دیکھیں تو ابلیس بھی اگرچہ آدم علیہ السلام کے سجدہ کرنے سے انکاری ہوا، لیکن وہ اس حالت میں بھی اللہ کے لئے سجدے میں تھا۔ اور آج بھی ہر وہ شخص جو شرعی نماز اور رکوع و سجود سے کوسوں دور ہے یا ان کا منکر ہے، درحقیقت وہ بھی سجدے میں ہے۔ تمام جن و انس، ملائکہ، شیاطین، جمادات و نباتات و حیوانات، سب کے سب سجدہ گذار ہیں۔وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ اور صبح وشام ان کے ظلال بھی سجدہ کرتے ہیں۔ ظلال یعنی سائے، نفوس ہیں۔ ہمارے نزدیک ظلّ نفس کے معنوں میں ہے۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ ممکن کی حقیقت وجود و عدم کے بین بین ہے۔ ان کا وجود وہ نور ہے جن سے یہ مشہود ہوگئے اور ان کا عدم ظلمت ہے۔ مکمل ترین تاریکی۔ اور ظلّ یعنی سایہ ایک تیسری چیز ہے جو نور اور ظلمت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی وجود اور عدم کے بین بین۔ اورحقیقت کی رُو سےیہ ممکن الوجود ہے۔ کیونکہ سایہ کسی نور کے منبع کے ساتھ ہی ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ جب شمس و قمر وغیرہ کا نور اجسام میں سے کسی جسم پر پڑتا ہے تو سایہ پیدا ہوتا ہے، چنانچہ سائے کو اگر اس جہت سے دیکھیں تو وہ تاریکی نہیں ہے، کیونکہ تاریکی تو نظر نہیں آتی۔ تاریکی عدم ہے۔ اور یہ سایہ نُور بھی نہیں ہے، کیونکہ نور کی تعریف یہ ہے کہ جو دکھائی دے اور جس کے ذریعے دیکھا جائے۔ چنانچہ سایہ نور و ظلمت کے وسط میں ہے۔ چنانچہ وہ نہ تو محض نور ہے اور نہ ہی محض تاریکی۔ بلکہ نور اور ظلمت اس میں باہم مختلط ہوگئے ہیں۔ چنانچہ یہی ممکن کی حقیقت ہے۔ اور ہم سب کے نفوس، سارے کے سارے ظلال ہیں، سائے ہیں۔ چنانچہ یہ نفس وجود و عدم کے نتیجے میں ممکن کے طور پر سامنے آتا ہے، اور نور و ظلمت کے اختلاط کےنتیجے مییں سائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ نہ وہ نور ہے، اور نہ ہی ظلمت۔ نہ وہ وجود ہے اور نہ ہی عدم۔ چنانچہ اس کی اس برزخی حیثیت کی وجہ سے کچھ لوگوں کو اس میں نور دکھائی دیتا ہے، جبکہ کچھ کو اس میں ظلمت نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہ نور و ظلمت کا جامع ہے۔
چنانچہ اہلِ نور، اس ظل میں یا ظلال میں نور کو دیکھتے ہیں۔ اور یہ انکی اس مناسبت کی وجہ سے ہے جو انہیں نور سے حاصل ہے۔ اور اہلِ ظلمت و کفر کو ان ظلال میں تاریکی دکھائی دیتی ہے۔ اور یہ ظلال تو صورتِ عدمیہ کے سوا اور کچھ نہیں جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور ہمارے نفوس بھی اسی میں شامل ہیں۔
چنانچہ اسی مقام سے اہل اللہ، یعنی اہلِ نور، وجود میں حق کے سوا کچھ نہیں دیکھتے۔ چنانچہ وہ تمام مشہودات ان کو حق دکھائی دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں سے کئی لوگوں کو اس بات سے بہت اجنبیت محسوس ہوتی ہے اور وہ ان باتوں کو تخیّلات اور اوہام سمجھتے ہیں جبکہ یہ بات حقیقت کی بنیاد پر ہے۔ کیونکہ ہم سب ایک ہی شئے کو دیکھتے ہیں، لیکن اس دیکھنے سے ہمیں جو حاصل ہوتا ہے وہ مختلف ہوسکتا ہے۔ اہلِ نور کو اس میں نگاہِ بصیرت سے نور دکھائی دے گا اور اہلِ ظلمت کو ظلمت۔ اور اہلِ ظلمت خواہ وہ کافروں میں سےہوں یا محجوب مسلمانوں میں سے، ان کو یہ اپنی قلبی حالت کی مناسبت سےظلمت ہی دکھائی دے گی۔
ایمان و کفر کی یہی اصل ہے۔
اللہ تعالیٰ انسان کی اصل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے هَلْ أَتَى عَلَى الإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا۔ إِنَّا خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا۔ إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا کیا انسان پر زمانے کا ایک ایسا مرحلہ بھی گذرا جب وہ کوئی قابلِ ذکر شئے نہ تھا ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا اور اسے ہم پلٹتے اور جانچتے رہتے ہیں، اور اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا۔ہم نے اسے راستے دکھا دیا، اب چاہے وہ شکرگذار بن جائے یا ناشکرگذاررہے۔ هَلْ أَتَى عَلَى الإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ حین من الدہر کا یہ مطلب نہیں کہ اوقات میں سے کوئی وقت، یا زمانوں میں سے کوئی زمانہ۔ کیونکہ جو بات خلق سے پہلے کی ہے وہ زمان سے بھی پہلے کی ہے۔ مطلب یہ کہ وقت کے آغاز سے پہلے کی بات ہے۔ اور یہاں اس سے مراد ہے مرتبہ۔ یعنی وجود کا ایک مرتبہ۔ چنانچہ وجود کے مراتب میں سے ایک مرتبے میں انسان کوئی قابلِ ذکر شئے نہ تھا۔کہیں مذکور نہ تھا اس مرتبے میں۔یعنی اس مرتبے میں اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
اور ہم نے سابقہ لیکچرز میں احدیتِ ذات پر بات کی تھی۔ کہ احدیتِ ذات کے مرتبے میں مخلوقات میں سے کسی مخلوق کا علی الاطلاق(Absolutely) کوئی ذکر ہی نہیں، حتیٰ کہ اس مرتبے میں حقیقتِ محمّدیہ کا بھی کوئی ذکر تک نہیں۔ چنانچہ حضرۃِ احدیّت میں حقیقتِ محمّدیہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کیونکہ احدیّت حقِّ محض کے لئے ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وجود کے دوسرے مراتب میں جلوہ افروز ہو، تو وہاں انسان کا ذکر آیا۔ اس ذکر کو ہم یہاں وجود کے نام سے پکارتے ہیں اگرچہ قرآن نے اسے وجود نہیں کہا بلکہ ذکر کہا۔ اور ذکر ، وجود کی نسبت شہود کے معنوں کے زیادہ قریب ہے۔ چنانچہ انسان مذکور ہوگیا ، ذکر کی جانے والی شئے ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے خلق کے لئے اس کا ذکر کیا۔ اور ابھی جب وہ مذکور نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے ملے جلے نطفے کی تخلیق فرمائی۔ مفسرین نے اس آیت کو معروف معنوں میں ہی محدود کیا ہے یعنی مرد اور عورت کا ملا جلا نطفہ، رحم میں موجود اس کے خلئے(Cells)۔ یعنی وہ معنی جو اہلِ طب میں معروف و معلوم ہیں۔ لیکن اس نطفے کی بھی حقائق میں اصل موجود ہے۔ اور وہ ہے حقیقتِ امکانیہ( Reality of Possible Being)۔ پس حقیقتِ امکانیہ ہی نطفے کی حقیقت ہے۔ اور اختلاطِ نطفہ دراصل مرتبہ امکان میں وجود اور عدم کا اختلاط ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے ہماری اصل اور ہماری حقیقت کا ذکر بیان کر رہا ہے تاکہ ہم امور کی اصل اور احکام کی اصل سے واقف ہوجائیں۔ احکام کی اصل بھی حقائق میں ہے، موجودات کی اصول (Roots)بھی حقائق میں ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ہم ان اصول کو سمجھیں۔ اور قرآن نے ان تمام امور کو جمع کردیا ہوا ہے۔ ما فرطنا في الكتاب من شيء اور ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جس کا بیان نہ کردیا گیا ہو)۔ لیکن یہ اسرار کسی کو نہیں دئے جاتے سوائے ان لوگوں کے جو ان کے اہل ہوں۔ إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا سبیلِ مشروع کی طرف رہنمائی۔ جو راستہ لوگوں کیلئے مشروع کردیا گیا ہے اسکی رہنمائی۔ اس ہدایت کا ذکر انسان کی اصلِ خلقت اور اصلِ عدمیت کے بیان کے بعد آیا ہے۔ تاکہ انسان اگر صاحبِ فہم ہے تو وہ جان لے کہ مشروع رستے یعنی سبیل کی پیروکاری سے انسان کو مکلف کرنا اس مقصد کے لئے ہے کہ انسان احکام کی اصل کی طرف رجوع کرے اور اپنی حقیقت کا علم پاجائے ۔ چنانچہ حقیقت کے دروازے میں سوائے سبیلِ مشروع کے اور کسی راستے سے داخل نہیں ہوا جاسکتا۔ اور اس سبیل کی ہدایت مکّلفین یعنی جنّ و انس کے لئے اس بات پر جاکر منتج ہوئی کہ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا وہ یا تو شکرگزار ہوجائیں، یا ناشکرگزار۔ چنانچہ سبیلِ مشروع پر چلنے والے شاکر قرار پائے اور اس کے مخالف کافر قرار پا گئے۔ چنانچہ اسی مقام سے کافر اپنی حقیقت سے منقطع ( Disconnected) ہوگیا ۔
چنانچہ کافر کے لئے حق اور حقیقت کی طرف اور کوئی راہ نہیں ہے۔ وہ محجوب ہے حجابِ تام سے۔ اور اسی مقام سے فلاسفہ بھی حق سے منقطع ہوگئے۔ اور ان کے لئے ممکن نہیں کہ حق اور حقیقت کے در تک پہنچ جائیں۔ چنانچہ جو شخص حق کی معرفت حاصل کرنا چاہے اور اپنی اور اپنے ارد گرد کی دنیا کی حقیقت کو جانا چاہے ، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے سبیلِ مشروع پر چلے۔ اس کے لئے دروازہ کھل جائے گا۔ اور اس دروازے کے بعد اور ابواب بھی ہیں ۔ لیکن لازم ہے کہ انسان پہلے دروازے سے گذرے۔ اور پہلا دروازہ ہے اسلام میں داخل ہونا اور یہ شہادت دینا کہ لا الٰہ الّا اللہ محمّد رسول اللہ۔ اور اس کے بعد شریعت کی اتباع ہے۔ یا شاکر ہوجائے یا کفور ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
لیکچر کے بقیہ حصے کا ترجمہ:
کفر اور ایمان کے حوالے سے انسان بلکہ مکّلفین حتمی طور پر دو قسموں میں تقسیم ہوگئے، اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تقسیم کیسے پیدا ہوئی؟ وہ کیا سبب ہے جس سے مومن مومن اور کا فر کافر قرار پایا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لآمَنَ مَن فِي الأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے، تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن ہوجائیں؟ اور کسی جان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ بغیر اذنِ الٰہی کے ایمان لے آئے۔ زیادہ تر مسلمان جب صراطِ مستقیم پر چلنے کی دعا مانگتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ وہ مخالفین اور کافرین کو نفرت و کراہت کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں اور ان پر ایسا بوجھ ڈالتے ہیں جو فی الحقیقت ان کے لئے نہیں ہے۔ اور ایسا کرنے میں وہ ایک پہلو سے حق بجانب ہیں لیکن تمام پہلوؤں سے نہیں۔ اگر ایمان اللہ کی اجازت سے ہے جیسا کہ آیت میں آ یا کہ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ لوگوں میں سے ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جس نے مومن ہونے کا ارادہ کیا اور مومن بن گیا، ایسا ناممکن ہے، کیونکہ اللہ کے ارادے کے ساتھ کوئی اور ارادہ وجود نہیں رکھتا۔ چنانچہ تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک اللہ نے نہ چاہا کہ تم مومن ہوجاؤ۔ چنانچہ آخر الامر یہ ہے کہ ایمان اللہ کی جانب سے ہے، تمہاری جانب سے نہیں ہے۔ اور یہ وہ حقیقت ہے جو ہمارے بے شمار اہلِ شریعت بھائیوں کی نظر سے اوجھل ہے۔ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ مطلب یہ ہوا کہ کافر کے لئے اللہ کا اذن نہیں ہوا کہ وہ ایمان لائے، چنانچہ وہ اپنے کفر پر رہ گیا۔
یہاں بعض سننے والوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر ایسا ہے کہ مومن اللہ کے اذن سے ایمان لاتا ہے اور کافر کو ایمان لانے کی اجازت نہیں ملی تو پھر کیا وجہ ہے کہ مومن کو انعام اور کافر کو سزا ملے گی؟ یہ بہت سیدھا سادہ سوال ہے اور اور مشہورِ عام ہے۔ اور یہاں ہم اس بات کی جانب اشارہ کریں گے کہ اس سوال اور اسکے جواب کا تعلق سرِّ قدر کے علم سے یعنی اللہ کی تقدیر اور مشئیت کے علم سے ہے اور جواب کے ایک حصے کا تعلق علمِ حقائق سے بھی ہے۔ اور ہم یہاں اس مسئلے کے چند ابتدائی معارف کی جانب اشارہ کریں گے اور اس مسئلے پر گفتگو کرنے سے توقف کریں گے کیونکہ اسکا تعلق ان امور سے ہے جو عقلِ عامّہ کی دسترس سے بالا تر ہیں۔
مخلوق میں ایک چیز پائی جاتی ہے جسے استعداد کا نام دیا گیا ہے، اور جو مومن کے پاس بھی ہے اور کافر کے پاس بھی۔ اس استعداد کا تعلق علمِ الٰہی میں موجود ذواتِ امکانیہ( Realities of possible beings) کے احوال سے ہے۔یعنی ان کے مرتبہ ِ ثبوت (State of Latency)کے احوال سے۔ کیونکہ مرتبہ ثبوت میں ذواتِ امکانیہ اور انکے احوال، علمِ الٰہی میں ایک دوسرے سے متمیز (Distinguished) ہیں، اور واضح رہے کہ یہ سب عالمِ عدم میں ہیں۔چنانچہ عالمِ وجود سے پہلے مرتبہ ثبوت میں ہی مومن مومن تھا اور کافر کافر تھا۔ اور اللہ تعالیٰ مومن کو مومن اور کافر کو کافر جانتا تھا۔ چنانچہ علمِ الٰہی میں ان کے حال کے مطابق اللہ کی مشئیت نے مومن کو ایمان کا اذن عطا فرمایا اور کافر کے لئے ایمان کو منع فرمایا۔ چنانچہ مشئیت کا فیصلہ سب سے پہلا فیصلہ ہے۔
اور یہی سوال اگر تسلسل کی جہت سے دوسرے پیرائے میں پوچھا جائے کہ کیا وجہ ہے کہ استعداد کو اس طریق پر بنایا گیا یعنی ایک کی استعداد کچھ رکھی گئی اور دوسری کی استعداد کچھ اور؟ تو قبل اس کے کہ یہ سوال پوچھا جائے، علمائے سابقین نے یہ کہہ کر اس سوال کا راستہ ہی بند کردیا کہ "استعداد غیر مجعول ہے"، یعنی استعداد کسی بنانے والے کے بنانے سے نہیں بنی۔ اور یہ عقل کے لئے ان مشکل ترین امور میں سے ہے جن کا وہ ادراک کرپائے۔ استعداد غیر مجعول ہے۔ اور ہم اس سے زیادہ اس موضوع پر اور کچھ نہیں کہیں گے ۔
چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے مومن کے لئے ایمان کا اذن عطا فرمایا اور وہ مومن ہوگیا، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کفر سے کلّی طور پر باہر نکل آیا، جیسا کہ عوام الناس کے تصور میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہ کفر سے خارج ہوا ہے تو صرف ایمان کے دروازے تک پہنچنے کی جہت سے، ورنہ ابھی کئی ایسے ابواب ِ کفر ہیں جو اس پر کھلے ہوئے ہیں اور جن کا بند کیا جانا ابھی باقی ہے۔ چنانچہ یہاں سے یہ بات ذہن میں آتی ہے جس کا فقہاء نے بالخصوص علمائے عقائد نے اپنی کتابوں میں کفرِ اکبر اور کفرِ اصغر کے ناموں کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ شرکِ اکبر اور شرکِ اصغر کا بھی یہی معاملہ ہے۔ چنانچہ کفرِ اکبر وہ ہے جس سے انسان ملّت سے خارج ہوجاتا ہے اور دخولِ نار کے حکم کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اور جہاں تک کفرِ اصغر کی بات ہے، تو عین ممکن ہے کہ ایک مسلمان اپنی دینداری میں، اپنے رب کے ساتھ اپنے معاملے میں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اپنے معاملات میں اس کفرِ اصغر سے متصف ہو۔
ہم نے کہا کہ ایک مومن ایمان میں داخل ہونے کے بعد لازم نہیں کہ ہر قسم کے کفر سے پاک ہوچکا ہو۔ ابھی اس کے ساتھ کفر کے ایسے شوائب اور احوال ہوتے ہیں جن سے چھٹکارہ پانا چاہئیے اور جو ں جوں وہ دین میں ترقی کرتا ہے اور تزکیہ حاصل کرتا ہے، کفر کے یہ شوائب اور احوال بتدریج دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ہم نے یہ بات اس لئے کہی تاکہ ایک مومن کسی قسم کی غلط فہمی اور سرکشی میں مبتلا نہ ہو اور اس گمان میں نہ پر جائے کہ میں کسی بھی کافر سے ہر اعتبار سے اور ہر جہت سے مختلف ہوں۔ اور یہ وہ بات ہے جو ہم آج اس زمانے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کہ مذہبی لوگ کس قسم کی شدّتِ غفلت میں مبتلا ہیں اور کافروں کے ساتھ کس بدمعاملگی سے پیش آرہے ہیں، اور تکبّر میں مبتلا ہیں۔ دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر قسم کے قابلِ اعتبار امر میں پست درجے پر قناعت کئے ہوئے ہیں۔ اور یہ سب ایمان کے باوجود اس شدّتِ ظلمت کی وجہ سے ہے اور اپنے نفوس کو صفاتِ ربوبیت سے متصف کرنے کی وجہ سے ہے جبکہ دین اور دینداری کی غایت ہی یہ تھی کہ نفس کی ان صفات سے تخلص حاصل کیا جائے۔ چنانچہ ایک کامل بندہ وہ ہوتا ہے جو ہر قسم کی صفاتِ ربوبیت سے کلّی طور پر خلاصی حاصل کرچکا ہوتا ہے۔ جبکہ مرتبہ ِ اسلام سے تعلق رکھنے والے مذہبی لوگ یعنی عامۃ المسلمین اپنے آپ کو صفاتِ ربوبیّت سے متصف کرتے ہیں اور اپنی اصل یعنی عدم کو فراموش کئے ہوئے ہیں، اور اپنے اسلام اور ایمان کے باوجود جس ظلمت کے حامل ہیں، اس سے غفلت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ جب وہ کسی کافر پر معترض ہوتے ہیں تو گویا اپنے آپ پر ہی معترض ہوتے ہیں وجہ اس کی یہی ہے کہ ابھی وہ خود کفر سے مکمل طور پر دور نہیں ہوئے ہوتے۔ اور ان کے لئے بہتر تھا کہ جس کفرِ اصغر میں وہ گرفتار ہیں، اس کی جانب زیادہ توجہ دیتے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اکثر اوقات دوسرے انسانوں اور کفار کو ایمان سے روشناس کرانے کے نام پر اپنی طرف نگاہ نہیں کی جاتی۔ قرآنِ مجید نے جب واضح طور پر کہہ دیا کہ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ کیا تم لوگوں پر زور زبردستی کرو گے تاکہ وہ ایمان لے آئیں؟ اگر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں درست نہیں ہے تو کیا سفہائے مسلمین کے لئے درست قرار دی جاسکتی ہے؟ چنانچہ بندے پر لازم ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ لاشعوری طور پر اپنے آپ کو تباہ کرنے والی روش پر گامزن ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ کفرِ محض بھی ایک قسم کا نہیں بلکہ اس میں بھی کفر کی اصناف ہیں اور کفر کے مختلف درجے ہیں۔ یہ کسی ایک خاص ڈھب پر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر ابلیس(لعنہ اللہ) کے کفر کو دیکھیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں کفر کی سب سے بڑی قسم نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کا ویسا کفر نہیں کیا جیسا کہ بعض جنّ و انس میں پایا جاتا ہے۔ وہ تو اللہ کا عبادت گذار تھا۔ اس نے اللہ کی عبادت کی اور بعد میں نافرمانی کا مرتکب ہوا۔ چنانچہ جس تکبّر اور عناد کی وجہ سے اس سے نافرمانی سرزد ہوئی، اسی تکبّراور عناد کی جہت سے وہ کافر ہوا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ شدید قسم کا کفر بعض انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ اور اشدّالکفر یہ ہے کہ اس کا حامل شخص الوہیت کا سرے سے ہی منکر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے زمانے کے وہ لوگ جنہیں لا ادری(Agnostics) کہا جاتا ہے، یا جیسا بعض اوقات کچھ فلاسفرز اور ملاحدہ (Atheists) جو اللہ کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ یہ کفر ابلیس کے کفر سے شدید تر ہے۔ فلاسفہ کا کفر ملاحدہ کے کفر سے قدرے کمتر ہے۔ درجے اور کثافت میں قدرے کم ہے، فلاسفہ کے کفر کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی فکر، عقل اور اپنے نفس پر ہی اعتماد کیا۔ اور ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ چنانچہ ان کا کفر بھی کافی بڑے درجے کا ہے۔
اپنے نفس اور اپنی عقل و فکر پر ہی اعتماد کرنے سے کفر کیوں پیدا ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فکر جو کہ عقل کا عمل ہے، اور عقل کی امکانی جہت سے دیکھیں تو اسکی اصل عدم ہے۔ اس لئے یہ بات انسان کے لئے درست نہیں ہے کہ وہ اپنے نفس (جو کہ عدمی الاصل ہے) کی طرف رجوع کرے۔ کیونکہ اگر وہ اپنے نفس کی طرف رجوع کرے گا تو گویا اپنے درجہ امکان کی طرف رجوع کرے گا اور درجہ امکان کی وجہ سے عدم سے رجوع کرے گا۔ چنانچہ عدم کے بالمقابل ہونے سے اس پر ہر قسم کے احتمالات کے ابواب کھل جاتے ہیں اور اس کے لئے ان میں تمیز کرنا بے حد دشوار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ تمیز کے لئے ضروری ہے کہ ترجیح دینے کے لئے کوئی حوالہ (Reference) موجود ہو، جبکہ نفس کی جہت سے اس کے لئے کوئی ایسا حوالہ نہیں ہے۔ چنانچہ ممکن نہیں کہ عدم سے رجوع کیا جاسکے۔ کیونکہ وہ تو انقطاعِ تام ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حقیقت کی معرفت کے لئے انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے نفس سے اس کو حاصل کرسکے۔ چنانچہ فلاسفہ کے کفر کی اصل یہی ہے۔
جہاں تک کفر کی دوسری اصناف کا تعلق ہے جیسا کہ مثال کے طور پر اہلِ کتاب کا کفر۔ تو اہلِ کتاب کا کفر اپنی ابتداء سے کفر نہیں تھا۔ کیونکہ ایک وقت تھا کہ وہ اپنی اصل پر درست طریقے سے قائم تھے۔ چنانچہ ان کے زمانے میں ان کی شریعت صراطِ مستقیم اور سبیلِ قویم تھی۔ چنانچہ اہلِ کتاب ایمان پر قائم تھے۔ لیکن جب انہوں نے دنیا جہان کی طرف رسول بنا کر بھیجے جانے والے رسول کا انکار کیا ، ایسا رسول جس کی رسالت تمام زمانوں کے لئے تھی، تو اس انکار کی وجہ سے وہ اپنی اصل سے منقطع ہوگئے۔ یہ ایسے ہے جیسے ان کے لئے ایک دروازہ کھلا، اور ان کے سامنے ہی بند ہوگیا۔ چنانچہ وہ اپنی اصلِ ایمانی پر قائم تھے، اور بعد میں کفر کی طرف لوٹ گئے۔ چنانچہ انکا کفر کفرِ اصلی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعوتِ حق کے لئے دوسروں کی نسبت اہلِ کتاب کی زیادہ رعایت کی ہے۔ کیونکہ ان کی اصل تو اس کے ساتھ ملحق تھی۔ چنانچہ اپنی اصل سے منقطع ہوجانے والے ان جیسے نہیں جو کسی اصل کے حامل نہ ہوں۔
کفر کی ایک دوسری قسم ہے جو وثنیت ( Paganism)پر مبنی ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں گذشتہ کسی لیکچر میں ذکر کیا گیا تھا کہ وہ لوگ جو صرف صورِ عدمیہ کو دیکھتے ہیں،اس نور کو نہیں دیکھتے جس سے وہ صورِ عدمیہ قائم ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ سوائے صورتوں کے اور کچھ نہیں دیکھتے۔ چنانچہ اپنی دانست میں جس چیز کو یہ حقیقت سمجھتے ہیں اس کی معرفت کے لئے انہوں نے صورت میں شدّتِ انہماک کی وجہ سے صورتوں کو حقیقت کی رمز قرار دیا اور ان صورتوں کو اپنی عبادت میں توجہ کا مرکز بنالیا اور ان کی جانب متوجہ ہوکر عبادت کرنے لگے۔ اور یہی وثنیت(Paganism) ہے۔ اور یہ صورتیں حسّی بھی تھیں جیسا کہ مختلف بت، اور تصاویر اور کبھی عقلی صورتوں کو بھی توجہ کا مرکز بنا کر عبادت کی جانے لگی کیونکہ وثنیت کے عقائد میں سے کئی عقائد عقلی ہیں۔ اور اس کی مثال وہ باتیں ہیں جنہیں فلسفہِ شرقیہ کے نام سے لوگ پھیلاتے ہیں۔ چنانچہ فلسفاتِ شرقیہ میں سے بہت سے فلسفے ایسے ہیں کہ ان میں حسی صورتوں اور بتوں کی پوجا اگر نہ بھی کرتے ہوں، تب بھی کسی نہ کسی عقلی صورت کو فلسفے کا نام دیکر عبادت کے طور پر انکی جانب متوجہ رہتے ہیں۔
اور ہم ان کی زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے ۔ بات بیان کرنے کا مقصد یہی تھا کہ کفر اور ایمان کے حوالے سے لوگوں کو ان معانی اور ان مسائل کی مبادیات سے آگاہ کیا جائے۔ اور جہاں تک مسلمان کا تعلق ہے، تو جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ کفرِ اصغر اکثر مسلمانوں کے شاملِ حال ہوتا ہے۔ جب ایک مسلمان کلمہ شہادت ادا کرکے اسلام میں داخل ہوجاتا ہے، تو اس کے ساتھ ہی وہ کفرِ اکبر میں سے نکل آتا ہے، لیکن کفرِ اصغر کی ظلمت اور تاریکی ابھی رفع نہیں ہوئی ہوتی۔ چنانچہ جب وہ اسلام لے آتا ہے تو ہوتا یہ ہے کہ اس کے لئے ایمان کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔ لیکن کفر کی ظلمت سے خروج جزوی طور پر ہی ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام لانے سے اس پر جو نور داخل ہوتا ہے، وہ ابھی اپنی ابتدائی حالت میں ہوتا ہے۔ پس اگر وہ ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی تاریکیوں سے یکے بعد دیگرے رہا ئی پا کر نور میں داخل ہوجاتے ہیں، تو وہ آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ظلمت سے نکلتا جاتا ہے اور منور ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ اس حد تک منور ہوجاتا ہے جس حد تک اللہ نے اس کے لئے مقدر کیا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ کوئی شخص اس حد تک منور ہو جائے کہ اپنی ظلمت سے کلّی طور پر نکل آئے اور نور سے مل جائے۔ چنانچہ ایسا شخص عبدِ ربّانی ہوجاتا ہے اور اولیاء اللہ میں شامل ہوجاتا ہے۔ انسان جب تک اس مرتبے تک نہ ہو، اس کے ساتھ لازمی طور پر کچھ نہ کچھ تاریکی اور ظلمت شاملِ حال ہوتی ہے۔ اور جب تک ظلمت شاملِ حال رہتی ہے، تب تک اس ظلمت کے احکام بھی اس پر جاری ہوتے رہتے ہیں اور وہ جس حال میں بھی ہو، اس ظلمت کا کوئی نہ کوئی اثر اس پر ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ اور ان شاء اللہ آگے آنے والے حلقات میں ہم ایمان اور احسان کے مراتب کی تفصیل میں ان باتوں کا ذکر کرتے رہیں گے۔
اور یہ ابتدائی نور جو کلمہ شہادت ادا کر نے اور اسلام میں داخل ہونے سے انسان پر داخل ہوتا ہے، یہ ایک خمیر کی مانند ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر اسکی نشوونما کی جائے تو انسان کی شخصیت اس نشوونما کی وجہ سے منور ہوتی جاتی ہے۔ لیکن اگر اس کو اسی حال پر رکھا جائے تو نورانیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ تزکئے کے لغوی معنوں میں تنمیہ یعنی نشو ونما بھی شامل ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ یہ ابتدائی نور مختلف قسم کی عبادات، معاملات، اعتقادات اور اعمال سے نمو پزیر ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ اتنا قوی ہوجاتا ہے کہ یہ قلبی نور بڑھتے بڑھتے انسان کی پوری شخصیت پر محیط ہو جاتا ہے اور انسان نورانی ہوجاتا ہے۔
اب جہاں تک ان مسلمانوں کا تعلق ہے جو کافروں کو اسلام کی برکات سے روشناس کرنے کیلئے سرگرمِ عمل ہوتے ہیں اور اپنے زعم میں امت کے نمائندے بن کر لوگوں سے خطاب کرتے ہیں، جبکہ ابھی ان لوگوں کی اپنی تاریکیاں زائل نہیں ہوئی ہوتیں، چنانچہ اس حالت میں ان کے لئے یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں سے خطاب کریں۔ اور صحیح بخاری کی یہ حدیثِ مبارکہ انہی معنوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرزِ عمل سے منع فرمایا ۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَثَلُ القَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالوَاقِعِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلاَهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ المَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا، وَنَجَوْا جَمِيعًا ( اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پاسداری کرنے والوں اور خلاف ورزی کرنے والوں کی مثال اس قوم کی سی ہے جو ایک سفینے میں سوار ہوئی اور قرعہ اندازی کے نتیجے میں کچھ لوگ سفینے کے اوپر والے حصے میں جبکہ کچھ لوگ نیچے والے حصے میں جا بیٹھے۔ نیچے والوں کو جب پانی کی ضرورت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے نصیب کا پانی کشتی میں سوراخ کرکے حاصل کرلیں تو اوپر والوں کو تکلیف نہیں دینا پڑے گی۔ چنانچہ اب اگر اوپر والے ان لوگوں کو ایسا کرنے دیں اور نہ روکیں، تو سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے اور اگر ان کو روک دیں گے تو سب کے سب بچ جائیں گے)۔ یہاں حدود سے مراد ہے دین کے احکامات۔ حلال و حرام کے احکامات بھی اس میں شامل ہیں۔ صرف فقہ کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ دین کے نقطہ نظر سے جو احکامات ہیں وہ مراد ہے۔ فقہی احکامات تو سب پر واضح ہیں کیونکہ فقہ میں بہرحال احکامات اپنی صورت کے ساتھ موجود ہیں لیکن دین کے احکامات فقہ کے احکامات کی طرح ظاہر نہیں ہیں کیونکہ فقہ میں احکامات کی صورت کو محفوظ کیا گیا ہے لیکن ا ن کی روح یعنی دین کے احکامات کی روح، وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتی گئی ۔ چنانچہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ اب دین کے ادنیٰ مظاہر اور اعلیٰ مظاہر میں فرق کا علم نہیں رکھتے۔ سفینےکی مثال یہاں دین کے لئے دی گئی ہے۔ دین ہی سفینہ ہے۔ جو اس سفینے میں سوار ہوا، نجات پاگیا۔ اور جو سفینے سے خارج ہوا، وہ غرق ہوا۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ کے مطابق، سفینے کے لوگوں میں قرعہ اندازی کی گئی جس کے نتیجے میں بعض لوگوں کو سفینے کی بالائی منازل پر قیام کرنا نصیب ہوا اور بعض لوگوں کے لئے سفینے کی زیریں منزل میں ٹھہرنا قرار پایا۔ اور یہاں لفظ استھام یعنی قرعہ اندازی اشارہ ہے ان مذہبی لوگوں کی استعدادات کا فیصلہ۔ چنانچہ جب لوگ اسلام میں داخل ہونے کے بعد مسلمان کہلائے جانے لگتے ہیں تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ سب کے سب ایک ہی طبقے اور ایک ہی درجے کے لوگ ہوجائیں۔ بلکہ ان میں سے ہر شخص اپنی استعداد کے موافق اپنے اپنے مرتبے اور مقام پر فائز ہوتا ہے۔ اور یہ وہی استعداد ہے جس کا ہم نے کچھ دیر قبل ذکر کیا (کہ استعداد غیر مجعول ہے)۔ چنانچہ یہ بات قرعہ اندازی سے مشابہ ہے، کہ ان میں سے کچھ کو اعلیٰ استعداد ملی اور وہ بعد ازاں سابقین میں سے ہوئے، اولیاء میں سے ہوئے اور مقربین میں سے ہوئے۔ جبکہ بعض دوسرے لوگ محض عام لوگوں میں شمار ہوئے۔ اور عامۃ المسلمین میں شامل ہوئے جو دین کے احکام کا قلیل علم رکھتے ہیں اور اپنی مذہبیت سے دین کے نور میں سے کچھ حصہ ہی حاصل کر پاتے ہیں۔ اور ان میں سے کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو دین کی طرف سے لوگوں سے خطاب کرتے ہیں اور اپنی فہم کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری امتوں سے بھی مخاطب ہوتے ہیں، جبکہ وہ خود عوام میں سے ہیں خواص نہیں ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو سفینے کی زیریں منزل پر ہیں ، بالائی پر نہیں۔ اور ایسا کیوں ہوا کہ یہ لوگ دین کے حوالے سے لوگوں میں کلام کرنے لگے؟ اس لئے کہ بالائی منزل والوں نے انہیں ان کے حال پر چھوڑدیا ۔ چنانچہ وہ سفینے میں سوراخ کرنے لگے ۔ کیونکہ نچلی منزل والوں کے لئے مناسب تو یہ تھا کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کرتے جو لوگ ان سے اوپر کی منزل میں ہیں، اپنے کلام اور معاملات میں ان سے تجاوز نہ کرتے۔ یعنی جن امور کے یہ لوگ اہل نہیں تھے، ان امور کو بالائی منزل والوں کی صوابدید پر چھوڑدیتے۔
اور بالائی منزل والوں سے ہماری مراد فقہاء نہیں ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک یہ فقہاء سفینے کی زیریں منزل سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ کیونکہ بالائی منزل والے لوگ اللہ کے خاص بندے ہیں،۔ اور امت پر یہ وقت گذرا ہے کہ نچلی منزل سے تعلق رکھنے والے اصحاب العوام، بالائی منزل والوں سے رجوع کیا کرتے تھے، ان سے مشورے لیا کرتے تھے اور پوری امت اس طرزِ عمل کی بدولت خیر و برکت پر قائم تھی اور سفینہ سلامت تھا۔ جبکہ بعد میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ وہی نکلا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ اب یہ حالت ہے کہ عوام المسلمین سے تعلق رکھنے والا ایک عام سا شخص بھی اس زعم میں مبتلا ملتا ہے کہ ہم کیوں ان لوگوں کی طرف رجوع کریں، کیوں ان سے کچھ پوچھیں۔ چنانچہ وہ قرآن اور سنت میں سے خود اپنے لئے احکامات کو اخذ کرتے ہیں پھر جو کچھ ان کی سمجھ میں آتا ہے اس کے مطابق اپنے آپ میں اور دوسروں میں تصرف کرتے ہیں ۔ چنانچہ یہی کچھ ہوا ہے کہ سفینے کو جگہ جگہ سے پھاڑا جارہا ہے، اس گمان میں کہ انہیں پانی لینے کے لئے دور نہیں جانا پڑے گا اور دین کے مقاصد اسی طرح سے قریب سے ہی حاصل ہوجائیں گے۔ چنانچہ ان کی سطح کے موافق جو عقل ان میں مشترکہ ہے، وہ بھی یہی حکم لگاتی ہے کہ ہاں یہی طرزِ عمل درست ہے کہ کون اوپر والوں کے پاس جانے ان سے پانی مانگنے اور پھر نیچے لے کر آنے کی زحمت کرے، کیوں نہ ایک سوراخ کیا جائے اور یہیں بیٹھے بیٹھے پانی حاصل کرلیا جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ عین ان کی عقل کے موافق ہے، لیکن شرع کے موافق نہیں ہے اور اس عقل کے موافق نہیں ہے جو حقائق کو اپنی روشنی میں دیکھ سکے اور ان سے احکام کو مستنبط (Deduce )کرسکے۔ چنانچہ نچلی منزل والوں کے پاس امرِ واقعہ کا علم نہیں ہے اور اوپر کی منزل والوں کے پاس ہے۔ چنانچہ جاہل یا کم علم شخص کو کس طرح اپنے آپ پر چھوڑ کر سفینے میں تصرف کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
چنانچہ یہ زمانہ جس میں ہم اس وقت موجود ہیں، اس میں ضروری ہے کہ ہمارا طبقہِ عوام اپنے مقام کو پہچانے اور اس کے مطابق عمل پیرا ہو اورخصوصاّ مسلمانوں اور غیرمسلمانوں کے آپس میں روا رکھے جانے والے معاملات کے حوالے سے جتنے امور ہیں ان میں اہل لوگوں کی رائے کے موافق چلے تاکہ اس پر امور واضح ہوسکیں۔ اور اسی طرح امت کے خواص کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ لوگوں میں ان ا مور پر گفتگو کریں اور احکام کو واضح کریں۔ احکام سے ہماری مراد معروف فقہی احکام نہیں بلکہ ہماری مراد ہے فقہ الفقہ یعنی اس کی روح۔ کیونکہ ممکن نہیں ہے کہ امت کو اسی انحطاطی روش پر گامزن رہنے دیا جائے اور معاملات کو مزید بگڑنے دیا جائے الاّ یہ کہ ہم سب اپنے آپ کو بالآخر امت کے سفہاء میں گنے جانے پر راضی ہوجائیں ، اور پوری دنیا کے لئے امتِ مسلمہ ایک مذاق کی چیز بن کر رہ جائے۔
اور یہ حدیث یعنی حدیثِ سفینہ ہمارے حالات کے مطابق بلیغ ترین اور جامع ترین احادیث میں سے ہے۔ چنانچہ جو شخص سیدھے اور عمدہ رستے پر رہنا چاہے، اسے اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئیے۔
ایمان اور کفر پر ہمارے اس اجمالی اور مختصر سی گفتگو سے ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہمارے یہ حلقات امت کی موجودہ حالت کو بدلنے کے سفر میں فرد کے لئے اور جماعتوں کے لئے ایک ابتدائی نقطے کا سا کام انجام دیں۔ اور ان شاء اللہ ہم آگے آنے والے حلقات میں بھی ان امور پر گفتگو کریں گے جو اس دور میں مسلمانوں کے لئے اپنی دینداری کے حوالے سے سمجھنے والی باتیں ہیں۔
فصلّ اللہ تعالیٰ علیٰ سیدنا محمد و علیٰ آلہ و اصحابہ والتابعین۔ والحمد للہ ربّ العالمین۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ابھی میں نے پہلا لیکچر پڑھا اور بخدا بہت اچھا لگا ہے ... دل خوش کر ہوگیا ہے پڑھ کر... آپ کی پوسٹز پڑھ کر حقیقی مسرت کا احساس ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ کچھ سولات ذہین میں در آئے ہیں ..امید ہیں آپ اپنی اچھے سے جواب دیں گے
کے مخالف ہے جو اس پر طاری ہے یعنی اپنے حال کے مخالف ہے۔ اور چونکہ وہ مشہود ہوگیا چنانچہ اسکے لئے بہتر تھا کہ اس کے لئے ایمان کا دریچہ وا ہوتا۔
اور ایمان نور ہے اور نور سے ممکنات ظاہر ہوئے۔ اور عدم ظلمت ہے اندھیرا ہے، چنانچہ اس ظلمت کی وجہ سے ممکنات چھپ گئے اور اپنے عدمی الاصل حکم کی جانب لوٹ گئے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ ممکنات ظاہر ہوں، تو اللہ کی موافقت ایمان کی متقاضی ہوئی۔ اور اس نے کفر کو قبول نہ کیا۔
عدمی الاصل ، عدم اور مشہود کا تعلق کس قدر مشترک ہے .. عدم کیا کفر کی حالت ہے ؟
اسی طرح کافر ہے کہ جسے نور دکھائی نہیں دیتا، بلکہ صورِ عدمیہ کی ظلمت دکھائی دیتی ہے
صورِ عدمیہ کے بارے میں مزید وضاحت ہوسکے تو بتلائیں
چنانچہ صورِ عدمیہ کے شہود کے مقابل جو دوسری چیز ہے وہ ہے حق کا شہود۔ چنانچہ شہودِ حق، صورِ عدمیہ کے شہود کی نسبت سے آخرۃ ہے

اور یہ وہ شئے ہے جسے ماہرینِ نفسیات (Psychology) نے نفس یعنی ایگو (Ego) کا نام دیا ہوا ہے۔ چنانچہ کفر کا علمِ نفس جس چیز کو Ego یا Self کہتا ہے ، یہ وہی چیز ہے جسے ہم نے ظاہر الباطن کہا۔ چنانچہ ہمارے نزدیک نفس کے جو معانی ہیں وہ ماہرینِ نفسیات کے Egoیا Self تک محدود نہیں ہیں ۔ اور ان معانی پر ہم ایک ایک کرکے تدریجاّ (Gradually) ان شاء اللہ ان حلقات میں بات کریں گے۔

ور عبادتِ طوعیہ وہ ہے جو شرعی طور پر انسان انجام دیتا ہے، اور اسکے سوا جو کچھ ہے، وہ عبادتِ کرہیہ میں داخل ہے

چنانچہ کائنات کی ہرشئے بشمول کافر و مؤمن، اللہ ہی کی عبادت میں مصروف ہے ۔ یہ عبادتِ ذاتیہ ہے۔
ان عبادت ، بالخصوص کافر کی عبادت کی سمجھ نہیں آئی ...
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ ممکن کی حقیقت وجود و عدم کے بین بین ہے۔
وجود و عدم ... حقیقت ...

اس کا فلسفہ بتاسکیں تو بتائیں ..
 
میرے خیال میں بہتر ہوگا اگر آپ ان لیکچرز کا مطالعہ ان کی ترتیب کے مطابق کیجئے۔۔۔یعنی لیکچر نمبر ایک سے بالترتیب بقیہ لیکچرز پڑھتی جائیں۔ اس سے کئی سوالات کا جواب خودبخود مل جائے گا۔ پھر اس کے بعد اگر کچھ سوالات ہوں گے تو ان پر بات کرلیں گے۔
شیخ نے ابھی تک 17 لیکچرز ریکارڈ کروائے ہیں جن میں سے صرف 7 کا ترجمہ ہی کر پایا ہوں ابھی تک۔
 

الشفاء

لائبریرین
کافر کی اس عبادتِ کرہیہ میں اسرار ہیں جن کا تعلق علومِ خاص سے ہے کہ جن کی تفاصیل اور اظہارِحقیقت کا افشاء مناسب نہیں ہے۔اور ہم صرف ان کا ذکر ہی کر رہے ہیں۔

یعنی استعداد کسی بنانے والے کے بنانے سے نہیں بنی۔ اور یہ عقل کے لئے ان مشکل ترین امور میں سے ہے جن کا وہ ادراک کرپائے۔ استعداد غیر مجعول ہے۔ اور ہم اس سے زیادہ اس موضوع پر اور کچھ نہیں کہیں گے ۔

جواب کے ایک حصے کا تعلق علمِ حقائق سے بھی ہے۔ اور ہم یہاں اس مسئلے کے چند ابتدائی معارف کی جانب اشارہ کریں گے اور اس مسئلے پر گفتگو کرنے سے توقف کریں گے کیونکہ اسکا تعلق ان امور سے ہے جو عقلِ عامّہ کی دسترس سے بالا تر ہیں۔

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔۔۔:)
 
Top