دور تک اک سراب دیکھا ہے

دور تک اک سراب دیکھا ہے
وحشتوں کا شباب دیکھا ہے

ضو فشاں کیوں ہیں دشت کے ذرے
کیا کوئی ماہتاب دیکھا ہے

بام و در پر ہے شعلگی رقصاں
حُسن کو بے نقاب دیکھا ہے

نامہ بر اُن سے بس یہی کہنا
نیم جاں اک گلاب دیکھا ہے

اب زمیں پر قدم نہیں ٹکتے
آسماں پر عقاب دیکھا ہے

میری نظروں میں بانکپن کیسا
جاگتا ہوں کہ خواب دیکھا ہے

ذوالفقار نقوی
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب

ضو فشاں کیوں ہیں دشت کے ذرے
کیا کوئی ماہتاب دیکھا ہے

پہلے مصرعے سے مجھے لگا کہ شاید اقبال کی طرز پر ہم سائنس کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن دوسرے مصرعے سے بات واضح ہوئی کہ ایسا نہیں
 
Top