دل کو یوں بہلا رکھا ہے - سرور عالم راز سرور

کاشفی

محفلین
غزل
(سرور عالم راز سرور)

دل کو یوں بہلا رکھا ہے
درد کا نام دَوا رکھا ہے

آؤ پیار کی باتیں کرلیں
اِن باتوں میں‌کیا رکھا ہے

اور بھی ہے کچھ باقی پیارے؟
کون سا ظلم اُٹھا رکھا ہے؟

جھلمل جھلمل کرتی آنکھیں
جیسے ایک دیا رکھا ہے

عقل نے اپنی مجبوری کا
تھک کر نام خدا رکھا ہے

راہِ وَفا کے ہر کانٹے پر
درد کا اِک قطرہ رکھا ہے

اب آئے تو کیا آئے ہو
آہ یہاں اب کیا رکھا ہے؟

میری صورت دیکھتے کیا ہو
سامنے آئینہ رکھا ہے

کرنا ہے تو کام کرو کچھ
ورنہ نام میں‌کیا رکھا ہے؟

سرور کچھ تو منہ سے بولو
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
 
Top