فراز دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں ،احمد فراز

خرد اعوان

محفلین
دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں
ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں

چوبِ نم خوردہ کی مانند سلگتے رہے ہم
نہ تو بجھ پائیں نہ بھڑکیں بہ دہکتے جاویں

تیری بستی میں تیرا نام پتہ کیا پوچھا
لوگ حیران و پریشان ہمیں تکتے جاویں

کیا کرے چارہ کوئی جب ترے اندوہ نصیب
منہ سے کچھ بھی نہ کہیں اور سسکتے جاویں

کوئی نشے سے کوئی تشنہ لبی سے ساقی
تری محفل میں سبھی لوگ بہکتے جاویں

کبھی اس یارِسمن بر کے سخن بھی سنیو
ایسا لگتا ہے کہ غنچے سے چٹکتے جاویں

ہم نوا سنجِ محبّت ہیں ہر ایک رُت میں فراز
وہ قفس ہو کہ گلستاں ہو ، چہکتے جاویں
 
Top