دم توڑتی روزِنو کی امید --- کالم از نصرت جاوید

اعتراف: نصرت جاوید سے بنیادی فکری اختلاف ہونے کے باوجود اس کالم سے متفق ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
----


9نومبر کے دن اقبال کے یوم پیدائش کے بہانے قومی تعطیل کا اعلان نہ ہو تو ہمارا خون کھول جاتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کا خواب دیکھنے والا اپنی ساری زندگی دراصل کس بات پر کڑھتا رہا، اس سوال پر غور کرنے کی ہم نے کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

اپنے ایک حالیہ کالم میں اعتراف کرچکا ہوں کہ فیض احمد فیض اور صوفی تبسم کی وساطت سے میں نے اقبال کو محض تھوڑا سا جانا اور وہ بھی محض ایک شاعر کے طورپر۔ اقبال مگر ایک شاعر ہی نہیں تھے۔ قومی اور عالمی امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک مفکر بھی تھے اور ان کے خیالات جاننے کے لئے انتہائی ضروری ہے ان لیکچروں کا بغور مطالعہ جو انہوں نے اپنے دور کے مسلمانوں کی بے بسی کو تاریخ کے تناظر میں رکھ کر مستقبل کے چند امکانات کی نشاندہی کی خاطر دئیے تھے۔اسی طرح ان کے چند خطوط بھی ہیں اور اپنے دوستوں اور مداحین سے ذاتی ملاقاتوں میں کہی باتیں جنہیں مختلف مضامین اور کتابوں میں رقم کردیا گیا ہے۔
تحقیق کی تڑپ اور یکسوئی سے محروم میرے ناقص ذہن نے سرسری مطالعہ سے دریافت کیا ہے تو صرف اتنا کہ اقبال کو ساری زندگی سب سے زیادہ غصہ اپنے لوگوں کی سوچ اور رویوں میں بسی ”خوئے غلامی“ کے اوپر آتا رہا۔ میں ”خوئے غلامی“ سے نفرت کی شدت کو شاید اپنے تئیں دریافت نہ کرپاتا مگر 1970ءکے ابتدائی ایام میں دریافت ہوا فرانزفینن۔ الجزائر اور دیگر افریقی ممالک کی تحاریکِ آزادی سے جڑا یہ سیاہ فام دانشور بنیادی طورپر ایک ماہرنفسیات تھا۔ جو ذہنی مریضوں کے علاج کے لئے باقاعدہ کلینک بھی چلایا کرتا تھا۔
سامراج کے خلاف افریقی عوام کی جدوجہد کے بغور مطالعہ کی بدولت اس نے ایک کتاب لکھی تھی جسے ”افتادگانِ خاک“ کے نام سے سجاد باقررضوی نے اُردو زبان میں ڈھالا تھا۔ اس کتاب کا دیباچہ فرانس کے معروف فلاسفر ژاں پال سارتر نے لکھا اور یہ کتاب لاہور کی ایک تاریخی ہستی میاں افتخار الدین کے ایک درد مند بیٹے نے بہت اہتمام سے چھپوائی تھی۔ میری نسل کے لوگوں کے ایام نوجوانی میں اس کتاب کو پڑھے بغیر آپ ”دانشور“ نہیں کہلاسکتے تھے۔ میں نے وہ کتاب کئی بار پڑھی۔ فکر کی گہرائی سے مگر کہیں زیادہ متاثر مصنف کے الفاظ کی گھن گرج نے کیا اورپھر جذبات کی وہ شدت جو تخت گرانے اور تاج اچھالنے پر اُکساتی ہے۔
مجھے یہ دریافت کرنے میں کئی برس لگے کہ فرانز فینن کی اہم ترین کتاب درحقیقتBlack Skin White Masksتھی۔ آسان ترین ترجمہ اس عنوان کا ”کالی چمڑی چٹا بھیس“ بھی ہوسکتا ہے۔
اس کتاب میں فینن نے اپنے زیر علاج مریضوں کی ذہنی کیفیات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اپنے مریضوں کے کمزور اعصاب اور تشنجی کیفیات کا مسلسل جائزہ لیتے وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ سامراجی ظلم کا نشانہ بنے سیاہ فام افراد اپنی بے بسی سے نجات پانے کا واحد علاج تشدد کے ذریعے ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔ غیر ملکی اشرافیہ یا حکمرانوں کا کچھ بگاڑ نہ پائیں تو اپنی بیوی اور بچوں کو اذیتیں پہنچا کر تسکین حاصل کرتے ہیں۔ بتدریج حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ سامراجی ظلم کا نشانہ بناایک فرد اپنے حاکم کے مقابلے میں کہیں زیادہ ظالم شخص کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔
ظلم اور جبر کے Internalizeہونے کا یہ عمل اس نے ان حکمرانوں میں بکثرت دریافت کیا جو سامراج سے ”آزادی“ کے بعد افریقہ اور ایشیاءکے مختلف ممالک کے حکمران بن کر مسلط ہوئے۔ سامراج سے بظاہر نجات کے بعد اپنے عوام کو آزادی¿ فکر کی نعمتوں سے مالا مال کرتے ہوئے سکون اور خوش حالی کے راستوں پر چلانے کی بجائے ان حکمرانوں نے بدترین ہتھکنڈوں کے ذریعے شخصی آمریت قائم کرنے کے روگ پال لئے۔ کئی صورتوں میں نو آزاد ممالک کے حکمران اپنے عوام کے لئے بلکہ سامراجی حاکموں سے بھی کہیں زیادہ ظالم اور سفاک ثابت ہوئے۔
مصر کا حسنی مبارک ہو یا عراق کا صدام حسین۔ یہ دونوں اس دور کے بدترین آمر تھے۔ یہی حال شام کے حافظ الاسد کا رہا اور لیبیا کے معمر قذافی کا رویہ بھی ان تینوں جیسا تھا۔ ان آمروں کے خلاف کئی دہائیوں سے دلوں میں پلتا غصہ جب نام نہاد ” عرب بہار“ کی صورت پھوٹ پڑا تو روزِ نو کی امید پیدا ہوئی۔ یہ امید مگر غصے کے اظہار کے بعد دم توڑ گئی۔ مصر،عراق اور لیبیا جیسے ممالک اپنے آمروں سے نجات پانے کے بعد ریاست کو چلانے کے لئے ایسے ڈھانچے قائم کرنے میں ناکام رہے جہاں ان ممالک میں رہنے والے لوگ خود کو حقوق اور فرائض کے حامل ”شہری“ شمار کرسکتے۔
ایسے ریاستی ڈھانچے جو حقوق وفرائض کے حامل ”شہریوں“ کی نمو کا بندوبست نہ کر پائیں مسلسل ہیجان اور افراتفری کا شکار بن جایا کرتے ہیں۔ مصر کے ہیجان کا علاج وہاں کی فوج نے اقتدار پر ایک بار پھر قابض ہوکر ڈھونڈنا چاہا۔ لیبیا میں یہ صورت بھی نہیں بن پائی۔ شام کا بشارالاسد مگر اب بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ اس آمر کو فارغ کرنے کے لئے امریکہ اور سعودی عرب نے چند مذہبی انتہاءپسندوں کو سرمایہ اور اسلحہ فراہم کیا۔ وہ متحرک ہوئے تو ایران نے عرب دنیا میں موجود اپنے اس حلیف کو بچانے کے لئے پاسداران اور حزب اللہ کو لانچ کردیا۔ اب روس کا صدر پیوٹن بھی اقتدار کے عالمی کھیل میں اپنا کردار بحال کرنے کے لئے بشارالاسد کی مدد کو آگیا ہے۔
شام اور عراق میں ہیجان، خون ریزی اور افراتفری کے اسباب بنیادی طورپر مقامی ہیں۔ ان کی جڑیں صدیوں سے موجود قبائلی اور مسلکی تعصبات میں بڑی آسانی سے ڈھونڈی جاسکتی ہےں۔ انہیں ڈھونڈنے کے لئے مگر ضرورت ہے تاریخ کے بغور مطالعے کی۔ غور کرنے کی لیکن ہمیں عادت نہیں۔ انٹرنیٹ ہے اور ٹویٹر۔ جو دل میں آئے کہتے چلے جاؤ اور اسے حق گردان کر اس کے دفاع میں ڈٹ جاﺅ۔
جہالت تعصبات کو متشدد بنادیتی ہے۔ ذہن نئے خیالات ڈھونڈنے کے قابل ہی نہ رہیں تو حقیقت وہی بن جاتی ہے جو تعصب کی عینک لگاکردیکھی جائے۔ میں بے شمار کالم لکھنے اور ٹی وی پر گھنٹوں گفتگو کرنے کے باوجود بھی پاکستانیوںکی اکثریت کو یہ نہیں سمجھا پاﺅں گا کہ 9/11کا اصل ذمہ دار کون تھا۔ پیرس میں گزشتہ ہفتے جو کچھ ہوا وہ فرانس کی انٹیلی جنس ایجنسی اپنی ہی سرزمین پر رچانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
امریکہ اور فرانس کی انتظامیہ اپنی سرشت میں یقینا اب بھی سامراجی ذہنیت کی حامل ہے۔ انہیں دنیا پر کنٹرول کا جنون لاحق ہے۔ اس جنون کا علاج مگر داعش کے پاس بھی موجود نہیں۔ طالبان اور داعش کا متعارف کردہ متشدد رویہ اس دور کے مسلمانوں کی محرومیوں اور مشکلات کا ہرگز مداوا نہیں کرسکتا۔ ”کوئی مسلمان ان جیسی حرکتیں کر ہی نہیں سکتا“ والی سوچ کےساتھ ہم اپنی ذلت اور بے بسی سے نجات حاصل نہیں کرسکتے۔ خدارا حقیقتوں کو تسلیم کیجئے۔ اقبال کی بیان کردہ ”خوئے غلامی“ سے نجات پائیے اور اس دور کے تقاضوں کو تازہ ذہن کے ساتھ دریافت کرنے کی ذرا سی کوشش بھی کرلیں۔


ربط
 
Top