دوسرا چہرہ

عبدالمغیث

محفلین
دوسرا چہرہ
ڈاکٹر عبدالمغیث

سائنس تو ہمیں بتاتی ہے کہ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو دراصل حقیقت میں ہم اُسے نہیں دیکھ رہے ہوتے بلکہ اُس چیز سے منعکس ہونے والی روشنی سے ہماری آنکھ کے اندرونی پردے پر جو تصویر بنتی ہے ہم اُسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یوں ہم کسی بھی چیز کو براہِ راست دیکھ ہی نہیں سکتے۔

فلاسفر برٹرینڈ رَسَل کہتا ہے کہ یہ جو میرے سامنے میز رکھی ہے میں اس کا اصل رنگ، شکل اور ساخت معلوم نہیں کر سکتا۔ کیونکہ مختلف روشنیوں میں اس کا رنگ مختلف نظر آتا ہے۔ اور مختلف زاویوں سے اس کی شکل بھی مختلف نظر آتی ہے۔ اور اگر میں اسے خالی آنکھ سے دیکھوں تو یہ مجھے ہموار لگتی ہے جبکہ اگر خوردبین سے دیکھوں تو ناہموار۔

رسل یہ بھی کہتا ہے کہ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ کیا حقیقت میں یہ ایک میز ہی ہے یا کچھ اور چیز۔ اور یہ جو کچھ بھی ہے کیا یہ حقیقت میں موجود بھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ میری تمام تر معلومات حواسِ خمسہ کے ذریعہ سے ہیں اور ان حواس میں تغیر میری معلومات میں بھی تغیر پیدا کر دیتا ہے۔

گویا ہم نہ تو کسی چیز کو براہِ راست دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اُس کی اصل حقیقت جان سکتے ہیں۔ اور اگر ظاہری وجود کو دیکھنے اور پہچاننے میں ہم اس قدر معذور ہیں تو اُس وجود کے اندر پوشیدہ کسی روح یا ذہن کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ مگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بہت کچھ جاننے اور پہچاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ہم کسی چہرے کو دیکھ کر یا کسی انسان کے ساتھ چند ملاقاتیں کر کے اُس کے اچھا یا برا ہونے کا دعویٰ کر دیتے ہیں اور اکژ اپنی رائے کو حتمی رائے سمجھتے ہیں۔ ہم اپنی تمام تر صلاحیت کو بروئے کار لا کر بھی کسی بھی انسان کا محض ظاہری چہرہ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اُس کا دوسرا چہرہ یا باطنی چہرہ جو کہ اُس انسان کا اصلی چہرہ کہا جا سکتا ہے، اُس تک رسائی ہمارے حواسِ خمسہ میں سے کسی حس کو بھی حاصل نہیں ہے۔

یہ دوسرا چہرہ کیا ہے؟ یہ وہی چہرہ ہے جو ایک ظاہری اچھے انسان کے برے اعمال کرنے پر اپنے وجود کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ ایک طبیب جس کا ظاہری چہرہ انسانیت کے درد و تکلیف کا علاج و مداوا کرنے ولے مسیحا کا ہوتا ہے اگر وہ انسانوں کی مجبوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دھوکہ دہی سے مال کمائے تو یہ اُس کا دوسرا چہرہ ہوتا ہے۔ علما اور فضلا جو کہ لوگوں کی رشد و ہدایت کا ذریعہ بننے والے رہنما کا چہرہ رکھتے ہیں اگر وہ تکبر اور حبِ جاہ و جلال و مال کی روش اختیار کر لیں تو یہ اُن کا دوسرا چہرہ ہوتا ہے۔

دوسرے چہرے کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت سیاست دان اور حکمران مہیا کرتے ہیں۔ اُن کا ظاہری چہرہ وہ ہوتا ہے جو وہ جلسوں میں اور ووٹ مانگتے وقت دکھاتے ہیں۔ پھر اقتدار حاصل ہوتے ہی اُن میں سے اکژ کا دوسرا چہرہ واضح ہونے لگتا ہے۔

ہمارے اکابر نے بھی ہمیں کسی کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتے ہوئے دوسرے چہرے کو مدِنظر رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ "کسی آدمی کی نماز اور روزے کو نہ دیکھو بلکہ اُس کی اچھائی اور ایمانداری کو دیکھو۔" عمرؓ نے کہا " مجھے تمہارے لیے اُس سے خوف نہیں، ایک وہ ایمان والا جس کا ایمان واضح ہو اوردوسرا وہ کافر جس کا کفر واضح ہو۔ بلکہ میں تمہارے لیے ڈرتا ہوں ایک ایسے منافق سے جو ایمان کا لبادو اوڑھتا ہے مگر مقصد اُس کا کچھ اور ہوتا ہے۔"

ایک مرتبہ کسی شخص نے حضرت عمرؓ کے سامنے گواہی دی تو عمرؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اس کے سچے ہونے کی ضمانت دے سکتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا "اے امیرالمومنین! میں اس کی ضمانت دیتا ہوں"۔ عمرؓ نے اُس آدمی سے پوچھا "کیا تم اس کے پڑوسی ہو؟" اُس نے کہا "نہیں"۔ پھر عمرؓ نے پوچھا "کیا تم اُس کے ساتھ رہتے ہو کہ تمہیں اُس کا کردار معلوم ہو گیا ہے؟" اُس نے کہا "نہیں"۔ پھر عمرؓ نے پوچھا "کیا تم نے اُس کے ساتھ سفر کیا ہے کیونکہ سفر اور مقام سے دوری انسان کا اصلی جوہر ظاہر کر دیتی ہے؟" اُس نے کہا "نہیں"۔ عمرؓ نے کہا "شاید تم نے اُسے مسجد میں کھڑے، بیٹھے اور عبادت کرتے دیکھا ہے؟" اُس آدمی نے کہا "جی ہاں"۔ عمرؓ نے کہا "چلے جاؤ، کیونکہ تم اُس شخص کو نہیں جانتے"۔

عمرؓ کی اس تنبیہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی انسان کے چند اچھے یا برے اعمال دیکھ کر اُس انسان کے اچھے یا برے ہونے کے متعلق حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔دیگر الفاظ میں کسی شخص کا ظاہری چہرہ دیکھ کر اُس کے دوسرے چہرے کے بارے کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔

تین مواقع ایسے ہیں جن میں کسی کے دوسرے چہرے کی کچھ جھلک دیکھی جا سکتی ہے؛
1۔ لوگوں کے ساتھ لین دین اور برتاؤ۔
2۔ پڑوسیوں کے ساتھ رویہ۔
3۔ کچھ مدت کے لیے سفر میں ساتھ رہنا۔

کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو ہم سے کسی کے "دوسرے چہرے" کی جھلک دیکھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہیں۔ اُن میں سے چند یہ ہیں؛
1۔ شخصیت پرستی
2۔ اندھی تقلید
3۔ ذاتی اغراض و مفادات
4۔ جذباتیت
5۔ کم عقلی

لہٰذہ کسی بھی انسان کے متعلق ہمیں اپنی رائے بنانے اور دینے میں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اور ویسے بھی دلوں کے بھید تو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اور پھر اصل میں اچھا انسان تو وہ ہے جو اللہ کی نظر میں اچھا ہے۔

"اور خدا کے نزدیک تم میں زیادو عزت والا وہ ہے جو زیادو پرہیز گار ہے۔ بے شک خدا سب کچھ جاننے والا اور سب سے خبردار ہے"۔ (قرآن کریم۔ سورۃ الحجرات 49 آیت 13)

ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی نے پوچھا "کون سے لوگ سب سے بہتر ہیں؟" رسولؐ اللہ نے فرمایا "وہ جو پرہیز گاری میں سب سے بڑھ کر ہیں"۔ (بخاری و مسلم)

جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
اقبال​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
بہت اچھی تحریر کسی بھی داد سے بے نیاز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی تحاریر کا آپ کی طرف سے انتظار رہتا ہے ۔ امید ہے آپ اب لکھتے رہیں گے ۔ کم از کم میں تو آپ کی مستقل قاری ہوں ۔
 
Top