دوخبریں ایسی ہیں کہ پڑھنے،سننے اور دیکھنے والے کے ہوش اُڑ جائیں

جیلانی

محفلین
http://www.aalmiakhbar.com/index.php?mod=article&cat=safdar&article=24841
صفدر ھمٰدانی۔لندن
u3_12-1.jpg
یہ خبروں کی دنیا بھی گورکن کی دنیا ہے جو ایک دن کی کھودی ہوئی قبریں اور دفنائے ہوئے مردے اگلے دن بھول جاتا ہے اور نئے جنازوں کا منتظر رہتا ہے۔ اسی طرح خبروں کی دنیا میں بڑی سے بڑی اور جانکاہ سے جانکاہ خبر بھی اگلے روز قصہ پارینہ بن جاتی ہے اور اسکی جگہ ایک اور نئی خبر لے لیتی ہے۔

ابھی کلہر کہار کے بس حادثے میں جاں بحق ہونے پینتیس لوگوں کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا کہ جن میں اکثریت معصوم جانوں کی ہے جو سکول کے ساتھ تفریح کے بعد اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔ کس کی غلطی،کس کی کوتاہی؟ پاکستان میں پہلے کون سا کسی سانحے،حادثے یا واقعے کا پتہ چلا ہے جو اس کا پتہ چل جائے گا۔

ایک طویل عرصے بعد ابھی اس موضوع پر کچھ لکھنے کا سوچ رہا تھا کہ جنوبی وزیرستان میں ایک اور ڈرون حملہ ہو گیا۔امریکہ اور پاکستان کے ایک بار پھر بگڑتے ہوئے تعلقات کی روشنی میں یہ تازہ حملہ متعدد نئے حملوں کی نوید ہے اور بہت ممکن ہے کہ اگلے کسی دن باقی خبر تو سب یہی ہو لیکن اسمیں جنوبی وزیرستان کی جگہ شمالی وزیرستان کے الفاظ کا اضافہ ہو۔

گورکن والے اس خبروں کے کام میں مصروف سارا دن پرانی خبر کو نیچے کر دینے اور نئی خبر کو اوپر لگانے میں گزر جاتا ہے۔ چار پانچ افراد کی ہلاکت جیسے کوئی خبر ہی نہیں لگتی۔ سیلاب اور خود کش حملوں میں ہلاکتیں اب جیسے بریکنگ نیوز نہیں رہیں۔

اسی دوران نصف گھنٹے کے فرق سے دو خبریں اوپر نیچے ایسی آئی ہیں کہ ایک بار پھر ہوش اُڑ گئے ہیں۔ دونوں خبریں ہیں تو مختلف نوعیت کی لیکن شاید دل پر بوجھ ایک جیسا پڑا ہے۔ حیرت کے اعتبار سے دوسری خبر پہلے نمبر کی ہے اور انسان دشمنی کے اعتبار سے دوسری خبر پہلے نمبر کی ہے اور ایسے حالات میں صحافت کی اصطلاح میں ‘‘بینر ہیڈ لائن‘‘ کا فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے۔لیکن مجھ جیسے کاریگروں نے اسکا علاج بھی تلاش کر رکھا ہے کہ ایک پنکھ دو کاج۔ جیسے آج کی صورت حال۔۔۔۔

پانچ گھنٹے بجلی غائب اور وزیر مستعفی،عورت کو گاڑی چلانے پر پانچ کوڑے سزا

ان دونوں خبروں میں پانچ کا ہندسہ فقط حادثاتی طور پر مشترک ہے ورنہ شاید کوئی علم الاعداد کا ماہر اس اتفاق پر بھی لمبا چوڑا مقالہ تحریر کر سکتا ہے

پاکستان کے تناظر میں یہ محیر العقول خبر سن لیجئے کہ جنوبی کوریا میں توانائی کے وزیر چو جانگ یونگ نے اپنی وزارت سے اس لیئے استعفیٰ دے دیا ہے کہ 15 ستمبر کو 5 گھنٹے کے لیئے بجلی کی آنکھ مچولی ہوئی۔ سب سے لمبا وقفہ 30 منٹ کا تھا اور صرف دو ملین گھر متاثر ہوئے۔

کسی قابل فخر ماں سے جنم لینے والے اور ہمارے ملاؤں کی زبان میں اس کافر وزیر نے اسکی ذمیداری قبول کی اور استعفیٰ دے دیا۔ اب ایسے لوگوں کا راجہ اشرف اور نوید قمر سے مقابلہ کرنے میں بھی تضحیک کا پہلو نکلتا ہے۔

عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کرنے والی حکومت نے بجلی بھی چھین لی۔ آج ہی دن اسلام آباد میں 8 گھنٹے،لاہور میں 11 گھنٹے اور کراچی میں 13 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوئی ہے۔ بھلا ہمارے وزیر کیوں مستعفی ہوں؟ بھاڑ میں جائیں عوام اور جہنم میں جائے ملکی صنعت۔انکی گاڑیاں ایر کنڈیشنڈ،انکے دفتر ٹھنڈے،انکے گھر برفیلے ،حتیٰ کہ انکے کتوں اور گھوڑوں کے رہنے کی جگہوں پر بھی کولر لگے ہیں۔

دل چاہتا ہے کسی مفتی کسی مجتہد،کسی علامہ کسی آیت اللہ سے پوچھوں کہ انسانیت اور اپنے عوام کی فکر کرنے اور ضمیر بیدار رکھنے کے حوالے سے یہ غیر کلمہ گو افضل ہے یا ہمارے کلمہ گو وزیر اور صدر و وزیراعظم۔

اسلام آباد کے بھائی قمر رضا نے اس پر اچھی بات کہی ہے کہ ۔۔۔۔۔راجہ پرویز اور نوید قمر کو ملک سے بجلی غائب کرنے پر نشان امتیاز مل چکا ہے۔ یہ مریں تو شاید نشان حیدر بھی دے دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ اس خبر پر کیا تبصرہ کیا جائے اور کیا لکھا جائے کیونکہ قلم کاری میں ایک موقع ایسا بھی آتا ہے کہ کسی موضوع پر آپ کو پاس لکھنے کے لیئے اسقدر مواد ہوتا ہے کہ اسکا آغاز اور اختتام مشکل ہو جاتا ہے۔کچھ ایسی ہی صورت حال اسوقت بھی ہے۔

جنوبی کوریا کے جس وزیر نے صرف پانچ گھنٹے بجلی جانے پر استعفیٰ دیا ہے میرے خیال میں اسکا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنا چاہیئے اور لندن کے مادام تساد میں اگر بیدار ضمیروں کا کوئی سیکشن بنایا جائے تو اسمیں اس کا مجسمہ بھی لگایا جائے اور اسکے برعکس اگر مردہ اور خفتہ ضمیروں کا کوئی خاص سیکشن مدام تساد میں بنایا جائے تو اسمیں بڑے مجمسے راجہ پرویز اشرف بلکہ پوری پاکستانی وفاقی کابینہ کے ہوں جن کے ساتھ صوبائی حکومتیں کے کچھ قبل فخر ہیروں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

پنجاب کا صوبہ اور خاص طور پر لاہور ڈینگی مچھر کے ہاتھوں ادھ موا ہو گیا ہے۔سندھ میں سیلاب نے عوام کو ہلکان کر دیا ہے۔ جو پوری قوم ایک سیلاب اور ایک ڈینگی مچھر کا مقابلہ نہ کر سکے اسکے نمائیندے جب ٹی وی ٹاک شوز میں امریکہ کو للکارتے اور کسی قسم کا حملہ کرنے سے باز رکھنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں تو انااللہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔

پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے۔ چنانچہ یہاں آسانی سے بڑی مقدار میں شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔پاکستان میں سولر پینل بنانے والی ایک ممتاز کمپنی شان ٹکنالوجیز کے سولر ایکسپرٹ شاہد صدیقی کا کہنا ہے کہ ‘‘ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں لوڈ شیڈنگ کے وقت یا بجلی چلے جانے کی صورت میں یا جن علاقوں میں بجلی نہیں ہے ، گھر کا ایک کمرہ روشن کرنے کے لیے سولر پینل کے سب سے چھوٹے سسٹم کو انسٹال کرنے پر چار سے پانچ ہزار یا زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے خرچ ہو سکتے ہیں ۔ا ور اسی طرح اگر اس کے ساتھ ایک پنکھا بھی چلانا چاہیں تو یہ لاگت اسی حساب سے بڑھتی جائے گی لیکن یہ سب سرمایہ کاری صرف ایک بار کی ہوگی ا ور اس کے نتیجے میں بجلی کے بل کی جو بچت ہو گی و ہ بہت جلد آپ کا خرچہ آپ کو واپس کر دے گی۔ لیکن ضروری ہے کہ روشنی ایل ای ڈی ہو پنکھا ڈی سی کرنٹ پر چلتا ہو‘‘۔

لیکن بھلا ایسا کام پاکستان میں کیسے کیا جا سکتا ہے جسمیں عام آدمی کا فائدہ ہو؟ خیر چھوڑیں اس بحث کو اب تو شاید عوام بھی اس لوڈ شیڈنگ کے عادی ہوگئے ہیں۔ میرے ایک کرمفرما ہیں سید ساجد علی۔ آل ان ون قسم کے آدمی ہیں لیکن اسکے باوجود آجکل متعدد مصائب و مسائل کا شکار ہیں۔ انکی ملاقات ایک سنیاسی بابا سے ہوئی ایک محفل میں جسمیں انہوں نے ساجد کا ہاتھ دیکھ کر کہا کہ ‘‘بچہ بس ایک سال کی بات ہے تیرے مسائل کی‘‘۔ ساجد نے فوری طور پر خوشی کے لہجے میں پوچھا کہ کیا اسکے بعد آسانیاں پیدا ہو جائیں گی؟ سنیاسی نے جواب دیا‘‘بچہ ایک سال کے بعد تم مسائل کے عادی ہو جاؤ گے‘‘۔ پاکستان میں بجلی کی صورت حال یہی ہے اور اب اگر آپ میں سے کوئی یہ سمجھے کہ وطن عزیز میں کوئی ایسی صورت حال پر مستعفی ہو جائے گا تو اسکا تو نہیں لیکن آپکا دماغ ضرور خراب ہے۔

اب ذرا دل مضبوط کر کے دوسری خبر بھی سن لیجئے کہ ‘‘ سعودی عرب میں بنیادی انسانی حقوق کا قحط اب ایک تازہ ترین عدالتی فیصلے میں نظر آیا ہے جہاں ایک عدالت نے ملک میں عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی کی خلاف ورزی کے الزام میں شیما نامی ایک عورت کو دس کوڑے مارنے کی سزا سنائی ہے۔اس خاتون پرجولائی میں جدہ کی سڑکوں پر کار چلانے کا الزام ثابت ہوا ہے۔

سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ کے حق کے لیے مہم چلانے والی تنظیم ’وومن ٹو ڈرائیو‘ کا کہنا ہے تنظیم نے پہلے ہی اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی ہے۔یاد رہے کہ سعودی عرب کے مختلف شہروں میں متعدد عورتوں نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیئے ڈرائیونگ کی تھی۔عدالت کے اس فیصلے سے دو روز پہلے ہی سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے اعلان کیا تھا کہ 2015 کے انتخابات میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہوگی۔

کراچی کے نوجوان وکیل دوست شعیب صفدر کہتے ہیں کہ ‘‘سعودیہ والے عجیب لوگ ہیں . ووٹ کا حق تو دیتے ہیں مگر ڈرائیونگ کا حق نہیں دیتے‘‘. شعیب میاں کس نے ووٹ کا حق دے دیا۔ یہ تو دوہزار پندرہ میں پتہ چلے گا کہ کون ووٹ دینے کی اجازت دیتا ہے۔اسوقت آپ ہم جیسے خوش فہم خوشی منا لیں لیکن ہنوز دلی دور است۔

یہ سعودی عرب انسانی حقوق کے اعتبار سے جیسے اسلام کے نام پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ شاید دنیا بھر میں تو عہد غلاماں ختم ہو گیا ہو لیکن ابھی اس شاہی مملکت میں نہیں ہوا اور ساری دنیا کو انسانی حقوق کا سبق دینے والے امریکہ بہادر کو یہاں انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی اس لیئے کہ سعودیہ تیل سے مالا مال ہے اور ان انسان دشمن ظالموں کے اکاونٹ امریکی بنکوں میں ہیں۔امریکہ اور برطانیہ سے کروڑوں بلکہ اربوں ڈالر کا اسلحہ سعودیہ خریدتا ہے، ان سعودی حاکموں کی بیماریوں کا علاج بھی صرف امریکہ میں ہی ہوتا ہے۔ان کے حرم بھی اسی ملک میں رہتے ہیں اور انکی عیاشیوں کے اڈے بھی یہیں ہیں۔

سعودی عرب کی انسانی حقوق کی تنظیم نےاپنےبیان میں اس ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال پرتشویش ظاہرکرتےہوئےکہا ہے کہ سعودی خواتین، روزگار، تعلیم، سفراور ڈرائیونگ سےمحروم ہیں یہاں تک کہ اس ملک کی خواتین بلدیہ کےانتخابات میں بھی امیدوارنہيں بن سکتی ہیں اور نہ ووٹ ڈال سکتی ہیں۔
سعودی عرب کی انسانی حقوق کی تنظیم کی انجمن کےبیان میں آیاہےکہ حکومت آل سعود نےمن مانی گرفتاری ، صحافیوں اورسیاسی کارکنوں پردباؤ اورانھیں سفرکرنےسےمحروم کرکے اپنے شہریوں کومشکل حالات سےدوچارکردیاہے۔

سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ کی حمایت میں سرگرم خاتون رہ نما اور معدنی تیل کی ایک بڑی کمپنی" ارامکو" کی ایڈوائز منال الشریف نے الزام عائد کیا ہے کہ ذرائع ابلاغ نے ان کی ڈرائیونگ کے دوران گرفتاری کے واقعے کو مبالغہ آرائی کی حد تک اچھال کرخواہ مخواہ ایک طویل افسانہ چھیڑ دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی حکام کی جانب سے اسے ڈرائیونگ سے روکے جانے سے ان کی سعودی عرب کی عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دلوانے کی مساعی کمزور نہیں ہوں گی۔ منال الشریف نے ان خیالات کا اظہار" العربیہ ٹی وی" کے پروگرام "اضاآٓت" میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔منال الشریف کا کہنا تھا کہ اس نے سعودی عرب میں خود ڈرائیونگ اس وقت کی جب سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اس کےحق میں عوام نے بڑے پیمانے پر مہم چلائی۔ خود سعودی حکام کی جانب سے مجھے یہ اطلاعات ملیں کہ خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی بعض سماجی تقاضوں کے تحت لگائی گئی ہے اس کا اسلام کے شرعی اصولوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

ایک سوال کےجواب میں اُنہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں ٹریفک کے جدید نظام میں خواتین کی ڈرائیونگ کی کوئی مُمانعت نہیں۔ انہوں نے بعض دیگر خواتین کے ساتھ مل کر 17 جون کو کھلے عام ڈرائیونگ کرنے کی تاریخ اس لیے دی تھی تاکہ ملکی سطح پراس کی اہمیت اُجاگر ہو۔ ہم نے ملک میں ان خواتین کو ڈرائیونگ کے میدان میں آنے کی دعوت دی تھی جن کے پاس کسی بھی دوسرے ملک کے ڈرائیونگ لائسنس موجود ہیں۔ کیونکہ سعودی عرب میں عورتوں کو ڈرائیونگ کے لائسنس جاری نہیں کیے جاتے۔

منال الشریف نے کہا کہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کے لیے مُلک کی افتاء کونسل نے کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ آج سے بیس سال پیشتر صرف ایک عالم دین نے ایک فتویٰ دیا تھا جبکہ افتاء کونسل کے رکن الشیخ علامہ محمد بن جبیر نے واضح کر دیا ہے کہ کونسل کی طرف سے ان مولانا صاحب کے فتوے کو حمایت حاصل نہیں۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈرائیونگ کے قابل خواتین کو ڈرائیور کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ کئی خواتین بر وقت ڈرائیور میسر نہ ہونے کے باعث اپنے دفاتر میں وقت پر نہیں پہنچ پاتیں جبکہ بہت سی خواتین کو اپنی نصف تنخواہ اپنے ڈرائیور کو دینی پڑتی ہے۔

اکتوبر دو ہزار نو میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے جولائی میں بقول انکے اخلاق باختہ پروگرام نشر کرنے والے سعودی ملکیتی لبنانی ٹی وی کے لئے کام کرنے کے الزام میں ایک صحافیہ یمی کو بھی ساٹھ کوڑے مارنے کی سزا سنائی .یمی کا کہنا تھا کہ ''ان کو سنائی گئی سزا دراصل ان کے ذریعے تمام صحافیوں کے لئے سزا ہے''.

سعودی صحافیہ نے بتایا کہ ''سعودی حکام کا کہنا ہے کہ چینل غیر قانونی تھا لیکن چند ہفتے قبل سعودی وزیر اطلاعات بہ ذات خود اس چینل پر نمودار ہوئے تھے''.

سعودی ائیر لائنز کے بتیس سالہ ملازم مازن عبدالجواد کو جولائی میں جدہ میں حراست لیا گیا تھا. انہوں نے ٹی وی سکرین پر انتہائی بولڈ انداز میں جنسی استحصال کے اپنے قصے بیان کئے تھے.سات اکتوبر کو ایک سعودی عدالت نے مازن عبدالجواد کو برائی پھیلانے اور نکاح کے بغیر جنسی تعلقات کا اعتراف کرنے کے جرم ایک ہزار کوڑے مارنے اور پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی.

ایک ہزار کوڑے،جی ہاں ایک ہزار کوڑے۔

اب اللہ کے گھر کو گروی رکھنے والے ان قابض مجاوروں سے کون پوچھے کہ گاڑی چلانے والی خاتون کو دس کوڑے سزا، نکاح کے بغیر جنسی تعلقات کا اعتراف کرنے کے جرم ایک ہزار کوڑے ۔۔۔لیکن اپنے ہی ملک میں کام کرنے کے لیئے آنے والی غیر ملکی خواتین کی عزتیں لوٹنے والے سعودیوں کو کوئی سزا نہیں، کام کے لیئے بیرونی ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کو کفیل بن کر لوٹنے والوں کے لیئے کوئی قانون نہیں،امریکہ اور برطانیہ کے جوا خانوں میں ایک ایک رات میں لاکھوں ڈالر ہار جانے والے شاہی خاندان کے شہزادوں کے لیئے کوئی سزا نہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
جیلانی صاحب اس خبر کے ماخذ کا ربط دینا چاہیے تھا یا پھر اسے “حقوق محفوظ“ کی وجہ سے حذف کرنا پڑے گا۔
 
Top