دنیا کا مہنگا درخت

پپو

محفلین
وسطی لندن میں ایک پیڑ کی قیمت ساڑھے سات لاکھ پاؤنڈ لگائی گئی ہے یعنی تقریباً آٹھ کروڑ پاکستانی روپے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پیڑ کی قیمت کا اندازہ کس بنیاد پر لگایا جاسکتا ہے؟ لندن میں ایک نئی سکیم شروع کی گئی ہے جس کے تحت پیڑوں کی قیمت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ وسطی لندن کے میفیئر علاقے میں کھڑے اس پیڑ کا تنا چھ فٹ چوڑا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ برطانیہ کا سب سےمہنگا پیڑ ہے۔

اس طرح کے بڑے اور پرانے پیڑوں کو اکثر قریبی عمارتوں کو ہونے والے نقصان کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی بے وجہ بھی لیکن نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پیڑ کو جڑ سےنکالنا پڑتا ہے تاکہ دور دور تک پھیلی ہوئی اس کی جڑیں عمارتوں کو مزید نقصان نہ پہنچائیں۔

ماہرین کو توقع ہےکہ اس نئے نظام کے تحت صرف شبہہ کی بنیاد پر مہنگے پیڑوں کا صفایہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔


قیمت لگانےکا فائدہ
اگر پیڑ کاٹنے کے الزام میں کسی ڈیولپر کو عدالت میں لیجایا جاتا ہے تو اس پر پیڑ کی قیمت کے لحاظ سے جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ یا اگر کوئی نئی عمارت بنانے کے لیے پیڑ کاٹنے پڑتے ہیں تو ڈیولپر ان کی قیمت مقامی کمیونٹی کو بطور عطیہ دے سکتا



تو پیڑ کی قیمت کیسے طے کی جاتی ہے؟ سب سے اہم پہلو اس کا سائز ہوتا ہے، یعنی تنا کتنا چوڑا اور درخت کتنا اونچا ہے۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ آس پاس کتنے لوگ رہتے ہیں (یعنی پیڑ کی خوبصورتی سے کتنے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں) اس کی کتنی عمر باقی ہے، کیا اس پر پھول آتے ہیں یا گندگی پھیلتی ہے اور کیا اس کی کوئی تاریخی اہمیت ہے؟ ( مثال کے طور پر کیا اسے کسی اہم شخصیت نے لگایا تھا)

اس طریقے کی شروعات لندن میں ہوئی تھی لیکن اسے اب دوسرے علاقوں میں بھی اختیار کیا جارہا ہے۔

پیڑوں کی دیکھ بھال کرنے والی ٹری کونسل سے وابستہ جان سٹکوکس کے مطابق اس سے قبل بھی پیڑوں کی قیمت لگانے کا ایک طریقہ تھا لیکن اس میں صرف پیڑ کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جاتا تھا کہ اس کی قیمت کیا ہونی چاہیے۔ یہ نیا طریقہ زیادہ جامع ہے۔

مسٹر سٹوکس کے مطابق بنیادی مقصد یہ ہے کہ زیادہ پیڑوں کو بچایا جاسکے۔

پیڑوں کی قیمت لگانے سے لوگوں کے رویہ میں تبدیلی آتی ہے۔ ’ اگر ڈیولپر پیسے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں تو مقامی لوگوں کے اثاثوں کی قیمت بھی اسی کرنسی میں لگائی جانی چاہیے۔‘

لہذا اگر پیڑ کاٹنے کے الزام میں کسی ڈیولپر کو عدالت میں لیجایا جاتا ہے تو اس پر پیڑ کی قیمت کے لحاظ سے جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ یا اگر کوئی نئی عمارت بنانے کے لیے پیڑ کاٹنے پڑتے ہیں تو ڈیولپر ان کی قیمت مقامی کمیونٹی کو بطور عطیہ دے سکتا ہے۔

لندن میں اکثر بڑے پیڑ اس خطرے کے پیش نظر کاٹ دیے جاتے ہیں کہ ان کی جڑیں دور دور تک پھیل جانے کی وجہ سے زمین بیٹھ سکتی ہے۔ اس نئے نطام کے تحت مقامی کونسلوں کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ پیڑ کو بچانے کے لیے جدوجہد کی جائے یا نہیں۔

یہ طریقہ کرس نیلن نے وضع کیا ہے جو لندن کے قریب واقع ایپنگ فاریسٹ میں کام کرتے ہیں۔

’ یہ میرا شوق ہے۔ میں نے پیڑوں کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ پہلے پیڑ لگائے جاتے ہیں اور تین سال میں انہیں اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ میں اس صورتحال میں تبدیلی لانا چاہتا ہوں‘۔
یہ خبر بی بی سی میں شائع ہوئی بشکریہ bbc.urdu.com. pk
 

عزیزامین

محفلین
بے نام درخت

وسطی لندن میں ایک پیڑ کی قیمت ساڑھے سات لاکھ پاؤنڈ لگائی گئی ہے یعنی تقریباً آٹھ کروڑ پاکستانی روپے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پیڑ کی قیمت کا اندازہ کس بنیاد پر لگایا جاسکتا ہے؟ لندن میں ایک نئی سکیم شروع کی گئی ہے جس کے تحت پیڑوں کی قیمت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ وسطی لندن کے میفیئر علاقے میں کھڑے اس پیڑ کا تنا چھ فٹ چوڑا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ برطانیہ کا سب سےمہنگا پیڑ ہے۔

اس طرح کے بڑے اور پرانے پیڑوں کو اکثر قریبی عمارتوں کو ہونے والے نقصان کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی بے وجہ بھی لیکن نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پیڑ کو جڑ سےنکالنا پڑتا ہے تاکہ دور دور تک پھیلی ہوئی اس کی جڑیں عمارتوں کو مزید نقصان نہ پہنچائیں۔

ماہرین کو توقع ہےکہ اس نئے نظام کے تحت صرف شبہہ کی بنیاد پر مہنگے پیڑوں کا صفایہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔


قیمت لگانےکا فائدہ
اگر پیڑ کاٹنے کے الزام میں کسی ڈیولپر کو عدالت میں لیجایا جاتا ہے تو اس پر پیڑ کی قیمت کے لحاظ سے جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ یا اگر کوئی نئی عمارت بنانے کے لیے پیڑ کاٹنے پڑتے ہیں تو ڈیولپر ان کی قیمت مقامی کمیونٹی کو بطور عطیہ دے سکتا



تو پیڑ کی قیمت کیسے طے کی جاتی ہے؟ سب سے اہم پہلو اس کا سائز ہوتا ہے، یعنی تنا کتنا چوڑا اور درخت کتنا اونچا ہے۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ آس پاس کتنے لوگ رہتے ہیں (یعنی پیڑ کی خوبصورتی سے کتنے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں) اس کی کتنی عمر باقی ہے، کیا اس پر پھول آتے ہیں یا گندگی پھیلتی ہے اور کیا اس کی کوئی تاریخی اہمیت ہے؟ ( مثال کے طور پر کیا اسے کسی اہم شخصیت نے لگایا تھا)

اس طریقے کی شروعات لندن میں ہوئی تھی لیکن اسے اب دوسرے علاقوں میں بھی اختیار کیا جارہا ہے۔

پیڑوں کی دیکھ بھال کرنے والی ٹری کونسل سے وابستہ جان سٹکوکس کے مطابق اس سے قبل بھی پیڑوں کی قیمت لگانے کا ایک طریقہ تھا لیکن اس میں صرف پیڑ کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جاتا تھا کہ اس کی قیمت کیا ہونی چاہیے۔ یہ نیا طریقہ زیادہ جامع ہے۔

مسٹر سٹوکس کے مطابق بنیادی مقصد یہ ہے کہ زیادہ پیڑوں کو بچایا جاسکے۔

پیڑوں کی قیمت لگانے سے لوگوں کے رویہ میں تبدیلی آتی ہے۔ ’ اگر ڈیولپر پیسے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں تو مقامی لوگوں کے اثاثوں کی قیمت بھی اسی کرنسی میں لگائی جانی چاہیے۔‘

لہذا اگر پیڑ کاٹنے کے الزام میں کسی ڈیولپر کو عدالت میں لیجایا جاتا ہے تو اس پر پیڑ کی قیمت کے لحاظ سے جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ یا اگر کوئی نئی عمارت بنانے کے لیے پیڑ کاٹنے پڑتے ہیں تو ڈیولپر ان کی قیمت مقامی کمیونٹی کو بطور عطیہ دے سکتا ہے۔

لندن میں اکثر بڑے پیڑ اس خطرے کے پیش نظر کاٹ دیے جاتے ہیں کہ ان کی جڑیں دور دور تک پھیل جانے کی وجہ سے زمین بیٹھ سکتی ہے۔ اس نئے نطام کے تحت مقامی کونسلوں کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ پیڑ کو بچانے کے لیے جدوجہد کی جائے یا نہیں۔

یہ طریقہ کرس نیلن نے وضع کیا ہے جو لندن کے قریب واقع ایپنگ فاریسٹ میں کام کرتے ہیں۔

’ یہ میرا شوق ہے۔ میں نے پیڑوں کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ پہلے پیڑ لگائے جاتے ہیں اور تین سال میں انہیں اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ میں اس صورتحال میں تبدیلی لانا چاہتا ہوں‘۔
یہ خبر بی بی سی میں شائع ہوئی بشکریہ Bbc.urdu.com. Pk
۔ نام پھر نھیں بتایا؟
 
Top