چاند کی رویت کی ذمہ داری رویت ہلا ل کمیٹی کی ہے اور وہی ادا کرے گی: مفتی منیب

محمد سعد

محفلین
ہمارا بھی روزہ تھا بھئی۔ جہاں تک مجھے علم ہے، ڈیرہ اسماعیل خان بھی پختونخواہ میں آتا ہے۔ آبادی کا اچھا خاصا حصہ پشتون ہے بھی۔ :rolleyes:
بلاوجہ ہی ایک پلپلے آدمی کی ضد کو نسلی تعصب کا رنگ دینے والوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔
 

آصف اثر

معطل
بندہ پورے صوبے میں تو گھوم نہیں سکتا البتہ جتنی علاقائی اور صوبائی خبریں پڑھ لی جاتی ہے، اس حد تک ہی دیکھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے ہمارے ضلع میں صرف اس قبیلے نے عید منائی، جس کی آمدورفت پشاور کی سمت زیادہ ہے۔
اور کوئی نسلی تعصب شریعت میں جائز ہی نہیں تو کسی کو خوف زدہ یا بدگمان ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔
 
آخری تدوین:

فاخر

محفلین
ایک اور بات کہ اس لڑی کا عنوان کلک بیٹ ہے۔ مفتی منیب نے وڈیو میں یہ بات سرے سے کی ہی نہیں کہ ہم ٹیکنالوجی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔

آپ نے چور پکڑ ہی لیا !! جزاک اللہ ! جاسم محمد نے وہ کیا جو آج تک ان کے بڑے کرتے ہوئے آئے ہیں ۔اسی افترا پردازی پر ان کی دنیا قائم ہے ۔ اس طرح کی من گھڑت باتیں کرنے سے قبل ایک مرتبہ مفتی منیب الرحمٰن کا ویڈیو دیکھ لینا چاہیے پھر فتنہ انگیزی کی جانی چاہیے ۔ اور ان کو ہلال عید سے کیا مطلب؟ ان کو اس طرح کے مسئلوں سے کیا لینا دینا؟ ان کی خوشی کی تقریب الگ ہماری الگ ۔ شایدانہیں ’’خبریں‘‘ پوسٹ کرنے کا شوق ہے ۔ مبارک ہو ؛لیکن پوسٹ کرنے سے قبل اس کی حقیقت کا بھی پتہ لگالینا چا ہیے تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
۔۔۔۔۔اور یوں فواد چوہدری کے کیلینڈر کی کہانی ختم ہوئی اور سب حسب معمول دو عیدیں منانے لگے۔
کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ فواد چوہدری نے باقاعدہ سائنسی تجربہ سے یہ دنیا میں ثابت کیا ہے کہ ملک میں تبدیلی نام کی کوئی بھی چیز لانا عملا ناممکن کام ہے۔
 

آصف اثر

معطل
کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ فواد چوہدری نے باقاعدہ سائنسی تجربہ سے یہ دنیا میں ثابت کیا ہے کہ ملک میں تبدیلی نام کی کوئی بھی چیز لانا عملا ناممکن کام ہے۔
یار کم از کم آپ تو تبدیلی کا ایک وعدہ کرلیجیے کہ آئندہ مخالفین کے خلاف پھیلائے جانے والے من گھڑت خبروں کی تحقیق کرلیا کریں گے۔ بولو، منظور ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
یار کم از کم آپ تو تبدیلی کا ایک وعدہ کرلیجیے کہ آئندہ مخالفین کے خلاف پھیلائے جانے والے من گھڑت خبروں کی تحقیق کرلیا کریں گے۔ بولو، منظور ہے؟
یہ سب تو ہوتا رہے گا۔ پہلے شیطان کا مسئلہ تو حل کریں۔ بیچارے کو بھی پاکستانیوں نے کنفیوز کرکے رکھ دیا ہے۔
9bc6f590-6885-4c3e-af17-a193e86540ee.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
کیا ’’ریاست مدینہ ‘‘میں ایسی عید ہوتی تھی ؟
05/06/2019 سلیم صافی



میں منگل کی صبح (4جون ) کو یہ سطور سپرد قلم کررہا ہوں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے رات کو شوال کے چاند کی رویت سے متعلق درجنوں شرعی شہادتوں کا دعویٰ کرکے آج عید منانے کا اعلان کیا ہے۔ ماضی میں ان کے اور دیگر مقامی علما کے اعلان کے مطابق خیبر پختونخوا کے بیشتر اور قبائلی اضلاع کے پاکستانی عید مناتے تھے لیکن سوات، دیر اور ہزارہ ڈویژن کے لوگ عموماً مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر عمل کرتے ہیں۔

تاہم اب کی بار وزیراعظم عمران خان کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ محمود خان (جن کا تعلق سوات سے ہے) نے بھی عوام یا پھر مقامی علما کے دباو میں آکر سرکاری سطح پر آج عید منانے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف ان ہی عمران خان صاحب کی کابینہ کے رکن اور مذہبی امور کے وزیر پیرزادہ نورالحق قادری صاحب کی وزارت کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج (4جون) طلب کیا گیا ہے۔

تیسری طرف ان ہی نورالحق قادری صاحب کی مسجد واقع لنڈی کوتل میں روزہ مفتی منیب الرحمان کے اعلان سے ایک روز قبل رکھا گیا اور آج وہاں عید بھی ایک روز قبل منائی جا رہی ہے۔ گویا وزیر صاحب نے باقی پاکستان کے لئے اپنی وزارت کے خرچے پر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج طلب کیا ہے لیکن خود اس کے فیصلے کا انتظار کریں گے اور نہ اس پر عمل۔ معاملہ یہاں تک محدود نہیں بلکہ ریاست مدینہ کے نام لیوا عمران خان صاحب کی کابینہ کے ایک اور رکن ”مفتی“ فواد چوہدری صاحب نے سائنسی بنیادوں پر فتویٰ جاری کیا ہے کہ 3جون کو شوال کا چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں لیکن صرف مفتی شہاب الدین پوپلزئی جیسے مفتیان کرام نے نہیں بلکہ خود عمران خان کی حکومت کے خیبر پختونخوا کے حاکم محمود خان نے مفتی فواد چوہدری کے فتوے کی دھجیاں بکھیر دی۔

لیکن بات صرف یہاں آکر نہیں رکتی بلکہ تماشہ یہ بھی ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے سرکاری طور پر روزہ رکھنے میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی اسی طرح تقلید کی تھی جس طرح کہ ہر سال صوبائی حکومتیں کیا کرتی تھیں۔ یوں سرکار کی اتباع کرنے والے سوات، دیر اور ہزارہ ڈویژن یا پھر پورے پختونخوا میں تعینات دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے سرکاری اور فوجی اہلکاروں نے مرکزی کمیٹی کے اعلان کے مطابق روزہ رکھا تھا۔

اب ان لوگوں نے صرف اٹھائیس روزے رکھے ہیں لیکن صوبائی حکومت نے ان پر عید مسلط کردی۔ اسی طرح پہلے وسطی اضلاع کے لوگ کنفیوژن کے شکار رہتے تھے لیکن اب کی بار تبدیلی سرکار نے ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن کے لوگوں کو بھی مخمصے میں ڈال دیاہے وہ اگر صوبائی حکومت کی اتباع کرتے ہیں تو ان کے روزے اٹھائیس ہوں گے اور اگر صوبائی حکومت کی اطاعت نہیں کرتے تو ریاست اور حکومت کے فیصلے سے بغاوت تصور ہوگی۔

ادھر مفتی منیب الرحمان صاحب کا فتویٰ یہ ہے کہ صرف وہ ادارہ فیصلے کا مجاز ہے کہ جس کو ریاست کی طرف سے ذمہ داری تفویض کی گئی ہو۔ اب خیبر پختونخوا کے لوگوں کے لئے یہ شرعی مسئلہ سامنے آگیا ہے کہ ان کے لئے مرکزی حکومت کی تعمیل لازم ہے یا پھر صوبائی حکومت کی کیونکہ دونوں جگہ ”ریاست مدینہ“ کے نام لیوا عمران خان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ مفتی منیب الرحمان صاحب اور مفتی پوپلزئی صاحب تو ہم جیسے گناہگاروں سے متعلق فتویٰ دینے میں دیر نہیں لگاتے لیکن اب ہم بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ آج دونوں ایک ایک فتویٰ عنایت کر کے اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے مسلمانوں کی رہنمائی ضرور کریں گے۔

ہم تو وہ مظلوم ہیں جو ہر سال ان دو مفتیوں یا پھر دونوں کی اس لڑائی میں روزے کے آغاز پر یا پھر عید کے دنوں میں پس جاتے ہیں لیکن اب کے بار نئے پاکستان والوں نے ہمارا پورا روزہ اس بحث کی نذر کردیا۔ اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ وزارت مذہبی امور اس تنازعے کا حل نکالنے کے لئے قدم اٹھاتی لیکن چونکہ نیا پاکستان ہے جس میں ہر کوئی اپنا کام تو نہیں کرتا لیکن دوسروں کے کام کرنے میں لگا رہتا ہے.

اس لئے رمضان کے آغاز میں پیرزادہ نورالحق قادری قبائلی اضلاع کے الیکشن ملتوی کرانے کے لئے درپردہ سازشوں اور جوڑ توڑ میں مصروف رہے تو سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری صاحب نے رویت ہلال کا تنازعہ حل کرنے کے لئے ہجری کیلنڈر تیار کرنے کا بیڑہ اٹھالیا جس کی وجہ سے مفتی منیب الرحمان صاحب کو اپنا منصب خطرے میں نظرآیا اور یوں بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب اگر فواد چوہدری غلط کام کررہے تھے تو وزیر مذہبی امور کو وزیراعظم سے کہہ کر ان کو منع کردینا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ کیلنڈر کی تیاری کے بعد فواد چوہدری نے اسے کابینہ میں بھی پیش کیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی بھجوا دیا۔

کونسل کے چیرمین قبلہ آیاز صاحب اگرچہ نہایت عالم فاضل اور معتدل سوچ رکھنے والے اسکالر ہیں لیکن شاید انہوں نے مفتی پوپلزئی اور مفتی منیب الرحمان کی ناراضی سے بچنے کے لئے عذر پیش کرکے کونسل کا اجلاس عید سے پہلے طلب ہی نہیں کیا حالانکہ عید کے بعد اس کی ضرورت ہوگی اور نہ فائدہ۔

درمیان میں دو روز قبل خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات نے یہ تجویز بھی دی کہ مفتی منیب الرحمان کی جگہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو کمیٹی کا چیرمین بنا دینا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کس سے مطالبہ کررہے تھے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ کمیٹی کا چیرمین بدلنے کے لئے انہی کے جماعت کے وزیر مذہبی امور کے ایک سیکشن آفیسر کا ایک نوٹیفیکیشن درکار ہے۔ اس پر ناراض ہو کر مفتی منیب الرحمان صاحب نے یہ جواب دیا کہ پختونخوا حکومت بی آر ٹی منصوبہ مفتی پوپلزئی کے حوالے کردیں۔

اب ایک طرف مفتی صاحب تو اپنے جیسے مفتی اور عالم دین کے بارے میں یہ زبان استعمال کرتے ہیں لیکن اگر ہم ان سے التجا کریں کہ انیس سال تک یہ خدمت انجام دینے کے بعد اب وہ ریٹائر ہوکر یہ کام کسی اور عالم دین کے حوالے کردیں تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔

نئے پاکستان کی روایت کے مطابق میں انتظار کررہا ہوں کہ فردوس عاشق اعوان کا ابھی تک یہ بیان کیوں نہیں آیا کہ رویت ہلال کا مسئلہ اس لئے حل نہیں ہورہا کیونکہ نواز شریف اور زرداری نے خزانے کو لوٹا ہے لیکن اس ایک معاملے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ”ریاست مدینہ“ کی نام لیوا حکومت اگر ایک مذہبی معاملے کے ساتھ یہ سلوک کررہی ہے تو دیگر معاملات سے متعلق اس کا سلوک کیا ہوگا؟ کسی اور سے نہیں بلکہ محترمہ خاتون اول اور پیرزرادہ نورالحق قادری صاحب سے میرا عاجزانہ سوال ہے کہ کیا ”ریاست مدینہ“ میں مذہبی معاملات کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے ؟

بشکریہ روزنامہ جنگ
 
دو عیدوں کے دو پہلو ہیں۔
پہلا پہلو یہ کہ سارے مسلمن متفق ہیں کہ مسلمان متفق نہیں ہو سکتے
دوسرا پہلو یہ کہ ملاء کو اپنا فطرانہ، زکواۃ ، خیرات، صدقات عید سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔ ملاء صرف اور صرف پیسے کے چکر میں ہے۔
 
یہ سب تو ہوتا رہے گا۔ پہلے شیطان کا مسئلہ تو حل کریں۔ بیچارے کو بھی پاکستانیوں نے کنفیوز کرکے رکھ دیا ہے۔
9bc6f590-6885-4c3e-af17-a193e86540ee.jpg

رمضان میں شیطانوں کو بند کردیا جاتا ہے، ان کا کھانا پینا بند، مزے اڑانا بند، فرشتے کھلے پھرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، مزے کرتے ہیں ۔۔۔ کچھ کنفییوژن ہے ؟؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
رویتِ ہلال کا بحران اور فواد چودھری کی توپیں
سید جواد حسین رضوی ہفتہ 8 جون 2019
1694858-ruyatehilalx-1559891545-561-640x480.jpg

رویتِ ہلال کے معاملے میں فواد چودھری نے مفتی پوپلزئی صاحب کی جگہ مفتی منیب اور رویتِ ہلال کمیٹی کو بلاوجہ نشانے پر رکھ لیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سرکاری طور پر مختلف قمری مہینوں کی رویت کی ذمہ داری مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر ہے جو 1974 سے یہ کام احسن طریقے سے نباہ رہی ہے۔ تمام مکاتب فکر کے جید علماء کی نمائندگی اس کمیٹی میں موجود ہے؛ اور پوری قوم ان کے فیصلوں پر اعتماد کرتی ہے۔ محکمۂ موسمیات اور وفاقی خلائی تحقیقی ادارے سپارکو کی معاونت و مشاورت بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ہمراہ ہوتی ہے اور تمام تر فیصلوں میں سائنسی محاسبات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

جب اس کمیٹی کی ذیلی و علاقائی کمیٹیوں کو رویت کی شہادتیں موصول ہوتی ہیں تو انہیں مختلف پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے۔ جن جگہوں پر رویت ممکن نہیں ہوتی یا جہاں رویت کا امکان بہت کم ہوتا ہے، ان کی شہادتوں کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی۔ یعنی صرف انہی علاقوں کی رویت پر عمل نہیں کیا جاتا جب تک اس کی تصدیق دوسرے علاقوں سے نہیں ہوتی۔

رویت ہلال کمیٹی ان گواہی دینے والوں سے ملاقات کرتی ہے یا ان سے ٹیلی فون پر بات کرتی ہے۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ چاند انہوں نے کس سمت دیکھا، چاند کا سائز کیا تھا، اور وہ افق سے کتنے زاویئے پر تھا، اس کی گولائی کا رخ کس سمت تھا۔ ان سوالات سے گواہی کی صداقت کا علم ہو جاتا ہے کیونکہ سائنسی محاسبات کی رو سے چاند کا افق سے زاویہ اور اس کی سمت مشخّص ہوتے ہیں۔ ان گواہیوں کو پرکھنے کے بعد مرکزی رویت ہلال کمیٹی فیصلہ کرتی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے صوبۂ پختونخوا میں مسجد قاسم خان ہے جو ہمیشہ اس معاملے میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے برخلاف فیصلے صادر کرتی ہے، جس کی سربراہی مفتی شہاب الدین پوپلزئی کرتے ہیں۔ رویت ہلال کے مسئلے پر مسجد قاسم خان کو کسی بھی وفاقی سائنسی ادارے کی معاونت و مشاورت حاصل نہیں؛ اور ان کے فیصلوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ لوگ جدید فلکیات کا علم نہیں رکھتے۔ گواہیوں کو پرکھنے کا معیار جو مرکزی رویت ہلال کمیٹی اپناتی ہے، جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا، مسجد قاسم علی خان کے کرتا دھرتا اسے اپنانے سے قاصر ہیں۔ ان باتوں کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسجد قاسم علی خان کا طریقہ غیر علمی اور غیر سائنسی ہے۔

3 جون کو شوال المکرّم کا ہلال سائنسی لحاظ سے پورے پاکستان میں قابل رویت نہیں تھا لیکن انہوں نے چاند کو ڈھونڈ نکالا اور 4 جون کو خیبر پختونخوا کے اکثر علاقوں میں عید منائی گئی۔

راقم اپنے بزرگوں سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے سے قبل ہمارے گاؤں میں (جو کوہ قراقرم کی کسی وادی میں واقع ہے) چاند دیکھنے کےلیے پورے گاؤں والے جمع ہوا کرتے تھے۔ اس علاقے میں نقل و حمل بہت محدود اور دشوار گزار ہوا کرتی تھی اور چاند کی اطلاع زیادہ سے زیادہ وادیوں تک ہی محدود ہوتی تھی۔

کسی سال عید کا چاند دیکھنے کےلیے گاؤں والے ایک بلندی پر جمع تھے۔ سب ہلالِ عید دیکھنے کی کوششوں میں مگن تھے لیکن کسی کو بھی چاند نظر نہ آیا۔ اچانک ایک ضعیف و نحیف بوڑھے نے بلند آواز سے درود پڑھنا شروع کیا اور کہا کہ چاند نظر آگیا۔ سب نے اس بزرگ کی نظروں کی سمت دیکھا لیکن کسی کو بھی چاند نظر نہ آیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ چاند کدھر ہے؟ بزرگ نے اسی سمت اشارہ کیا جس سمت وہ دیکھ رہے تھے۔ سب نے دیدے پھاڑ پھاڑ کر اس سمت دیکھا لیکن چاند نظر نہ آیا۔ جب غور کیا تو پتا چلا کہ بڑھاپے کی وجہ سے بزرگ کی بھنویں آنکھوں پر گرچکی تھیں جس میں سے کوئی سفید بال ان کی آنکھوں کے سامنے آیا ہوا تھا۔ بزرگ کی بصارت نے اس کو چاند کی طرح دیکھا اور یوں ان کو چاند نظر آ گیا۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسجد قاسم خان والی شہادتیں بھی شاید اسی قسم کی ہوتی ہوں گی اگر ہم ان کے بارے میں حسن ظن سے کام لیں، وگر نہ کسی صورت بھی 3 جون کی شب چاند کی رویت ممکن نہ تھی۔

اس سال فواد چودھری صاحب کی انٹری ہوتی ہے جو کچھ عرصہ قبل اتفاق سے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بن گئے تھے۔ انہوں نے رویت ہلال کے مسئلے کو حل کرنے کےلیے کیلنڈر بنانے کی تجویز دے دی۔ ان کے کیلنڈر کے مطابق 5 جون کو عیدالفطر ہونا قرار پائی جو سائنسی محاسبات کی رو سے بالکل درست ہے۔ لیکن ساتھ ہی مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر انہوں نے اعتراضات کی بوچھاڑ کردی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور مولوی پرانی دوربینوں سے رویت کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مسجد قاسم علی خان کے غیر علمی اور غیر سائنسی طریقۂ کار پر تنقید کی جاتی اور انہیں سرکاری فیصلوں کے برخلاف جانے سے روکا جاتا، میڈیا پر قدغن لگائی جاتی کہ وہ ان کو بالکل بھی کوریج نہ دے تاکہ قوم یکسوئی سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں پر عمل کرے۔ لیکن چودھری صاحب نے اپنی تمام تر توپوں کا رخ مفتی منیب الرّحمان کی طرف کردیا حالانکہ رویت ہلال کمیٹی پہلے سے ہی سائنسی طریقے پر عمل کررہی ہے۔ علماء کرام کی توہین و تضحیک اس پر مستزاد تھی جو قابل مذمّت ہے۔

یہ صورتحال ایسی تھی جیسے ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارے سے تصادم اختیار کررہا ہے۔ اس کی روک تھام کے بجائے امسال خیبر پختونخوا کی حکومت نے مفتی پوپلزئی پر اعتماد کرتے ہوئے 4 جون کو عید کا اعلان کر دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ تحریک انصاف کے مختلف حکومتی ارکان کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے اور ان کی دلچسپی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے تک محدود ہے، جس کا واضح ثبوت خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی اور فواد چودھری کے درمیان لفظی جنگ ہے۔ شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے اس فیصلے سے قبل وزیراعظم عمران خان کو اعتماد میں لیا تھا۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ وزیراعظم نے ایک صوبائی حکومت کو اس اہم مسئلے پر سرکاری حکومت کے برخلاف جانے کی اجازت کیسے دی؟

فواد چودھری صاحب چاند کے مسئلے کو غیر منصفانہ طریقے سے حل کرنے نکلے تھے لیکن انہوں نے بحران میں مزید اضافہ کردیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے، ان کے فیصلوں کو سائنسی بنیادوں پر مزید استوار کرنے کےلیے سفارشات دیتے اور مسجد قاسم خان جیسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے۔ لیکن یہاں اس کے برعکس عمل کیا گيا جس کا خمیازہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے مسجد قاسم خان کو سند بخشنے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ ریاست کے مختلف اداروں میں ہم آہنگی کو یقینی بنائیں اور ایسے عناصر کو لگام دیں جو فساد کا باعث ہیں۔

راقم سمجھتا ہے کہ پاکستان میں رویت ہلال کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، تمام پاکستانی اپنی تمام تر سیاسی و مسلکی وابستگیوں کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلانات پر عمل کرتے تھے۔ مفتی پوپلزئی جیسے چند عناصر کو نظرانداز کرنے کی ضرورت تھی لیکن فواد چودھری کی اینٹری نے معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top