دو روزہ بین الاقوامی غالب کانفرنس 2011ء

نبیل

تکنیکی معاون
میں نے اپنے ایک گزشتہ مراسلے میں لاہور سے جاری ہونے والے ادبی جریدے سورج کا ذکر کیا تھا۔ جرید سورج کے مدیر اعلی تسلیم تصور صاحب ہیں اور غالب شناسی کے سلسلے میں ان کی بہت خدمات ہیں۔ وہ ایک غالب ٹرسٹ بھی چلاتے ہیں جس کے زیر اہتمام گزشتہ سال ایک بین الاقوامی غالب کانفرنس منعقد کی گئی۔ جریدہ سورج کا اس کانفرنس کے بارے میں ایک خصوصی نمبر بھی شائع ہوا تھا۔ میری درخواست پر تسلیم تصور صاحب نے جریدہ سورج میں چھپنے والی اس کانفرنس کی روداد بھیجی ہے جس کے لیے میں ان کا مشکور ہوں اور اسے یہاں شئیر کر رہا ہوں۔ اس روداد کی عبارت ان پیج فارمیٹ میں تھی جسے میں نے urdu.ca کے ذریعے تحریری شکل میں منتقل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانفرنس کی چند تصاویر بھی پیش کی جا رہی ہیں۔
غالب میموریل ٹرسٹ لاہور کے زیر اہتمام
دو روزہ بین الاقوامی غالب کانفرنس 2011ء

غالب میموریل ٹرسٹ لاہور کے زیر اہتمام 26-25 اکتوبر کو مقامی فائیو سٹار ہوٹل میں دو روزہ انٹرنیشنل غالب کانفرنس 2011ء کا انعقاد عمل میں آیا۔ جس کا موضوع 'مطالعہ غالب،اکیسویں صدی میں'تھا ۔کانفرنس کا اہتمام غالب کے 214 ویں جشن ولادت کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ اس موقع پر نامور اور ممتاز ادیبوں اور غالب شناسوں نے شریک ہو کر غالب کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
25 اکتوبر کو دن 11 بجے کانفرنس کی افتتاحی تقریب ٹرسٹ کے تاحیات سرپرست جناب شفیق اے صدیقی کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ معروف افسانہ نگار جناب انتظار حسین مہمان خصوصی اور قونصل جنرل ایران جناب آقائی بنی اسدی اور ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران جناب ڈاکٹر عباس فاموری مہمانان اعزاز تھے۔ جبکہ نظامت کے فرائض سلمان صدیقی نے ادا کئے۔ اس موقع پر غالب میموریل ٹرسٹ کے بانی چیئرمین تسلیم احمد تصور نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دیار سخن کے تاجدار، نجم الدولہ، دبیر الملک نواب میرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کا 214واں یوم ولادت 27 دسمبر 2011ء کو منایا جار ہا ہے لیکن غالب جیسی نابغۂ روزگار شخصیت کو کسی ایک روز تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ رواں سال بھی غالب کا ہے، آئندہ سال بھی غالب کا ہے، ہر سال غالب کا سال ہے۔ انہوں نے ٹرسٹ کی کارکردگی اور زیر تکمیل علمی، ادبی اور ثقافتی منصوبوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ غالب میموریل ٹرسٹ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جو سات آٹھ سال قبل غالب کے چند پرستاروں نے مل کر تشکیل دیا اور یہ اب تک کسی قسم کی سرکاری امداد کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ برس مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم فائن آرٹس کے طلبہ وطالبات کے مابین غالب کے پورٹریٹ اور کلام کی مصوری کا انعامی مقابلہ کروایا جائے گا۔ ا س کے علاوہ لاہور میں جو غالب کا دوسرا آبائی شہر ہے، غالب کے شایان شان یادگار کے قیام کے منصوبے پر بھی ابتدائی کام شروع کردیا گیا ہے۔ تسلیم احمد تصور نے ٹرسٹ کی جانب سے فروغ غالبیات کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے پر ’’تمغہ فروغ غالبیات‘‘ اور غیر ممالک میں اردو زبان کے فروغ کے لئے کام کرنے پر ’’تمغہ فروغ اردو‘‘ دئیے جانے کا بھی اعلان کیا۔ 2011ء کے لئے ’’تمغہ فروغ غالبیات‘‘ ٹرسٹ کے تاحیات سرپرست شفیق اے صدیقی کو دیا گیا۔ جبکہ ’’تمغہ فروغ اردو‘‘ کینیڈا میں علمی و ادبی سرگرمیوں کے روح رواں تسلیم الٰہی زلفی کو دیا گیا۔ یہ تمغہ ان کے نامزد کردہ نمائندے حسنین نذیر نے وصول کیا۔اس لئے کہ تسلیم الٰہی زلفی پاکستان آنے کے لئے ایئر پورٹ روانہ ہو چکے تھے کہ راستے میں اچانک عارضہ قلب کی وجہ سے انہیں سفر ملتوی کرنا پڑا۔
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشیں ڈاکٹر انوار احمد نے ’’غالب ہر عصرکا شاعر‘‘ کے عنوان سے کلیدی مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے غالب کی شاعری اور نثر دونوں حوالوں سے غالب کی شخصیت کے خد و خال اجاگر کئے۔ انہوں نے کہا کہ غالب کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ان کے خطوط بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے غالب کے شارحین کے حوالے سے مولانا حالی کا ذکر کیا جنہوں نے ’’یاد گار غالب‘‘ میں غالب کی سوانح عمری سے زیادہ ان کے کلام کی تشریح و توضیح کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غالب کو جواں مردی اور خود داری اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملی تھی جسے انہوں نے زندگی بھر قائم رکھا۔ انہوں نے غالب کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی ذکر کیا۔ یاس یگانہ چنگیزی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غالب پر بے جا قسم کی نکتہ چینیاں کرنے والے ان کے معترف بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ غالب کی شاعری کے سب سے بڑے شارح خود غالب ہی ہیں کیونکہ جب وہ عموماً ایک بات کو موضوع سخن بناتے ہیں تو اگلے ہی اشعار میں ان کی تشریح بھی آ جاتی ہے۔
کانفرنس میں کینیڈا کے ممتاز دانشور تسلیم الٰہی زلفی کا کلیدی مقالہ ’’غالب ہر صدی کا توانا شاعر‘‘ بھی پڑھا گیا۔ جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ جس طرح خیالات کی وسعت کو تنگنائے غزل میں سمونے کی مجبوری کا احساس غالب کے زمانے میں بھی ہو گیا تھا،آج احساس کی اس مشعل کو جسے غالب نے روشن کیا تھا اکیسوی صدی میں بھی اٹھائے رکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کی دنیا کا افق تو بے حد وسیع ہوگیا ہے ۔
کا نفرنس کے مہمان اعزاز ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران لاہور ڈاکٹر عباس فاموری نے غالب کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غالب نے اس وقت فارسی شاعری کو ثروت مند کیاجب یہ زبان برصغیر میں زوال پذیر تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرزا غالب نے اردو شاعری کے ساتھ ساتھ فارسی شاعری کے احیاء کے لئے بھرپور کوشش کی اور اسے اگلی نسلوں تک پہنچایا جس کی مثال ڈاکٹر علامہ اقبال کی صورت میں موجود ہے۔ انہوں نے غالب میموریل ٹرسٹ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ دیگر اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ غالب اور اقبال فہمی کے سلسلے میں اس طرح کی تقاریب کا انعقاد کریں۔ لاہور میں ایران کے قونصل جنرل آقائی بنی اسدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ غالب پاکستان اور ایران کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تقاریب کے ذریعے ہم اپنے تہذیبی ورثے کا احیا ممکن بنا سکتے ہیں۔
تقریب کے مہمان خصوصی انتظار حسین نے اپنے خطاب میں غالب کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ غالب زمانے کے ایسے دہانے پر کھڑا تھا جہاں ایک صدی کا اختتام ہو رہا تھا اور دوسری صدی کا آغاز۔ انہوں نے کہا کہ غالب نے غزل کو تنگ نائے سخن سے نکلنے کا راستہ دکھایا۔ ان کی خواہش ہے کہ :۔
ع:کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لئے
اب وہ کون سی وسعت ہے؟ اس کا اظہار وہ اپنے ایک خط میں یوں کرتے ہیں۔ ’’شاعر کی انتہا یہ ہے کہ وہ فردوسی ہو جائے۔‘‘ انتظار حسین نے کہا کہ غالب نئی نسل کا بھی شاعر ہے۔ جس وسعت کا وہ ذکر کرتے ہیں وہ ہمیں اقبال کے ہاں ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ غالب کے خطوط کو ناول کا درجہ دیتے ہیں جس کا موضوع ہے ’’بکھری ہوئی تہذیب کا نوحہ‘‘۔ انتظار حسین نے غالب کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر تسلیم احمد تصور کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے فروغ غالبیات کے سلسلے میں ایک سنگ میل قرار دیا ہے۔ تقریب کے صدر شفیق اے صدیقی نے اپنے صدارتی خطاب میں ٹرسٹ کے بانی چیئرمین تسلیم احمد تصور کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ اپنے اہل ثروت احباب کو بھی ٹرسٹ کے زیر تکمیل منصوبوں کو پوراکرنے کے لئے بھرپور تعاون پر آمادہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ غالب ہمیشہ سے ہی میرے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔ غالب کس کا پسندیدہ شاعر نہیں ہے؟ وہ تو ہر لطیف اور گداز دل میں بستاہے۔ شفیق اے صدیقی نے اس اعزاز کے حاصل ہونے پر اراکین ٹرسٹ کا شکریہ ادا کیا کہ غالب میموریل ٹرسٹ کے لئے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں طلائی تمغہ فروغ غالبیات دیا گیا ہے اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے متفقہ فیصلہ کے مطابق ٹرسٹ کا تاحیات سرپرست بھی نامزد کیا گیا ہے۔ شفیق اے صدیقی کے خطا ب کے بعد کیک کاٹنے کی رسم ادا کی گئی۔
پہلا اکیڈمک سیشن
کانفرنس کا پہلاا کیڈمک سیشن سہ پہر 3 بجے شروع ہوا۔ اس سیشن کی صدار ت نامور افسانہ نگار،نقاد اور صدر شعبہ اردو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر رشید امجد نے کی جبکہ شعبہ اردو کراچی یونیورسٹی کی ڈاکٹر تنظیم الفردوس مہمان خصوصی تھیں۔ لمٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مظفر عباس نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیئے۔ مقالات پیش کرنے والوں نے کانفرنس کے بنیادی موضوع ’’مطالعہ غالب اکیسویں صدی میں‘‘ کو سامنے رکھ کر مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جن ادیبوں اور دانشوروں نے اپنے مقالات پیش کئے ان میں ڈاکٹرتنظیم الفردوس (پروفیسر شعبہ اردو کراچی یونیورسٹی) ڈاکٹر ظہیر صدیقی (پروفیسر فارسی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور) ڈاکٹر ناہید قاسمی (مدیرہ فنون) ڈاکٹر خالد اقبال یاسر(ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ، لاہور) ڈاکٹر شائستہ نزہت (ڈپٹی سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات اسلام آباد) اور صاحب صدر ڈاکٹررشید امجد (صدر شعبہ اردو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد) شامل تھے۔ ان مقالہ نگاروں نے اپنے مقالوں میں غالب کے فن اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں پرروشنی ڈالی۔ ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے ’’غالب کے ایک شعر کا صحیح مفہوم اور امیر مینائی‘‘ کے موضو ع پر اپنی تازہ تحقیق پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ 22 فروری 1893ء کو امیر لغات کی جلد شائع ہو کر سامنے آئی تو اس میں ایک خط موجود تھا جس میں امیر فقیر کے دستخط موجود تھے۔ اس میں غالب اور امیر مینائی کی ملاقات کا حوالہ بھی موجود تھا۔ خط کے مطابق غالب کے شعر:
سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
میں ان کا نمایاں پہلو ناامیدی ہے۔ کلام غالب کا ابتدائی مواد نسخہ رام پور قدیم اور نسخہ حمیدیہ میں موجود ہے۔ وقت اور حالا ت نے غالب کو دل برداشتہ کردیا تھا۔ اور وہ سخن گوئی سے بے زار نظر آتے تھے۔ 1862ء میں دیوان اردو میں ناتوانی کے بجائے ناامیدی کے الفاظ نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر ظہیر صدیقی کے مقالے کا موضوع تھا ’’ غالب اور بیدل کی فکری اور فنی قربتیں اور فاصلے‘‘ انہوں نے کہا کہ غالب اپنے آپ کو فارسی کا قدیم شاعر تصور کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اگر اہل دنیا صاحب ذوق ہوتے تو میرے دیوان کو شہرت ضرورملتی۔ غالب نے خود کو عندلیب گلستان عجم بھی کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرزا غالب نے بیدل کو اپنا استاد معنوی مانا ہے۔ غالب کو بیدل میں فکر و فن کی وہ انتہا نظر آئی کہ اس نے بیدل کو اپنے دل میں بسا لیا۔ غالب اور بیدل میں فکرو فن کے سلسلے میں جہاں بہت سی قدریں مشترک ہیں وہاں فکرو نظر اور شخصیت کا فرق بھی موجود ہے۔ زندگی اور موت کے بارے میں دونوں کے نکتہ ہائے نظر میں اختلاف موجود ہے۔
ڈاکٹر شائستہ نزہت نے ’’غالب اور پنجابی ادب‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر پہلو اور ہر رخ سے غالب سب پر غالب رہا ہے۔ ان کی شاعری محض لفظوں کا بیاں یا جذبات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اس میں زندگی کے رنگ بھی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مقالے میں غالب پرپنجابی زبان میں ہونے والے کام کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر نے پنجابی میں غالب کے حوالے سے ابتدائی کام کیا ہے۔ پروفیسر دلشاد کلانچوی اور اسیر عابد نے غالب کی شاعری کے پنجابی میں تراجم کئے۔ اس سلسلے میں اسیرعابد نے جس طرح اشعار غالب کی اصل روح کو پنجابی میں سمویا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ تنقید نگاروں نے لکھا ہے کہ اگر غالب، اسیرعابد کا ترجمہ دیکھ لیتے تو اسے بہت سراہتے۔
ڈاکٹر خالد اقبال یاسر نے 1857ء کے شوریدہ حالات میں غالب کے طرز عمل کے حوالے سے ’’1857ء اورر غالب کی عملیت پسندی‘‘ کے موضوع پرسیر حاصل مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرزا غالب کے بارے میں یہ بات کہنا غلط ہے کہ وہ انگریزوں کے پٹھو تھے بلکہ وہ اپنی بے روزگاری کے سبب اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انگریزوں کا ساتھ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ غالب اس الزام سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے کہ انگریزوں کے طرفدار ہیں۔ سرسید نے غالب سے متاثر ہو کر رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھا۔ انہوں نے کہا کہ غالب اپنی عملیت پسندی کے نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اس کے منفی اثرات سے بچنا بھی چاہتے تھے۔ تاہم غالب نے حالات سے فرار کی بجائے پامردی سے ان کا مقالہ کیا۔
ڈاکٹر ناہید قاسمی نے ’’احمد ندیم قاسمی کی غالب شناسی اور غالب فہمی‘‘ کے موضوع پر اپنے مقالے میں غالب کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی کی تحریروں کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ غالب کا مقام احمد ندیم قاسمی کے نزدیک بہت بلند تھا۔ احمد ندیم قاسمی کی تحریروں میں غالب ایک عظیم اور قد آور شاعر کے طور پر نمایاں ہوتے ہیں انہو ں نے ہمارے سامنے ایک جیتا جاگتا غالب پیش کیا۔ وہ آخر وقت تک لکھتے رہے اور غالب کے خلاف لکھنے والوں کو جوا ب دیتے رہے۔ ان کے مخالف لکھنے والوں نے کہا کہ غالب بڑا شاعر تو ضرور ہے لیکن وہ اتنا بڑانہیں ہے جتنا اسے ہمارے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ قاسمی صاحب نے اس کے جواب میں پرزور دلائل کے ساتھ جواب دیا کہ غالب کس طرح ہمارا اپنا شاعر ہے۔
سیشن کے آخر میں ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ غالب اردو کا وہ واحد شاعر ہے جس کے ساتھ ساری زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب رس سے باغ و بہار تک آتے آتے زبان وبیان کی سطح پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ باغ و بہار سے ایک نئے اسلوب کا آغاز ہوا۔ غالب نے باغ و بہار کے اسلوب کو ایک نئی شکل دی اور میر امن کی طرح زبان کو صاف و شستہ بنایا۔ جو اب اردوئے معلی بن چکی تھی۔ چنانچہ علی گڑھ تحریک نے مغربی اثرات کے باوجود غالب کے اثرات کو مقبول کیا۔
دوسرا اکیڈمک سیشن
کانفرنس کے دوسرے اکیڈمک سیشن کا آغاز 26 اکتوبرکو صبح دس بجے ہوا۔ اس سیشن کی صدارت نامور نقاد اور افسانہ نگار ڈاکٹر سلیم اختر نے کی جبکہ ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر اور معروف دانشور قاضی جاوید مہمان خصوصی تھے۔ ماڈریٹر کے فرائض ڈاکٹر مظفرعباس نے ادا کئے۔’’مطالعہ غالب اکیسویں صدی‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالکریم خالد (صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)ڈاکٹر سفیان صفی (شعبہ اردو، ہزارہ یونیورسٹی) ڈاکٹر شاہد حسن رضوی (اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور) ڈاکٹر سلیم مظہر (چیئرمین شعبہ فارسی، پنجاب یونیورسٹی لاہور) ڈاکٹر مظفر عباس (وائس چانسلر لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور) قاضی جاوید (ڈائریکٹر ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور ) اور ڈاکٹر سلیم اختر(صاحب صدر) نے اپنے مقالات پیش کئے۔
ڈاکٹر عبدالکریم خالد نے ’’غالب کی بے راہ روی اور علم و آگہی‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ غالب نے اردو شاعری کے بیشترنشیب و فراز 25 برس میں دیکھ لیے تھے۔ انہوں نے آٹھ نو سال کی عمر میں اردو اور گیارہ سال کی عمر میں فارسی شعر کہنا شروع کردیئے تھے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی وہ عنفوان شباب ہی میں بے راہ روی کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ اسی عمر میں انہوں نے شادی شدہ ہو کر بھی عشق کا روگ پال لیا۔ یہ عشق غالب کو زندگی بھر یاد رہا اور اس کا ذکروہ اپنے خطوں میں بھی کرتے رہے۔ کہ آدھی آدھی رات تک اختلاط اور محبت کی محفلیں جاری رہتی تھیں۔ لیکن اس لہو و لہب اور عیش و عشرت کے باوجود ان کی ذہنی ترقی کی رفتار، ان کی عمر کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز تھی۔ تعلیم و تربیت کا کوئی معقول انتظام نہ ہونے کے باوجود انہوں نے ذاتی مطالعے اور کتب بینی سے علم شناسی کے سارے مراحل طے کئے تھے۔ بیدل، ظہوری، نظیری اور عرفی جیسے شعرا کے مطالعہ نے غالب کو نہ صرف زبان کے مسائل سمجھنے میں مدد دی بلکہ انہیں استدلال، منطق اور فلسفہ سے غیرمعمولی شغف پیدا ہوا۔
ڈاکٹر عبدالکریم خالد نے کہا کہ لہو و لعب اور فسق و فجور کے ساتھ ساتھ اکتساب علم کے سلسلے میں غالب کو ایسی سطح پر لاتے ہیں جہاں انہیں نہ صرف ایک زمانے پر بلکہ ہر زمانے پرغالب آنا تھا۔ غالب جیسے جیسے علوم کی وسعت کی طرف بڑھتے گئے وہ خود آگہی سے قریب ہوتے گئے۔
ڈاکٹر سفیان صفی نے ’’فیض کی شاعری پر غالب کے اثرات ‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ غالب نے عظمت انسان کے جس تصور کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے ۔فیض اس سے براہ راست متاثر ہوئے۔ غالب اپنے آباؤ اجداد کی جس تہذیبی روایت کو لے کر آگے بڑھے۔ اس نے اس دور کے فارسی شعرا سے اثرات قبول کرکے انسان کی آزادی کے تصور کو راہ دی۔ وہ جاگیرداری نظام کے سخت خلاف تھے۔ چنانچہ یہی تصورات ہمیں فیض کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ فیض کی شاعری بھی غالب کی طرح عظمت انسان کے موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔
ڈاکٹر شاہد حسن رضوی کے مقالے کا موضوع تھا ’’غالب کا قومی و ملی شعور‘‘ صاحب مقالہ نے 1857ء کے حالات و واقعات کے پیش منظر میں ابھرنے والے قومی و ملی شعور کا تجزیہ کرتے ہوئے غالب پر اس کا انطباق کیا۔ انہوں نے کہا کہ جاگیردارانہ نظام کے تسلط اور انگریزوں کے جبر نے جس طرح ہرشخص کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی غالب بھی ا س سے بچ نہ سکے۔ لیکن انہوں نے لوگوں کے شعور کو بیدار کرنے اور انہیں حقیقت احوال سے آگاہ کرنے کے لئے انتہائی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ غالب سرسید کے اصلاحی اور انقلابی شعورکے حامی تھے۔
ڈاکٹر محمد سلیم مظہر نے ’’غالب اور حاملانِ قتیل تنازع‘‘کے موضوع پر اپنے تحقیقی مقالے میں غالب اور قتیل کی باہمی آویزش کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنازع کسی فکری یاشعری معاملے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کی بنیادی وجہ اقتصادی اور معاشی تھی اوراس کا سلسلہ غالب کی پنشن سے ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غالب کو جب اقتصادی مسائل نے بری طرح جکڑ لیا تو انہوں نے پنشن کے سلسلے میں اپنی بھاگ دوڑ تیز کردی۔ جو تقریباً 22 برس تک جاری رہی۔ جب غالب نے پنشن کے سلسلے میں کلکتہ کا سفر اختیار کیا اور وہاں داد رسی کی کوشش کی تو حاملانِ قتیل نے وہاں ایک خود ساختہ علمی و شعری تنازع کھڑا کردیا جس سے غالب کو کافی پریشانی اٹھانا پڑی۔
ڈاکٹر مظفر عباس کے مقالے کا موضوع تھا ’’اکیسویں صدی کا طریق مراسلت اور مکاتیب غالب‘‘ ۔ انہوں نے اپنے مقالے کو اختصار کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کہا کہ غالب کی مکتوب نگاری میں دور حاضر کے چار جدید ترین طریق مراسلات ملتے ہیں جن میں ایس ایم ایس، ای میل، فیس بک اور ٹوئٹر شامل ہیں انہوں نے کہا کہ ان چار جدید ترین طریقوں اور مراسلت کے اسلوب کو مرزا کے مکاتیب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
قاضی جاوید نے ’’غالب اور روشن خیالی‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ برصغیر میں روشن خیالی صوفیانہ اعتدال پسندی سے شروع ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت علی ہجویریؒ کا نام سرفہرست ہے جو انسان اور عقل کی ہم آہنگی کے بہت قائل تھے۔ 13 ویں صدی میں چشتیہ سلسلے کے بزرگوں نے اعتدال پسندی کو مزید آگے بڑھایا۔ روشن خیالی کے اس وسیع تناظر میں غالب نے اعتدال پسندی اور انسان دوستی کے رویوں کو اختیار کیا۔ غالب نے تصوف کے دونوں فلسفوں کو اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ تاہم اپنی روشن خیالی کے تناظر میں وہ نہ تو سنی نظر آتے ہیں اور نہ شیعہ۔ ان کے بارے میں ہمارا نکتہ نظر بالکل ویسا ہی ہے جیسا بابا گورونانک کے بار ے میں ہے۔ قاضی جاوید نے کہا کہ غالب کی روشن خیالی میں کلکتے کے سفرکا بہت اہم کردار ہے۔
سیشن کے آخر میں ڈاکٹر سلیم اختر نے صدارتی کلمات ادا کیے۔ انہوں نے غالب میموریل ٹرسٹ کے بانی چیئرمین تسلیم احمد تصور سے اپنے تعلق خاطر کا ذکر کرتے ہوئے فروغ غالبیات کے سلسلے میں ان کی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی ’’مطالعہ غالب اکیسویں صدی میں‘‘کے موضوع پر مقالہ لکھ کر لایا ہوں۔ لیکن وقت اتنا ہوگیا ہے کہ اب میں اس کے خلاصے کا بھی خلاصہ پیش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہر صدی کسی نہ کسی شاعر کے نام ہوتی ہے مثلاً میرؔ کی صدی، غالبؔ کی صدی، اقبالؔ کی صدی وغیرہ لیکن آج غالب کا مطالعہ کیوں کر رہے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندہ وہی رہتا ہے جو ہر زمانے کے طرز احساس کے مطابق لوگوں سے مکالمہ کرتاہے اور یہی وصف غالب میں موجود ہے۔ اور اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ آج کی صدی بھی غالب ہی کی صدی ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر کے خطاب کے بعد انٹرنیشنل غالب کانفرنس 2011ء کے اکیڈمک سیشن کے اختتام کا اعلان ہوا۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اس موقع پر غالب کی تصویرسے مزین یاد گاری کافی مگ اور غالب کیلنڈر 2012ء کی رونمائی بھی کی۔ کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں بریڈ فورڈ کی ممتاز ادبی شخصیت مقصود الٰہی شیخ کا مقالہ ’’بقائے باہمی کا تصور غالب کی نظر میں‘‘اور جامعہ ملیہ دہلی کے پروفیسر سہیل احمد فاروقی کا مقالہ" غالب کی انسان دوستی" بھی پڑھا گیا۔ان دونوں مقالات میں غالب کے فن و شخصیت کا بھرپور جائزہ لیا گیا تھا۔
پروفیسر سہیل احمد فاروقی نے اپنے گرانقدرمقالے میں تحریر کیا تھا۔کہ کسی ادیب یا شاعر کی انسان دوستی کا پیمانہ یہ ہے کہ انسانی سروکار اور مسائل اس کے تخلیقی عمل کا حصہ کس طرح بنتے ہیں۔ایک حساس وجودہی اس کسوٹی پر پورا اُترسکتاہے۔اور اس اعتبار سے غالب کا حساس ذہن انفس وآفاق سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔انھوں نے کہا کہ غالب کے یہاں جوش زندگی اور نشاط آرزو ایک ایسی شخصیت کے چشمہ ہائے باطن سے نمودار ہوا ہے جس کے نزدیک زندگی کی تڑپ اور زندگی کی آگ ہی وہ متاع گراں مایہ ہے جو ادراک اور لذت ادراک دونوں کی بیک وقت امین ہے ۔ اس کے علاوہ مسائل دہر سے آنکھیں چار کرنے کا جو عزم اور شعور ان کے یہاں ملتا ہے وہ اوروں کے یہاں ناپید تو نہیں لیکن خال خال ہی نظر آئے گا ۔ جبکہ بریڈ فورڈ میں ممتاز دانشور اور مدیر ’’مخزن‘‘ مقصود الٰہی شیخ نے اپنے مقالے میں لکھا تھا کہ غالب کو مشکل وقت اور بے روزگاری میں زیست کرنا، دوسروں کے ساتھ مل جل کر امن کے ساتھ رہنا، نبھانا آتا تھا۔ تلخی حیات نے ان کوبقائے باہمی کے گر سکھا دیئے تھے۔ اان میں ضروری لچک پیدا ہوگئی تھی۔بہتر ماحول اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لئے کچھ لو، کچھ دو کی ڈگر اپنانا پڑتی ہے۔ ٹھوکر کھانے سے بچنے اور باوقار طریقے سے، بہم جینے کا یہی دستور ہے، کس کس طرح یہ ثابت کیا جائے کہ غالب بقائے باہمی کے نظریہ پر کار پیرا تھے۔ انسان تھے، فرشتے نہ تھے دوسروں کو برداشت کرنے کا ان میں حوصلہ تھا۔ ایسے بے خبر نہ تھے کہ ساتھ رہنا خواہ چار دیواری میں ہو یا ماورا، اب تب اونچ نیچ ہو سکتی ہے، پھوٹ پھٹول ہو سکتی ہے لیکن وہ دوسروں کو جھٹ اور فٹ الزام نہیں دیتے تھے:
دھول دھپہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کربیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
سامعین نے فاضل مقالہ نگاروں کی کانفرنس میں عدم موجودگی کو شدت سے محسوس کیا۔یادرہے کہ پروفیسر سہیل احمد فاروقی ویزہ نہ ملنے اور جبکہ مقصود الٰہی شیخ اچانک علالت کی وجہ سے کانفرنس میں شرکت نہیں کر سکے ۔
محفل موسیقی و مشاعرہ
کانفرنس کی پہلی شام ایک خوب صورت محفل موسیقی کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں معروف گلوکارہ ندا فیض نے کلام غالب سنا کر حاضرین کے دل موہ لئے۔ کانفرنس کے دوسرے روز کی شام محفل مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ جسے سننے کے لئے ہوٹل کے وسیع ہا ل میں سامعین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مشاعرے کی صدارت معروف سینئر شاعر شہزاد احمد نے کی۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر خورشید رضوی اور مہمان اعزاز خالد شریف تھے۔ نظامت کے فرائض کراچی سے آئے ہوئے شاعر سلمان صدیقی نے ادا کئے۔شعرائے کرام میں پرتو روہیلہ، ڈاکٹر خالد اقبال یاسر، سعودعثمانی، ڈاکٹر عبدالکریم خالد، ڈاکٹر تنظیم الفردوس،ڈاکٹرضیاء الحسن، ڈاکٹر سفیان صفی، سلمان صدیقی، ڈاکٹر محمد کامران اور حامد ولید شامل تھے۔مشاعرے میں سنائے گئے ۔ شعراء کے اشعار درج ذیل ہیں۔
شہزاد احمد
زندگی بھر میں کوئی شے تو مکمل کرلیں
آؤ لبریز کریں صبر کے پیمانے کو

کس محبت سے وہ میرا تذکرہ کرنے لگے
میں تو زندہ ہوگیاشہزاد مر جانے کے بعد

ڈاکٹر خورشید رضوی
تو نے میرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دیئے
موت میری حیات میں، نقص میرے کمال میں

خالد شریف
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

پرتو روہیلہ
اس بات پہ پرتوؔ میرے امروز کا سوچو
پیچھے مرے بھاگے ہے فردا مرے آگے
ڈاکٹر خالد اقبال یاسر
یہ محبت عجیب ہے یاسرؔ
لگتی کم ہے مگر زیادہ ہے

سعود عثمانی
ہر روز امتحان سے گزارا تو میں گیا
تیرا تو کچھ گیا نہیں مارا تو میں گیا
ڈاکٹر عبدالکریم خالد
مجھے ترا خیال تھا کہ شورش جنوں میں بھی
میں تیر تھا کھنچا ہوا مگر کمان میں رہا
ڈاکٹر تنظیم الفردوس
درد دے کہ درماں دے یہ خوشی تو اس کی ہے
ہم نے بس گزار ی ہے زندگی تو اس کی ہے
ڈاکٹر ضیا الحسن
ہم کو معلوم ہے گفتگو کس سے ہے
ہم کو معلوم ہے کب نہیں بولتے
ڈاکٹر سفیان صفی
کیا ناز کیا فسونِ نظر کیا جنون سب
بنتے گئے حوالۂ علم و فنون سب
سلمان صدیقی
وہ کون سا ستم ہے جو دل سہہ نہیں رہا
حالانکہ اس میں کوئی اب رہ نہیں رہا
صائمہ کامران
ادھورے پن کی رفتہ رفتہ تکمیل کرتی ہے
محبت زندگی کو حسن میں تبدیل کرتی ہے
حامد ولید
مرے خوں میں رچ بس گیا ہے کتنی نسلوں سے
یقیں اک بے یقینی کا، گماں اک بدگمانی کا
مشاعرے کے ساتھ ہی دو روزہ بین الاقوامی غالب کانفرنس اختتام پذیر ہوئی اور غالب شناسوں اور غالب سے محبت کرنے والے اہل ذوق کے دلوں پر گہرے نقوش چھوڑ گئی۔ بانی چیئرمین غالب میموریل ٹرسٹ تسلیم احمد تصور نے ان تمام اداروں اور احباب کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ا س کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے خاص طور پر اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر خالد اقبال یاسر، ان کی ٹیم اور ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اردو کے طلباء و طالبات جو کانفرنس کے انتظامی امور نمٹانے میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے کا شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پر کانفرنس کے مندوبین، مقالہ نگاروں اور شعرا حضرات میں سوونیر، شیلڈز، غالب کیلنڈر اور غالب کی تصویر سے مزین کافی مگ بھی تقسیم کئے گئے جو اس کانفرنس کے لئے خصوصی طور پر تیار کیے گئے تھے۔ کانفرنس کے دوران چائے، لوازمات اور کھانے کا بھی نہایت پرتکلف انتظام کیا گیا تھا۔
(رپورٹ: ثنااقبال و حافظ محمد افضل متعلم شعبہ اردو یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)
 

نبیل

تکنیکی معاون
Bookpic1_zpsc0f710ab.jpg


Bookpic2_zps2eb66caf.jpg


Bookpic3_zps79b13949.jpg
 

نبیل

تکنیکی معاون
page344-Rs300_zps66bf2b64.jpg


یہ جریدہ سورج کے اس کانفرنس کے بارے میں خصوصی شمارے کا سرورق ہے۔ میں نے تسلیم تصور صاحب سے اس شمارے کے چند مضامین بھیجنے کی درخواست بھی کی تھی۔ اگر ان مضامین کی سوفٹ کاپی مل گئی تو انہیں تحریری شکل میں پوسٹ کر سکوں گا، بصورت دیگر ان کی تصویری شکل پر گزارا کرنا پڑے گا۔
 
شہزاد احمد
زندگی بھر میں کوئی شے تو مکمل کرلیں
آؤ لبریز کریں صبر کے پیمانے کو

کس محبت سے وہ میرا تذکرہ کرنے لگے
میں تو زندہ ہوگیاشہزاد مر جانے کے بعد



خالد شریف
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا



سعود عثمانی
ہر روز امتحان سے گزارا تو میں گیا
تیرا تو کچھ گیا نہیں مارا تو میں گیا

سلمان صدیقی
وہ کون سا ستم ہے جو دل سہہ نہیں رہا
حالانکہ اس میں کوئی اب رہ نہیں رہا

صائمہ کامران
ادھورے پن کی رفتہ رفتہ تکمیل کرتی ہے
محبت زندگی کو حسن میں تبدیل کرتی ہے
 

تلمیذ

لائبریرین
روئداد کو محفل پر پوسٹ کرنے میں صرف کئے گئے وقت اور محنت کے لئے بے حد شکریہ نبیل صاحب۔جزاک اللہ!!
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ نبیل بھائی یہ سب شریک محفل کرنے کا۔

ویسے کیا یہ سب کا سب آپ ہی نے لکھا ہے ناں؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
بہت شکریہ نبیل بھائی یہ سب شریک محفل کرنے کا۔

ویسے کیا یہ سب کا سب آپ ہی نے لکھا ہے ناں؟

میں نے اوپر والے مراسلے کے شروع میں لکھا ہے۔۔

میں نے اپنے ایک گزشتہ مراسلے میں لاہور سے جاری ہونے والے ادبی جریدے سورج کا ذکر کیا تھا۔ جرید سورج کے مدیر اعلی تسلیم تصور صاحب ہیں اور غالب شناسی کے سلسلے میں ان کی بہت خدمات ہیں۔ وہ ایک غالب ٹرسٹ بھی چلاتے ہیں جس کے زیر اہتمام گزشتہ سال ایک بین الاقوامی غالب کانفرنس منعقد کی گئی۔ جریدہ سورج کا اس کانفرنس کے بارے میں ایک خصوصی نمبر بھی شائع ہوا تھا۔ میری درخواست پر تسلیم تصور صاحب نے جریدہ سورج میں چھپنے والی اس کانفرنس کی روداد بھیجی ہے جس کے لیے میں ان کا مشکور ہوں اور اسے یہاں شئیر کر رہا ہوں۔ اس روداد کی عبارت ان پیج فارمیٹ میں تھی جسے میں نے urdu.ca کے ذریعے تحریری شکل میں منتقل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانفرنس کی چند تصاویر بھی پیش کی جا رہی ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ براردم نبیل یہ خوبصورت روداد ارسال فرمانے کیلیے، بہت خوشی ہوئی پڑھ کر۔

اور جناب تسلیم احمد تصور صاحب کا خصوصی شکریہ یہ روداد آپ کو مہیا کرنے کیلیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اور کیا خوب اور سچ فرمایا جناب ڈاکٹر رشید امجد صاحب نے کہ غالب اردو کا وہ واحد شاعر ہے جس کے ساتھ ساری زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
 

x boy

محفلین
زبردست
شکریہ
اتنا کیسے لکھ لیتے ہیں جناب
ہاتھ نہیں تھکتا کیا،،
ایک گھنٹے باڈی بلڈنگ کرنے سے پورا بدن درد کرتا ہے
 
Top