میری سانسیں پھر سے اُکھڑنے لگیں تھیں اور اب تو سانسوں کے اُکھڑنے اور واپس بحال ہونے کا وقفہ بتدریج بڑھتا جارہا تھااور کبھی کبھی تو مُجھے یوں محسوس ہونے لگتا تھا اب جو سانسیں اُکھڑیں تو شاید ہی بحال ہو پائیں اور سانس کے اُکھڑنے سے شاید مُجھے اتنی تکلیف نہیں ہوتی تھی جتنی کے اُن یادوں کے اُکھڑنے سے ہوتی تھی کھانسی کا دورہ پڑتے ہی میرے ذہن میں بھاگتی دوڑتی یادیں بھی سانسوں کے ساتھ ساتھ اک اک کرکے اُکھڑنا شروع ہوجاتی تھیں- اورآج عمر کے جس دور سے میں گُذر رہا تھا وہاں باعث غربت کُچھ جمع پونجی نہ ہوتوایسے میں یادوں کی تھوڑی سی جمع پونجی بھی بُہت بڑا خزانہ بن جاتی ہے اور میرے پاس یہ خزانہ بھی کتنا تھا؟تمام سوچوں کا محور ایک ہستی تھی جس میں اُس کی یادیں تھیں، باتیں تھیں اور سدا کا کچوکے لگاتا اک سوال جس کا جواب ایک عرصے سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چُکا تھا لیکن اب ایسا لگتا تھا یہ سوال اور اس کے جواب کوپانے کی حسرت میرے ساتھ ہی قبر میں جاکر کہیں گًُم ہوجائے گا۔

اُس سے کی گئی آخری مُلاقات میرے ذہن میں یوں تازہ تھی جیسے کہ میں برسوں پہلے کے بجائے آج ہی اُس کے دروازے سے خالی ہاتھ نامراد لوٹا ہوں!

مُجھے وہ دن آج بھی بُہت اچھی طرح یاد ہے جس دن میری نوکری لگی تو میں یہ خوشخبری اپنے گھر والوں سے پہلے اُسے سُنانے چل دیا۔ کیونکہ اس ایک خبر کے ساتھ اُس کے لئیے ہزاروں خوشیوں کے در کھل جانے تھے اور انھی خواہشوں اور خوابوں کوآنکھوں میں سجائے میرے قدم تیزی سے اُس کے گھر کی طرف گامزن تھے ۔ وہ جو بچپن سے آجتک اپناہر سُکھ دُکھ میرے ساتھ بانٹتی آئی تھی -بعض مرتبہ سُکھ دُکھ کتنا عجیب سا لگتا ہے نہ یہ دو لفظ ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم نظر آتے ہیں لیکن کُچھ لوگوں کی زندگی میں سے پہلا لفظ کہیں غائب ہوکے رہ جاتا ہے جو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا اور یہی حال اُس کی زندگی کا بھی تھا۔میں جب سے اُس کو جانتا تھا مُجھے یاد نہیں کہ کبھی میری سماعت نے اُس کا کوئی ایک بے فکری کا قہقہ بھی سُنا ہو اوراُس کے چہرے پر ہمہ وقت جو ایک یاس اور محرومیت رہتی تھی اُس کا رنگ اتنا گہرا ہوچُکا تھا کہ اگر میں کبھی ہلکی سی مُسکان بھی اُس کے ہونٹوں پہ دیکھتا تھا توخُود مُجھے اس کا چہرہ عجیب لگنے لگتا تھا-

میرے قدم جیسے جیسے اُس کے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے میری سوچوں کا دائرہ وسیع ہوتا جارہاتھا کہ وہ میری نوکری لگنے کی خبر سُن کر اپنی خُوشی کا اظہار کیسے کرے گی؟ کیا کہے گی؟ کیوں کہ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی اُس کی ذات سے وابستہ تھی میں یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ کہ اگر یہ خبر گھر پر جاکر سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو دوں گا تو کیا ہوگا۔

میری اماں اور چار عدد بہنیں جو بس میری نوکری لگنے کے انتظار میں بیٹھیں تھیں اُنھوں نے فوراً اپنی اُس مہم کے لئیے کاروائیاں شروع کردینی تھی جو میری شادی سے معتلق تھیں۔ وہ تو بس اسی انتظار میں بھیٹیں تھیں کہ کب میری نوکری لگے اورکب وہ میرے سر پر سہرا سجائیں۔ یوں تو میری تعلیم مُکمل ہوتے ہی اماں اور بہنیں اس خواب کو اپنی اپنی آنکھوں میں سجالیا تھا اور پھر موقع کسی کی شادی کا ہو یا میت کا وہ ہر گھر میں اُن کی آنکھیں میرے لئیے لڑکیاں دیکھنا شروع کردیتیں تھیں۔ بہنوں کوقریب سے گُذرنے والی ہر خوبصورت لڑکی اپنی بھابھی نظر آنے لگتی تھی اور اماں کا خیال تھا کہ وہ میرے لئیےآسمان پر لگے چاند کو کوئی ٹُکڑا توڑ کر لے آئیں گی۔ اور ان کی یہی باتیں اور سوچ مُجھے ڈراتی تھی کہ کسی دن واقعی چاند کے کسی ٹُکڑے کی حسرت میں یہ میری جُھولی میں خاک نہ بھر دیں شُکر ہے کہ میری نوکری نہیںلگ رہی تھی اور میں روز اپنی ہمت بندھاتا رہتا کہ آج اماں اور بہنوں سے بات کرلوں گا کہ اُن لوگوں کو در در بھٹکنے کی ضرورت نہیں گھر میں بتادوں گا بس میری نوکری لگتے ہی چلے جانا- اور جب میں سوچتا کہ کیا یہ سب واقعی اتنا آسان ہوگا جتنا میں سوچ اورسجمھ رہاتھا تو میرا دل ڈوبنے لگ جاتا تھا مُجھے پتا تھا کہ اُس دن گھرمیں کیا تماشہ ہونا ہے جس دن میں اپنے لئیے اُس کا نام لوں گا۔

مگر میں نے بھی سوچ رکھا تھا کہ اپنے اس فیصلے پرمُجھے کس طرح ثابت قدم رہنا ہے اگر اس وقت میں اپنے گھر والوں کے سامنے ہار مان گیا تو وہ لڑکی جس کی زندگی میں اک اپاہج باپ اور تین چُھوٹے بہن بھائیوں کے سوا اور کُچھ بھی نہیں اور اگر ایسے میں میں اُس کی زندگی سے نکل گیا تو شاید جو پہلے ہی خالی ہاتھ ہے اُس کے پاس ہاتھ بھی نہ رہیں!

مُجھے معلوم تھا کہ وہ بھی اتنی آسانی سے نہیں مانے گی کیوں کہ اُس کی زندگی کے ساتھ چار اور زندگیاں جُڑی ہوئی تھیں ایک کمپنی میں مُلازمت کرکےوہ اپنے گھر والوں کی زندگی کی گاڑیوں کو دھکا دینے کے لئیے اُس نے خود اپنی زندگی کی گاڑی کو ایک ایسے سگنل پر کھڑا کردیا تھا جس کی سبز اورزرد بتیاں ہی ٹوٹی ہوئیں تھیں مگر آج میں نے بھی فیصلہ کرلیا تھا کہ خواہ کُچھ بھی ہو آج اُس سے جواب لے کر ہی جاؤں گا تاکہ گھر پر جاکراس کے حوالے سے کوئی دوٹوک بات کرسکوں۔

اُس کے گھر کے دروازے پہ پُنچتے ہی میری ان تمام سُوچوں کا سلسلہ خُود بخود ٹوٹ گیا اور میری دستک کے جواب میں جیسے ہی اُس نے دروازہ کُھولا تو میرے چہرے پر دمکتی ہوئی خوشی کا شاید اُسے کسی نہ کسی حدتک اندازہ ہوگیا تھا کیوں کہ میرے چمکتے چہرے پر نظر پڑتے ہی اُس کے چہرے کی یاسیت ومحرومی ایکد م سے کئی گُنا بڑھ گئی تھی شاید وہ جان گئی تھی کہ آج میں کس خیال کے ساتھ اُس کے دروازے تک آیا ہوں!

میں نے اُس کے چہرے کے ہررنگ کونظر انداز کرتے ہوئے اُس سے پوچھا کہ آج تًُمہیں مُجھے ہرحال میں جواب دینا ہے کہ تُمہیں مُجھ سے محبت ہے کہ نہیں؟؟

اور میرے اس سوال کے ساتھ ہی جورنگ اُس کے چہرے پر نظر آیا وہ نہ زرد تھا نہ سبز یہ تو کوئی بالکل ہی الگ رنگ تھا جو آج سے قبل میں نے اُس کے چہرے پرنہیں دیکھاتھا میرے سوال کوسُنتے ہی اُس کے چہرے پر اک عجب سی سپیدی اُمنڈ آئی تھی وہ سپیدی جو مردوں کے چہروں پرسمٹ آتی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اب یہاں زندگی کے آثارنہیں رہے!

کافی دیرتک جب وہ کُچھ نہیں بولی تو میں نے دوباراپنا سوال دُہرایا ۔ بولومیں نے تُمھ سے کُچھ پوچھا ہے تُمہیں مُجھ سے محبت ہے کہ نہیں؟
مُجھے تُمہارا جواب آج ہرحال میں چاہئیےتُم اگر ہاں کردو تو میں پوری زندگی تُمہارا انتظار کرسکتا ہوں! پھر بھی اُس نے اپنی خامشی کا قفل نہ توڑا تو میں نے اپنا آخری داؤ آزمانے کی کوشش کی۔۔۔

دیکھو اگر آج تُم نے کوئی جواب نہیں دیا تو مُجھے مجبوراً اپنے گھر والوں کے کہنے پر شادی کرنا پڑجائے گی!

میں جیسے جیسے بولتا جارہاتھا میں محسوس کررہاتھا کہ اُس کی گرفت اپنے گھر کی چوکھٹ پر مزید گہری ہوتی جارہی تھی جیسے میں ابھی اُس کو اپنے ساتھ زبردستی لے جاؤنگا!

مگر اُس کے ہونٹ تھے کہ ہاں یا ناں کسی بھی جواب کے لئیے کُھل ہی نہیں پارہے تھے بس اُس کی خالی خالی آنکھیں مُجھ پر ٹکی ہوئی تھیں۔

ابھی میں کُچھ بولنا ہی چاہ رہاتھا کہ اندر سے اُس کے باپ کے کھانسنے کی آوازیں بُری طرح آنے لگیں لگتاتھا جیسے اُس کو شدت سے کھانسی کا دورہ پڑاہو۔

کھانسی کی آواز پر اُس نے پلٹ کے اک نظر اپنےگھر کے اندر ڈالی اور جب دوبارہ اُس کی نظروں کا رُخ گھرکے آنگن سے پلٹ کے میری جانب ہواتو اُس کے چہرے اور آنکھوں میں ایک عجیب سی اجنبیت اُتر آئی تھی اُس نے میری طرف دیکھتے ہوئے اسی اجنبیت بھرے لہجے میں مُجھ سے پوچھا۔۔۔۔۔

تُم نے یہ پوچھا ہے نہ کہ مُجھے تُم سے مُحبت ہے کہ نہیں؟
میں جو اُس کے چہرے کے تاثر اور آواز کی اجنبیت سے پریشان ہوگیا تھا اُسی پریشانی میں نے جواب دیا۔۔۔۔۔۔ہاں میں نے یہی پوچھاہے۔۔۔۔۔۔۔۔

تو اُس نے بہت ٹہرے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔ نہیں مُجھے تُم سے محبت نہیں ہے!
یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھیں گوآنسوؤں سے یکسر عاری تھیں مگر اُس کے لہجے سے لگتا تھا جیسے اپنے اندر اُس نے سارا سمندر سمولیا ہو!

میں اُس کے اس جواب پر ابھی ہکا بکا ہی کھڑا تھا کہ اُس کے پیر جو ابتک بڑی مظبوطی سے گھر کی دہلیز پرجمے ہوئے تھے وہ قدم آہستہ آہستہ پیچھے سرکے اور اُس نے اک جھٹکے سے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا!

اور دروازہ جس طرح بند ہواتھا اُس نے مُجھے سمجھا دیاتھا کہ اب یہ دروازہ میرے لاکھ دستک دینے پر بھی نہیں کُھلے گا!
میرے قدم نامرُاد ہی اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگے اور اپنے گھر کی جانب چلتے ہوئے میرا ذہن بار بار بس ایک ہی سوال کا جواب ڈھونڈنا چارہاتھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب اُس نے مُڑ کر اپنے گھر کے آنگن کی جانب دیکھا تھا تو اُس کو وہاں ایسا کیا نظر آیا کہ اُس کی نظریں مُجھ سے ایکدم ایسے اجنبی ہوگئیں کہ جیسے مُجھے جانتی ہی نہ ہوں!!
میرے لاکھ سوچنے کے بعد بھی مُجھے اس بات کا جواب نہیں ملا!

وقت اپنی رفتار کسی کے لئیے کم نہیں کرتا اس کا کام بس آگے کی طرف دوڑنا ہے یہ دیکھے بغیر کہ اس کے ساتھ ساتھ بھاگنے کی کوشش میں پیچھے کون کون رہ گیا ہے!

میری شادی ہوگئی اور پھر تلے اوپر میری تین بیٹیاں ہوئیں۔اور میری ماں بہنیں میرے لئیے جو چاند کا ٹُکڑا لے کرآئیں تھیں وہ شادی کے پندرھویں سال ہی منوں مٹی تلے جا چُھپا!
بس وقت نے میرے ساتھ یہ کیا تھا کہ مُجھے مُفلسی اور حالات کی چکی میں پیس کر رکھ دیا تھا اور اُس پر ستم کے ایک ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں اپنی دونوں ٹانگیں گنوا کر اپنے کمرے اور آنگن تک محدود ہوگیا تھا اگر کبھی دل گھبرانے لگتا تو میری بیٹیاں مُجھے پکڑ کر باہر آنگن میں پڑی ہوئی چارپائی پر لٹا دیتی تھیں اوراپنی چارپائی پر پڑے یوں کُھلے آسمان پر نظریں ٹکا کر لیٹے رہنا مُجھے اچھا لگتاتھا

میری اس معذوری کے سبب میری سب بڑی بیٹی کومُلازمت کرنا پڑرہی تھی اورچھوٹی بیٹی نے گھر میں ہی محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا تھا اور یوں کھینچ تان کر ہی سہی ہماری گُذر بسر ہونا شروع ہوگئی تھی۔

اُس رُوز میری کیفیت زیادہ مکدر ہورہی تھی میری سانسوں کے اُکھڑنے کا سلسلہ آج صبح سے ہی بگڑاہواتھا اور کھانسی کا دورہ تھا کہ اُٹھتا توپھر نجانے کتی دیر تک رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔

شام کو میری بیٹیوں نے میری طبیعت کے پیش نظر پکڑ کے باہر آنگن میں پڑی چارپائی پر لٹادیا کہ میری طبیعت کسی طرح بہل جائے اور لیٹتے ہی میری آنکھیں آسمان پر ٹک گئیں اور میرا ذہن پھر سے ایک بارپھر سے اُسی سوال کے جواب کو دُھونڈنے میں لگ گیا۔ میری دونوں چھوٹی بیٹیاں رات کھانا بنانے کے لئیے لگی ہوئی تھیں اور بڑی بیٹی ابھی کُچھ دیر پہلےہی کام پر سے واپس آکر بیٹھی تھی۔

تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی باقی دونوں بہنوں کو کام میں لگا دیکھ کر میری بڑی بیٹی دروازہ کھولنے چلدی۔

باہر نجانے کون تھا میری نظریں بھی دروازے کی طرف یہ دیکھنے کو ٹک گئیں تھیں کہ کون آیا ہےکیوں کہ جن حالات سے ہم لوگ گُذر رہے تھے اُن حالات کی سب سےبڑی خرابی یہ ہے کہ یہ زندگی کو تو سُکیڑتے ہی ہیں رشتے اور رشتے داریاں بھی خود بخود سُکڑ جاتی ہیں!

کافی دیر تک جب کوئی اندر داخل نہیں ہوا تو میں نے اندازہ کر لیا کہ یقیناَ کوئی محلے سے ہی ہوگا اور میری نظریں واپس آسمان پرٹک گئیں۔

ذرا ہی دیر میں میرے کانوں میں نہایت ہلکی آواز میں اپنی بیٹی کی آواز پڑی اور اُس کا کہے جانے والا جملہ میرے کانوں میں پڑتے ہی مُجھے ایسا لگا جیسے میرا پورا وجود کسی تیز رفتاری سے گُذرتی ہوئی ٹرین کی زد میں آگیا ہو
باہر نجانے کون کھڑا تھا جس سے اُس نے کہا۔

"تُم نے یہی پوچھا نہ کہ مُجھے تُم سے محبت ہے کہ نہیں"
"نہیں مُجھے تُم سے محبت نہیں ہے"

مُجھے ایسا لگنے لگا کہ جیسے میرا دم گُھٹنے لگا ہو برسوں سے جس سوال کا جواب میں ڈھونڈرہا تھا آج مُجھے لگ رہا تھا بس کسی پل میں ہی مُجھےاپنے اُس سوال کا جواب ملنے والا ہے!
اچانک مُجھے کھانسی کا شدید دورہ پڑا میرے یوں کھانسنے پر جیسے ہی میری بیٹی نے پلٹ کر میری طرف دیکھا تو اُس کی آنکھوں میں اک عجب سی وحشت بھری ہوئی تھی اور آج جواب دینے کے جس مرحلے سے وہ گذر رہی تھی وہ تکلیف آج مُجھ پر پوری طرح عیاں ہوچُکی تھی!

مُجھ پر نظر پڑتے ہی پہلے اُس کی گرفت دروازے کی چوکھٹ پر ڈھیلی ہوئی اور پھر اُس کےقدموں نےجیسے ہی دہلیز کو چھوڑا اُس نے جھٹکے سے دروازہ بند کیا اور تیزی سے پلٹتے ہوئے میرے قریب سے گُذر کے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اور جو میں برسوں سے یہ سوچتا کہ میری اُس سے آخری ملاقات پر اُس نے جب پلٹ کے اپنے گھر کے آنگن کی طرف دیکھا تھا تو اُس نے ایسا کیا دیکھ لیا تھا کہ اُس کی نظریں اک لمحے میں مُجھ سے اجنبی ہوگئیں تھیں اور آج میری بیٹی کے پلٹنے نے مُجھے اس کا جواب دے دیا تھا کہ
گھر کی دہلیزسے باہر کھڑی ہوئی محبتیں دہلیزسے اندر کی محبتوں سے کیسے ہارجاتی ہیں!

اور مُجھے باہرجاتے ہوئے اُس لڑکے کی ذہنی کیفیت کا بھی بخوبی اندازہ تھا اور مُجھے معلوم تھا کہ اس لمحے اُس کے ذہن میں کیا سوال اُٹھ رہا ہوگا مگر اس جواب کو پانے کے لئیے ابھی اُس بچارے کو نجانے کتنا انتظار کرنا تھا!

"ندیم جاوید عُّثمانی"
 
Top