رئیس امروہوی دیارِ شاہدِ بلقیس ادا سے آیا ہوں -رئیس امروہوی

دیارِ شاہدِ بلقیس ادا سے آیا ہوں
میں اک فقیر ہوں شہرِ سبا سے آیا ہوں

جہانِ نو کی طلب ہے اور اس خرابے میں
سوادِ اصطحز و نینوا سے آیا ہوں !

شبِ سیاہ خزاں کی سموم و صر صر تک
نگار خانہِ صبح و صبا سے آیا ہوں

ابھی کہاں ہے مجھے نوحہ و نوا کا شعور
کہ ایک ناحیہِ بے نوا سے آیا ہوں

مرے شعور کا عرفاں کسے نصیب کہ میں
سروشِ روحِ ازل ہوں سما سے آیا ہوں

دمک رہی ہے زمان و مکان کی پیشانی
ستارہِ ابدی ہوں خلا سے آیا ہوں

تمہارے غنچہ و گل سے عرض نہیں مجھ کو
اِدھر اشارہِ بادِ صبا سے آیا ہوں​
رئیس امروہوی
 
آخری تدوین:
Top