ناز خیالوی ""دوست زخمی،رقیب زخمی ہے"" ناز خیالوی

دوست زخمی،رقیب زخمی ہے
آرزو کا نصیب زخمی ہے

سایہء گل میں اس کو ڈال آئیں
دوستو عندلیب زخمی ہے

چل رہی ہے ضرورتوں کی چُھری
ملک میں ہر غریب زخمی ہے

اے ادب پرورو! کوئی مرہم
عصرِ نو کا ادیب زخمی ہے

اپنی تیغِ زباں درازی سے
فِتنہ پرور خطیب زخمی ہے

عصرِ نو کے نشیب میں گر کر
طرزِ نو کا نقیب زخمی ہے

کسی مرہم کو مانتا ہی نہیں
دل عجیب و غریب زخمی ہے

نازؔ انسان وقت کی زد سے
دور ہے یا قریب، زخمی ہے
نازؔ خیالوی
 
آخری تدوین:
Top