دل ہے مگر کسی سے عداوت نہیں رہی ۔ جاوید احمد غامدی

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

دل ہے مگر کسی سے عداوت نہیں رہی
دنیا وہی ہے، ہم کو شکایت نہیں رہی

میں جانتا ہوں دہر میں اس قوم کا مآل
علم و ہنر سے جس کو محبت نہیں رہی

خوفِ خدا کے بعد پھر اِک چیز تھی حیا
وہ بھی دل و نگاہ کی زینت نہیں رہی

دنیا ترا نصیب، نہ عقبیٰ ترا نصیب
اب زندگی میں موت کی زحمت نہیں رہی

وہ دن قریب آ لگا، آئے گی جب صدا
"بابر بہ عیش کوش" کی مہلت نہیں رہی

درماندۂ حیات ہوں، دل تو نہیں لگا
اتنا ضرور ہے کبھی وحشت نہیں رہی

سرما کی شام ہے کوئی اجڑے دیار میں
جس زندگی میں شوق کی حدّت نہیں رہی

اس رہ روی میں جادہ و منزل بھی دیکھ لیں
یارانِ تیز گام کو فرصت نہیں رہی

شعر و سخن کی، بادہ و ساغر کی گفتگو
جی چاہتا ہے، پر وہ طبیعت نہیں رہی

پیدا کہاں یہ علم و محبّت کا رازداں
تم کو فقیر سے کبھی صحبت نہیں رہی

(جاوید احمد غامدی)
 

فاتح

لائبریرین
واہ خوبصورت انتخاب ہے۔ اس بہانے ہمیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جاوید غامدی صاحب شاعر بھی ہیں۔ ماشاء اللہ!
اسی زمین میں ہماری ایک کہنہ غزل بھی کسی طاقِ نسیاں پر پڑی ہو گی۔
 

طالوت

محفلین
اچھی غزل پہنچانے کے لئے شکریہ ۔ میرے لئے بھی یہ نئی بات ہے کہ جناب شاعر بھی ہیں ۔
وسلام
 
خیال و خامہ کے نام سے باضابطہ غامدی صاحب کا شعری مجموعہ بھی ہے جو غالبا دو سال قبل میں نے ان کے ویب سائٹ سے ڈاون لوڈ کیا تھا مجھے تو اچھی لگی ۔۔۔۔
 
Top