دھنک رنگ عید

سید عمران

محفلین
صاحبو! سنتے آئے ہیں کہ عید بچوں کی ہوتی ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ بڑوں کی بھی ہوتی ہے، اور بڑوں کی کیوں نہ ہو جبکہ بچوں کو عید کی خوشیاں دینے کے لیے سارے پاپڑ بڑے بیلتے ہیں۔ بچوں کا کیا ہے، عید کی صبح اُٹھے، نہائے دھوئے، نئے کپڑے پہنے، لڑکے بالے عید کی نماز پڑھنے عید گاہ چلے گئے اور چھوٹی چھوٹی بچیاں ہاتھوں پہ مہندی سجائے، چوڑیاں بجائے گھر میں عید کی تیاریاں دیکھا کیے۔ اور پھر، عید کی نماز کے بعد جو بڑوں پردھاوا بولا تو جیبوں کو دشتِ ویراں اور صاحب جیب کو حیراں کرکے چھوڑا۔
ارے یہ بڑے ہی ہیں جو بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے سال بھر کما کما کرادھ موئے ہوئے جاتے ہیں۔ پھر بھی یہ شور کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے، ہم کہتے ہیں کہ بڑوں کی بھی ہوتی ہے۔ اگر بڑے نہ کماتے تو عید کے روز گھر میں کام کرنے والی ماسیاں، رات کو سحری جگانے والے لوگ، عید گاہ کے باہر کھڑے غبارے والے اور گھر میں شوہرِ حقیر کی بیگم پُرتقصیر کے منہ بھرنے کا بندوبست کہاں سے ہوتا۔
بھلے دن تھے رمضان کے جب سرشام سارا گھر سوندھے سلونے پکوان کی خوشبو سے مہک اٹھتا تھا۔ افطاری کا دسترخوان بچھتے ہی روزے دار بڑے بوڑھے تو آبراجمان ہوتے ہی تھے، سارا دن اِدھر اُدھر جگالی کرتے بچے بھی کونے کھدروں میں گھس کر اپنی جگہ بنالیتے اور جہاں آنکھ بچی پکوڑے سموسےمٹھی میں دبوچ لیتے، دادیاں اور مائیں ہائیں ہائیں کرتی رہ جاتیں۔ دسترخوان کی ان رونقوں کا بوجھ کس کی جیب برداشت کرتی تھی، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، پھر بھلا عید بڑوں کی کیوں نہیں ہوتی۔کیا ابھی بھی یہ ضد ہے کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے؟
یہ جو سحری میں منہ اندھیرے اُٹھ کر مائیں، نانیاں، دادیاں،برتن نہ کھڑکھڑاتیں، توا پرات پر روٹیاں نہ تاپتیں تو دن بھر کے روزے کو سہارا کیسے ملتا، اور افطاری میں جو طرح طرح کے پکوان اور نت نئی ڈشیں سجی نظر آتی تھیں ان کے پیچھے کس کی محنت کارفرما ہوتی تھی، کون اپنی نیند قربان کرکے، شدید گرمی میں پسینہ پسینہ ہوکر گھر بھر کے افراد کوسحری و افطاری کے دسترخوان پر خوشیوں اور مسرتوں کے لمحات سے سرشار کرتا تھا۔ اس پر بھی شور ہے کہ عید صرف بچوں کی ہوتی ہے۔
اور ہاں، یہ تو بھول ہی گئے کہ رمضان سے ہفتوں پہلےجو بچے بچیوں کے کپڑوں اور جوتوں کے لیے ماں باپ بازار بازار، دوکان دوکان موسم کے گرم و سرد کی پرواہ کیے بغیر،اپنی ضروریات اور ملبوسات کو بھولے چکرائے پھرتے تھے، کہیں کپڑا پسند نہیں تو کہیں جوتا چھوٹا ہے اور کہیں میچنگ کی چوڑیاں نہیں۔ لو بھائی ہفتوں اسی میں گذر گئے اور بچے پھر بھی اپنی تیاری سےمطمئن نہیں، ماں باپ بے چارے آخر میں لشتم پشتم ، مارے باندھے بمشکل تمام اپنے لیے ایک آدھ جوڑا خرید پاتے۔پھر بھی مرغے کی ایک ٹانگ کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔
جب عید کی نماز پڑھ کر گھر آتے تو دل سے خد اکا شکر نکلتا کہ گھر خوشیوں کا گہوارہ بنا ہوا ہے، سلام اور عید مبارک کے شور میں خوشیوں کے اس تہوار کا الگ ہی مزا ہے۔ ماں باپ کا پیار اور دعائیں ان خوشیوں کا حاصل ہیں ۔ بچوں کا نئے نئے کپڑے جوتے پہن کر دھب دھب کرکے چلنا،کبھی دوڑ کر دادا کی ٹانگوں سے لپٹنا اور دادی کی کمر سے لٹکنا، ان کی مصنوعی ڈانٹ کھانا، پھر ہمک کر ماں کی گود میں جا بیٹھنا یا اچھل کر بابا کے گلے میں جھول جانا۔ ادھر بچیاں چھم چھم چوڑیاں بجاتی، گھر والوں کو ناز دکھاتی، بلاوجہ اِدھر سے اُدھر اٹھلاتی پھرتیں۔ پھر ان کا عیدی پر لڑنا ، مرضی کی عیدی نہ ملنے پر منہ بسورنا، ناراضگی سے منہ پھیر کر آنکھیں بھگولینا، اور گال پر بابا کا پیار لے کر یک بارگی مسکرا اُٹھنا۔ بچوں کے یہ تام جھام بڑوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا چین ہوتے ہیں جو گذرے دنوں کی ساری تھکن دھو ڈالتے ہیں اور چہروں پر عید کی خوشیوں کے دھنک رنگ بکھیر دیتے ہیں۔
ارے ہاں یاد آیا۔۔۔۔ کوئی بھلا مانس سچ کہہ رہا تھا۔۔۔عید تو بچوں ہی کی ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:
تحریر بہر طور یہی ثابت کرتی رہی کہ عید بچوں کی ہی ہوتی ہے، کیونکہ بڑوں سے منسوب جتنی کاوشیں مذکور ہیں سب بچوں کی عید کے لیے ہی ہیں۔ پھر عید تو بچوں کی ہوئی نا۔۔۔۔ بہرحال خوب صورت تحریر۔ ہمارے لیے ہمارے بڑوں کی کاوشیں یاد کرانے کا شکریہ۔۔۔۔
 

bilal260

محفلین
عید تو اس کی ہوتی ہے جس کو نہ کوئی ٹینشن ہے اور نہ ہی وہ کوئی ٹینشن لیتا ہے،چاہئے اس کی عمر زیادہ ہو یا کم۔
بچے بھی یہی کرتے ہیں نہ کوئی ٹینشن و زمہ داری اور نہ کوئی ٹینشن لینا ہوتا ہے۔بس عید ہی عید ہوتی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
تحریر بہر طور یہی ثابت کرتی رہی کہ عید بچوں کی ہی ہوتی ہے، کیونکہ بڑوں سے منسوب جتنی کاوشیں مذکور ہیں سب بچوں کی عید کے لیے ہی ہیں۔ پھر عید تو بچوں کی ہوئی نا۔۔۔۔ بہرحال خوب صورت تحریر۔ ہمارے لیے ہمارے بڑوں کی کاوشیں یاد کرانے کا شکریہ۔۔۔۔
تحریر سے بہرطور یہی ثابت بھی کرایا گیا ہے.
 

سید عمران

محفلین
عید تو اس کی ہوتی ہے جس کو نہ کوئی ٹینشن ہے اور نہ ہی وہ کوئی ٹینشن لیتا ہے،چاہئے اس کی عمر زیادہ ہو یا کم۔
بچے بھی یہی کرتے ہیں نہ کوئی ٹینشن و زمہ داری اور نہ کوئی ٹینشن لینا ہوتا ہے۔بس عید ہی عید ہوتی ہے۔
اور اگر بچوں کو ہی ٹینشن ہوجائے تو؟؟؟ :sneaky::sneaky::sneaky:
 

سید عمران

محفلین
اپنوں کو...
پرایوں کو...
روٹھے ہوؤں کو...
منے ہوؤں...
دوستوں کو...
دشمنوں کو...
سب کو...
سچے دل کی گہرائیوں سے...
بہت بہت عید مبارک!!!
 

محمد وارث

لائبریرین
درست فرمایا قبلہ، بڑوں کے لیے ہی غالباً غالب فرما گئے ہیں :)

"عید" کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
 
Top