دنیا کا بھوکا مستقبل

flood-child-ap6701.jpg

سیلاب سے متاثرہ بچے ایک امدادی کیمپ میں کھانا کھارہے ہیں۔ فائل تصویر اے پی

لندن: دنیا بھر میں بچوں کی 25 فیصد تعداد کی اسکولوں میں خراب کارکردگی کی وجہ غذائیت کی کمی ( میلنیوٹریشن) ہے۔ اس بات کا انکشاف منگل کے روز برطانوی تنظیم ‘ سیو دی چلڈرن’ نے کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غذائیت والی خوراک نہ کھانے سے بچوں میں پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے۔
برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ( بی بی سی) نے ایک طویل مطالعے کے بعد جاری رپورٹ میں کہا ہے کہ خوراک اور غذائیت کی کمی کے شکار بچے کچھ اس طرح متاثر ہوتے ہیں کہ بعد میں ان کے نقصانات کا ازالہ بھی نہیں ہوسکتا ۔ ایک جانب تو وہ جسمانی طور پر چھوٹے اور پستہ قد رہ جاتے ہیں اور دوسری جانب ان کا دماغ مکمل طور پر فروغ نہیں ہوپاتا۔
مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ غذائیت کی کمی میں مبتلا بچوں کا مسئلہ نہایت اہم ہے اور جی ایٹ کانفرنس میں اس پر ترجیحی بنیادوں پر غور ہونا چاہئے۔ یہ کانفرنس اگلے ماہ شمالی آئرلینڈ میں ہورہی ہے جہاں آٹھ بڑے صنعتی ممالک کے سربراہان شرکت کریں گے۔
‘ فوڈ فار تھاٹ’ نامی یہ رپورٹ انڈیا، پیرو اور ویت نام کے ہزاروں بچوں کے مطالعے کے بعد جاری کی گئی ہے۔
مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ آٹھ سال کی عمر تک کے وہ بچے جو خوراک کی کمی کے شکار ہوتے ہیں ان میں پڑھنے کے دوران غلطی کرنے کا امکان 19 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے بچے ‘ سورج گرم ہے’ اور ‘ مجھے کتے پسند ہیں’ جیسے سادہ جملے پڑھتے ہوئے بھی غلطی کرجاتے ہیں۔
اسی طرح یہ اثرات ان کی بلوغت تک بھی جاری رہتے ہیں۔ غذائیت کی کمی کو اگر عالمی معاشی لحاظ سے پرکھا جائے تو اس سے سالانہ ایک سو پچیس ارب ڈالر کا نقصان ہورہا تے۔
‘ ناکافی غذائیت سے ترقی پذیر ممالک میں خواندگی ، تعلیمی اور شماریات کا بحران پیدا ہورہا ہے جو ترقی اور بچوں کی اموات روکنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔،’ سیوو دی چلڈرن انٹرنیشنل کی چیف ایگزکٹو، جیسمین وائٹبریڈ نے کہا۔
‘ دنیا بھر میں ایک چوتھائی بچے غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہیں اور اس طرح ان کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔’
حکومتِ برطانیہ نے آٹھ جون کو غذائیت پر ایک خصوصی سمٹ بلانے کا بھی اعلان کیا ہے جو جی ۔ ایٹ کانفرنس کے ساتھ ہوگا۔ اس میں دنیا بھر اور خصوصاً افریقہ میں غذائی تحفظ پر غور ہوگا اور بھوک کے خاتمے کیلئے ان کے اپنے منصوبوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
وائٹ ہیڈ نے کہا کہ عالمی رہنماؤں کو ان خطوط پر سوچنا ہوگا ۔
واضح رہے کہ دنیا میں ہر چوتھا بچہ خوراک کی کمی کا شکار ہے اور پاکستان بھی اس سے آزاد نہیں۔ پاکستان، خصوصاً صوبہ بلوچستان اور سندھ کے بچے خوراک اور غذائیت دونوں میں کمی کے شکار ہیں۔
صوبہ پنجاب میں ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ وہاں 39 فیصد بچے معمول سے چھوٹے قد کے ہیں اور 14 فیصد بچے خوراک کی شدید کمی میں مبتلا ہیں۔ دوسری جانب صوبہ سندھ کی 23 فیصد آبادی کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
صوبہ بلوچستان کی صورتحال سب سے ابتر ہے جہاں ایک سروے کے مطابق شدید غذائیت کمی کی شرح 52.2 فیصد ہے اور ماؤں میں خون کی کمی کی شرح 47 فیصد ہے۔
بہ شکریہ ڈان اردو
 
Top