دل ہی دل میں ڈرتا ہوں کچھ تجھے نہ ہوجائے - سرور عالم راز سرور

کاشفی

محفلین
غزل
(سرور عالم راز سرور)

دل ہی دل میں ڈرتا ہوں کچھ تجھے نہ ہوجائے
ورنہ راہِ اُلفت میں جائے جان تو جائے

میری کم نصیبی کا حال پوچھتے کیا ہو
جیسے اپنے ہی گھر میں راہ کوئی کھو جائے

گر تمہیں تکلف ہے میرے پاس آنے میں
خواب میں چلے آؤ، یوں ہی بات ہو جائے

جھوٹ مسکرائیں کیا، آؤ مل کے ہم رو لیں
شاعری ہوئی اب کچھ گفتگو بھی ہو جائے

یہ بھی کوئی جینا ہے؟ خاک ایسے جینے پر
کوئی مجھ پر ہنستا ہے، کوئی مجھ کو رو جائے

میرے دل کے آنگن میں‌ کس قدر اندھیرا ہے
کاش چاندنی بن کر کوئی اُس کو دھو جائے

یاد ایک دھوکا ہے، یاد کا بھروسا کیا
آؤ اور خود آکر یاد سے کہو، جائے!

سوچ کر چلو سرور، جانے کون اُلفت میں
پھول تم کو دِکھلا کر خار ہی چبھو جائے
 
Top