مصطفیٰ زیدی دنیا مصطفیٰ زیدی

شاہ حسین

محفلین
دُنیا

اک ہم ہی نہیں کُشتئہ رفتار ِ زمانہ
یہ تندئ رخش ِ گُزَراں سب کے لئے ہے

رقّاصئہ طنّار ہو یا بِسمل ِ مجرُوح
اسبابِ دِل آویزئِ جاں سب کے لئے ہے

اک طرز ِ تفکّر ہے ارسطو ہو کہ خیّام
دُنیائے معانی و بیاں سب کے لئے ہے

خاموش محبّت ہو کہ میدان کی للکار
محروُمی گفتار و زباں سب کے لئے ہے

بستی ہو فقیروں کی کہ عِشرت گہِ کِسریٰ
بُجھتی ہُوئی شمعوں کا دُھؤاں سب کے لئے ہے

دریُوزہ گر ِ شہر ہو یا خُسرو ِ آفاق
پندار ِ فلاں ابن ِ فلاں سب کے لئے ہے



مصطفیٰ زیدی
(قبائے ساز)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوبصورت نظم ہے۔ بہت شکریہ شاہ صاحب! بس ایک شعر کھٹک رہا ہے۔
بستی ہو فقیروں کی کہ عِشرت گہِ کِسریٰ
بُجھی ہُوئی شمعوں کا دُھؤاں سب کے لئے ہے

ذرا کتاب سے دیکھ کر بتائیے گا کہ بجھی کی جگہ بجھتی تو نہیں ہے؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
وارث صاحب اور سخنور صاحب بہت شکریہ

سخنور صاحب شکریہ توج۔ّہ دلانے کا بہت ممنون ہوں ۔

قبلہ ہم تو آپ کے ممنون ہیں کہ کہ کتاب سے دیکھ کر تصحیح بھی کر دی اور ناراض بھی نہیں ہوئے ورنہ یہاں تو ایک نقطے پر ایسے بخیے ادھڑتے دیکھے ہیں جن کا کوئی وجود ہیں نہیں تھا۔ ;)
 

شاہ حسین

محفلین
قبلہ ہم تو آپ کے ممنون ہیں کہ کہ کتاب سے دیکھ کر تصحیح بھی کر دی اور ناراض بھی نہیں ہوئے ورنہ یہاں تو ایک نقطے پر ایسے بخیے ادھڑتے دیکھے ہیں جن کا کوئی وجود ہیں نہیں تھا۔ ;)

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ۔۔۔۔۔۔۔;)
ادبی غلطی سہواً ہو یا قصداً کہلائی بددیانتی ہی جائے گی ۔

اگر پیش ِ نظر خدمتِ ادب ہے تو اعلیٰ ظرفی لازم ہو جاتی ہے
 

غزل قاضی

محفلین
دنیا

اک ہم ہی نہیں کشتہ ء رفتار ِزمانہ
یہ تندیؑ رخش ِ گزراں سب کیلئے ہے

یہ سچ ہے کہ ہر اک کو شہادت نہیں ملتی
اک تشنگیء آب ِ رواں سب کے لئے ہے

ہر شخص کی قسمت میں نہیں خضر کا رتبہ
بھٹکے ہوئے راہی کی فغاں سب کیلئے ہے

رقاصہء طناز ہو یا بسمل ِ بے تاب
اسباب دل آویزیؑ جاں سب کیلئے ہے

اک طرز ِ تفکر ہے ارسطو ہو کہ خیام
دنیائے اسالیب و بیاں سب کے لئے ہے

خاموش محبت ہو کہ میدان کی للکار
محرومیؑ گفتار و زباں سب کے لئے ہے

دریوزہ گر ِ شہر ہو یا شہر کا معمار
پندار ِ فلاں ابن ِ فلاں سب کے لئے ہے

مصطفیٰ زیدی

(روشنی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
دنیا

اک ہم ہی نہیں کشتۂ رفتارِ زمانہ
یہ تندیِ رخشِ گزراں سب کیلئے ہے

یہ سچ ہے کہ ہر اک کو شہادت نہیں ملتی
اک تشنگیِ آبِ رواں سب کے لئے ہے

ہر شخص کی قسمت میں نہیں خضر کا رتبہ
بھٹکے ہوئے راہی کی فغاں سب کیلئے ہے

رقاصۂ طناز ہو یا بسملِ بے تاب
اسباب دل آویزیِ جاں سب کیلئے ہے

اک طرز ِ تفکر ہے ارسطو ہو کہ خیام
دنیائے اسالیب و بیاں سب کے لئے ہے

خاموش محبت ہو کہ میدان کی للکار
محرومیِ گفتار و زباں سب کے لئے ہے

دریوزہ گرِ شہر ہو یا شہر کا معمار
پندارِ فلاں ابنِ فلاں سب کے لئے ہے

مصطفیٰ زیدی

(روشنی)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
دنیا​

اک ہم ہی نہیں کشتۂ رفتارِ زمانہ​
یہ تندیِ رخشِ گذراں سب کے لیے ہے​

رقاصۂ طناز ہو یا بسملِ مجروح​
اسبابِ دل آویزیِ جاں سب کے لیے ہے​

اک طرزِ تفکر ہے ارسطو ہو کہ خیام​
دنیائے معانی و بیاں سب کے لیے ہے​

خاموش محبت ہو کہ میدان کی للکار​
محرومیِ گفتار و زباں سب کے لئے ہے​

بستی ہو فقیروں کی کہ عشرتِ گہِ کسریٰ
بجھتی ہوئی شموں کا دھواں سب کے لیے ہے

دریوزہ گرِ شہر ہو یا شہر کا معمار​
پندارِ فلاں ابنِ فلاں سب کے لئے ہے​

مصطفیٰ زیدی​

(قبائے ساز)​
 
Top