ن م راشد دل کو صحرا کیجیے آنکھوں کو دریا کیجیے - ن م راشد

دل کو صحرا کیجیے آنکھوں کو دریا کیجیے
اس طرح بھی ایک دن اپنا تماشا کیجیے

موج صر صر کا کوئی جھونکا اڑا لے جائے گا
ریت کی دیوار پر کب تک بھروسا کیجیے

اک ذرا سی بات سے شیشے میں آجاتا ہے بال
بات میں تلخی سہی اونچا نہ بولا کیجیے

وقت کی ریگ رواں سے سارے نقش مٹ گئے
اپنے قدموں کے نشاں مڑ کر بھی دیکھا کیجیے

کچھ تمہارے زخم ہیں کچھ اپنی محرومی کے زخم
کس کو پنہاں کیجیے کس کو ہویدا کیجیے

زندگی کب تک حرف شورش دریا رہے
اس سفینے کو کسی دن غرق دریا کیجیے
ن م راشد
 
Top