دھاندلی؟ (از حبیب اکرم)

عاطف بٹ

محفلین
359285_67832911.jpg
 

فلک شیر

محفلین
بٹ صاحب! جہاں تک اس فقیر کا گمان ہے..........یہ نام کی تبدیلی حبیب اکرم صاحب نے فرمائشی پروگرام کے تحت کی ہے.............
باقی ہمارے بٹ صاحب نے جو میدان مارا ہے..........ہم اُس کا گمان ہمیشہ سے رکھتے ہیں؟
am i right sir?
 

عاطف بٹ

محفلین
بٹ صاحب! جہاں تک اس فقیر کا گمان ہے..........یہ نام کی تبدیلی حبیب اکرم صاحب نے فرمائشی پروگرام کے تحت کی ہے.............
باقی ہمارے بٹ صاحب نے جو میدان مارا ہے..........ہم اُس کا گمان ہمیشہ سے رکھتے ہیں؟
am i right sir?
جی بالکل ایسا ہی چیمہ صاحب۔
آپ کی محبت کے لئے بےحد ممنون ہوں۔ :bighug:
 

ساجد

محفلین
بہت ہی اعلی۔ گو کہ مجھے اس واقعے کا علم تھا اور "صاحبِ واقعہ" یعنی عاطف بٹ بھائی کی زبانی اس کا احوال بڑی تفصیل سے جانتا تھا لیکن بوجوہ یہاں پیش کرنے سے گریزاں تھا کہ دوست نوازی کے زمرے میں نہ سمجھا جائے۔
بہر حال اب بلی تھیلے سے باہر آ ہی چکی ہے تو یہ کہنے میں فخر محسوس ہوتا ہے کہ پیسے کی رقم پیشکش ٹھکرانے والے اپنے عاطف بٹ بھائی ہی ہیں جن کا پورا نام عاطف خالد بٹ ہے۔ خدائے ذوالجلال ان کی استقامت میں مزید برکت فرمائے۔ یہ الیکشن کے دنوں میں اس قدر سخت پریزائیڈنگ"آفیسر" اور اپنے کام کو توجہ سے کرنے میں مگن تھے کہ ہم جو کہ ان کے بقول، ان کے لئے بڑے بھائی کا سا مقام رکھتے ہیں بھی ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے۔
محسن وقار علی ، ٹیگ لگاؤ بھئی ۔ اچھی بات سب تک پہنچنی چاہئے۔
 
بہت ہی اعلی۔ گو کہ مجھے اس واقعے کا علم تھا اور "صاحبِ واقعہ" یعنی عاطف بٹ بھائی کی زبانی اس کا احوال بڑی تفصیل سے جانتا تھا لیکن بوجوہ یہاں پیش کرنے سے گریزاں تھا کہ دوست نوازی کے زمرے میں نہ سمجھا جائے۔
بہر حال اب بلی تھیلے سے باہر آ ہی چکی ہے تو یہ کہنے میں فخر محسوس ہوتا ہے کہ پیسے کی رقم پیشکش ٹھکرانے والے اپنے عاطف بٹ بھائی ہی ہیں جن کا پورا نام عاطف خالد بٹ ہے۔ خدائے ذوالجلال ان کی استقامت میں مزید برکت فرمائے۔ یہ الیکشن کے دنوں میں اس قدر سخت پریزائیڈنگ"آفیسر" اور اپنے کام کو توجہ سے کرنے میں مگن تھے کہ ہم جو کہ ان کے بقول، ان کے لئے بڑے بھائی کا سا مقام رکھتے ہیں بھی ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے۔
محسن وقار علی ، ٹیگ لگاؤ بھئی ۔ اچھی بات سب تک پہنچنی چاہئے۔
ابھی لیجیے ساجد بھائی:)
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت ہی اعلی۔ گو کہ مجھے اس واقعے کا علم تھا اور "صاحبِ واقعہ" یعنی عاطف بٹ بھائی کی زبانی اس کا احوال بڑی تفصیل سے جانتا تھا لیکن بوجوہ یہاں پیش کرنے سے گریزاں تھا کہ دوست نوازی کے زمرے میں نہ سمجھا جائے۔
بہر حال اب بلی تھیلے سے باہر آ ہی چکی ہے تو یہ کہنے میں فخر محسوس ہوتا ہے کہ پیسے کی رقم پیشکش ٹھکرانے والے اپنے عاطف بٹ بھائی ہی ہیں جن کا پورا نام عاطف خالد بٹ ہے۔ خدائے ذوالجلال ان کی استقامت میں مزید برکت فرمائے۔ یہ الیکشن کے دنوں میں اس قدر سخت پریزائیڈنگ"آفیسر" اور اپنے کام کو توجہ سے کرنے میں مگن تھے کہ ہم جو کہ ان کے بقول، ان کے لئے بڑے بھائی کا سا مقام رکھتے ہیں بھی ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے۔
محسن وقار علی ، ٹیگ لگاؤ بھئی ۔ اچھی بات سب تک پہنچنی چاہئے۔
ساجد بھائی، بہت شکریہ۔
یہ سب آپ دوستوں اور بھائیوں کی محبت اور دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ میرے مولا نے مجھ پر اتنا کرم کیا کہ میرے پاؤں نہیں ڈگمگائے۔
 
اگر کالم میں مذکور بٹ صاحب اپنے عاطف بٹ صاحب ہی ہیں تو بلاشبہ بہت مبارکباد اور تعریف کے مستحق ہیں۔۔۔
Butt
ایک بات ضرور کہوں گا کہ اپنے بٹ صاحب کے کارنامے سے یہ نتیجہ نکالنا کہ پورے پاکستان میں سب پریزائیڈنگ آفیسر ز نے یہی کچھ کیا ہوگا چنانچہ جو لوگ دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں وہ شکست خوردہ ذہنیت کے علاوہ اور کچھ نہیں، تو یہ بات بھی سراسر غیر منطقی بلکہ احمقانہ ہوگی۔ اور کالم نگار صاحب نے یہی کاریگری دکھائی ہے۔۔
ایک اور بٹ صاحب بھی ہیں جو یہ کچھ کہہ رہے ہیں:
انگوٹھا چھاپ دھاندلی ! از توفیق بٹ
چیف الیکشن کمشنر بننے سے پہلے فخرو بھائی کا ریکارڈ یہ تھا کوئی اُنہیں غلط کام پر مجبور کرتا تو ڈٹ جانے کے بجائے وہ استعفیٰ دے دیتے تھے۔ چیف الیکشن کمشنر کے طور پر اپنا یہ ریکارڈ بھی وہ قائم نہیں رکھ سکے۔ حالیہ انتخابات کو پاکستان کی تاریخ کے بدترین انتخابات قرار دیا جا رہا ہے۔ چاروں اطراف سے دھاندلی کے ایسے شور اُٹھ رہے ہیں کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے ”الیکشن “نہیں ہوئے ”دھاندلی“ ہوئی ہے۔ فخرو بھائی بلکہ ”فخرو انکل“ کی تعیناتی کو اِس حوالے سے سراہا گیا تھا کہ وہ ایماندار آدمی ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ جیسے نظر اور بعض دوسری چیزیں کمزور پڑ جاتی ہیں تو ممکن ہے کچھ اثرات ایمانداری پر بھی پڑتے ہوں۔ اُنہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ خالی ایمانداری کافی نہیں ہوتی۔ اُصولی طور پر تو اِس عمر میں یہ عہدہ اُنہیں قبول ہی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اِس عمر میں انسان ”گھریلوذمہ داریاں“ پوری کرنے کے قابل نہیں رہتا چہ جائیکہ ”ملکی ذمہ داریاں“ پوری کرنے کے وہ خود کو اہل سمجھ بیٹھے۔ افسوس ”فخرو انکل“ نے یہ عہدہ قبول کرکے اپنے ساتھ عہدے کو بھی بے وقار کر دیا! اللہ جانے کیوں ہم صرف سیاسی شخصیات کے پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں کہ اپنی غلطیوں پر وہ نادم نہیں ہوتے یا اِس پر استعفیٰ وغیرہ دے کر گھر نہیں جاتے۔ استعفیٰ دینا تو دور کی بات ہے ”فخرو انکل“ تو اپنی نااہلی کا اعتراف تک نہیں کر رہے۔ چلیں اتنا ہی اعتراف کر لیں کہ ”کچھ میں اپنے اختیارات استعمال کرنے کے قابل نہیں تھا تو کچھ مجھے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی“۔ مختلف چینلز پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کی پھرتیاں اور آنیاں جانیاں دیکھ کر احساس ہوتا تھا فخرو انکل کو ”جبری رخصت “ پر بھیج دیا گیا ہے۔ اتنی زبردست کارکردگی کا مظاہرہ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کیا کہ اب کوئی طاقت ”چیف الیکشن کمشنر “ بننے سے اُنہیں نہیں روک سکتی۔ اتنی اکثریت مجھے نصیب ہوتی تو میں یہ عہدہ تاحیات اُن کے نام لگا دیتا۔ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو مطمئن ہو کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوئے ہیں۔ سو چیف الیکشن کمشنر یا سیکرٹری الیکشن کمیشن فخر سے کہہ سکتے ہیں ”ہم نے تو سب سیاسی جماعتوں سے ایک جیسا سلوک کیا ہے۔ اب ایک جماعت آگے نکل گئی ہے تو یہ کچھ ”ملکی یا غیر ملکی اداروں“ اور شخصیات کے ساتھ اُس کے اپنے تعلقات کا نتیجہ ہے جو خواہ مخواہ الیکشن کمیشن کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے “! ویسے اتنا بدنام تو جنرل ضیاءالحق کا ”ریفرنڈم“ بھی نہیں ہوا تھا جتنے حالیہ انتخابات ہوگئے۔ کامیاب ہونے والی جماعت نے شکرانے کے نوافل ادا کئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم یہ نوافل ”اپنی کامیابی “ پر ادا کئے ہیں یا ”دھاندلی کی کامیابی “ پر؟ مگر دنیا بھر کے سیاستدانوں کو ایک بات پر اب متفق ہو جانا چاہئے کہ انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے جتنی بہترین رہنمائی اور مدد کچھ پاکستانی سیاستدان یا ”ادارے“ کر سکتے ہیں شایدہی کوئی اور کر سکتا ہو۔ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ اور اُن کے ”برادرِ خرد“ اپنے انتخابی جلسوں میں مسلسل یہ ”درخواست“ کر رہے تھے کہ اُنہیں ”واضح مینڈیٹ“ ملنا چاہئے۔ ہمارا خیال تھا یہ ”درخواست“ وہ عوام سے کر رہے ہیں۔ یہ ”درخواست“ وہ کس سے کر رہے تھے؟ الیکشن کے نتائج نے سارے پردے ہٹا کر رکھ دیئے ہیں۔ اپنی کامیابی کا اُنہیں بھی اُتنا ہی یقین تھا جتنا ہمیں اُن کی کامیابی کا تھا۔ ”موسمی سیاستدان“ بڑے سیانے ہوتے ہیں۔ اُنہیں سب پتہ ہوتا ہے کونسی جماعت اقتدار میں آنے والی ہے یہ ”فصلی بٹیرے“ الیکشن سے قبل جتنی بڑی تعداد میں ”اکثریتی جماعت“ میں شامل ہو رہے تھے۔ اور جوق در جوق ہو رہے تھے اُس کے بعد کم از کم مجھے تو پورا یقین تھا یہی جماعت اقتدار میں آنے والی ہے۔ البتہ جو ”ویو “ الیکشن سے دو چار روز قبل چل نکلی تھی اُس سے ہلکی سی زد ضرور میرے اِس یقین پر پڑی تھی ۔ کچھ لوگ ایسے ہی ”پھولوں کی آرزو“ کرنے لگے تھے۔ ہماری آنکھ میں حسبِ معمول”موتیا“ ہی اُترنا تھا۔ فرق بس یہ ہے پہلے ”کالا موتیا“ اُترا ہوا تھا اب ”سفید موتیا “ اُتر آیا ہے۔ جو ”کالے موتیے “ سے بہرحال کم خطرناک ہے۔ ”کالے موتیے“ کے ساتھ ہم پانچ برس گزار سکتے ہیں تو ”سفید موتیے “ کے ساتھ کیوں نہیں گزار سکتے؟ جبکہ اِس کی تو ”مدت“ بھی زیادہ نہیں ہوتی! اگلے روز کسی چینل پر میں سیالکوٹ کے حلقہ این اے110میں ہونے والی دھاندلیوں کی فوٹیج دیکھ رہا تھا۔ اِس حلقے سے نون لیگ کے خواجہ آصف کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ ہر بار کامیاب ہو جاتے ہیں اور اِس کا سہرا اتنا عوام کے سر نہیں جاتا جتنا اُن ”خفیہ قوتوں“ کے سر جاتا ہے کسی اُمیدوار کو کامیاب کروانے میں جن کا کردار عوام سے بہت آگے کا ہوتا ہے۔ وہ ہر بار تقریباً چالیس بیالیس ہزار ووٹ لیتے تھے۔ اب کے بار اُنہوں نے نوے ہزار سے زائد ووٹ لئے جبکہ الیکشن سے ایک ہفتہ قبل سیالکوٹ میں اُن کی پارٹی کے ”چھوٹے لیڈر“ تشریف لائے تو اُن کے جلسے میں چار ہزار سے زائد لوگ بھی نہیں تھے۔ ذہنی طور پر خواجہ صاحب نے اپنی شکست اُسی روز تسلیم کر لی تھی۔ مگر پھر اُن کے لئے بانوے ہزار ووٹوں کا اہتمام کر دیا گیا۔ اور اہتمام کرنے والوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ دھاندلی اُتنی ہی ہونی چاہئے جتنی ہضم ہو جائے۔ سو دھاندلی کے حوالے سے اب یہ حلقہ عالمی سطح پر بدنام ہوگیا ہے اور عمران خان کے مطالبے کے مطابق ”بوڑھے الیکشن کمیشن “ نے تھوڑی سی شرم محسوس کرکے ”انگوٹھے “ چیک کرنے کا بندوبست کر لیا تو پچیس سے تیس ہزار ”انگوٹھے“ ضرور اُس شخص کی گردن پر ہوں گے سیالکوٹ کو جس نے ذاتی جاگیر بنا رکھا ہے۔ فوٹیج کے مطابق اُن کی ایک خاتون پولنگ ایجنٹ کے صرف انگوٹھوں پر نہیں پورے ہاتھوں پر سیاہی لگی تھی۔ چیکنگ ہوئی تو ”انگوٹھوں“ کے ساتھ بہت سی ”اُنگلیاں“ بھی الیکشن کمیشن کو مل جائیں گی۔ اور یہ وہی اُنگلیاں ہوں گی جو اِن دِنوں پوری دنیا اُس پر اُٹھا رہی ہے۔ ایک اور پولنگ ایجنٹ بھی ”رنگے ہاتھوں“ پکڑا گیا ۔ اُسے ایک فوجی افسر کے حوالے کیا گیا مگر چند لمحوں بعد وہ پھر اُسی پولنگ اسٹیشن پر دکھائی دینے لگا! 11مئی کو کچھ فوجی اور پولیس افسران ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے تھے اور دونوں اپنے فرائض اُسی لگن اور ذمہ داری سے ادا کر رہے تھے جس لگن اور ذمہ داری سے کچھ ”پریذائیڈنگ اور ریٹرننگ افسران کر رہے تھے۔ یہ ایک ”مشترکہ کاوش“ تھی جس پر سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اب جلد یا بدیر اپنے اپنے حصے کے انعام سب وصول کر لیں گے ۔رہ گئے عوام تو فی الحال وہ مزید انتظار فرمائیں۔ اُس سردار جی کی طرح جو شادی کئے بغیر انتظار فرما رہے تھے کہ اولاد کی نعمت سے مالا مال کب ہوں گے!

http://www.naibaat.pk/?p=50329c
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بٹ جی چھا گئے او قسمیں۔۔۔ چھا گئے او۔۔۔ اج فخر محسوس ہوریا ائے کہ تہاڈے ورگے ارفع لوکاں نال سنگت ائے۔۔ جیوندے رہو۔۔۔ تے وسدے رہو۔۔۔ جتھے پیر اوتھے خیر۔۔ رب وارث ہوئے۔۔۔ :)
 

عاطف بٹ

محفلین
بٹ جی چھا گئے او قسمیں۔۔۔ چھا گئے او۔۔۔ اج فخر محسوس ہوریا ائے کہ تہاڈے ورگے ارفع لوکاں نال سنگت ائے۔۔ جیوندے رہو۔۔۔ تے وسدے رہو۔۔۔ جتھے پیر اوتھے خیر۔۔ رب وارث ہوئے۔۔۔ :)
نین بھائی، بوہت شکریہ۔
تہاڈے جئے بھراواں دیاں دعاواں نے ساتھ دتا تے میرے مولا نے کرم کیتا۔
 

کاشفی

محفلین
بہت ہی اعلی۔ گو کہ مجھے اس واقعے کا علم تھا اور "صاحبِ واقعہ" یعنی عاطف بٹ بھائی کی زبانی اس کا احوال بڑی تفصیل سے جانتا تھا لیکن بوجوہ یہاں پیش کرنے سے گریزاں تھا کہ دوست نوازی کے زمرے میں نہ سمجھا جائے۔
بہر حال اب بلی تھیلے سے باہر آ ہی چکی ہے تو یہ کہنے میں فخر محسوس ہوتا ہے کہ پیسے کی رقم پیشکش ٹھکرانے والے اپنے عاطف بٹ بھائی ہی ہیں جن کا پورا نام عاطف خالد بٹ ہے۔ خدائے ذوالجلال ان کی استقامت میں مزید برکت فرمائے۔ یہ الیکشن کے دنوں میں اس قدر سخت پریزائیڈنگ"آفیسر" اور اپنے کام کو توجہ سے کرنے میں مگن تھے کہ ہم جو کہ ان کے بقول، ان کے لئے بڑے بھائی کا سا مقام رکھتے ہیں بھی ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے۔
محسن وقار علی ، ٹیگ لگاؤ بھئی ۔ اچھی بات سب تک پہنچنی چاہئے۔
آمین ثم آمین
بہت خوب! خوش رہیں موصوف ہمیشہ۔
 
Top