کاشفی

محفلین
غزل
(سرور عالم راز سرور)

دل نے کسی کی ایک نہ مانی
اف ری محبت ، ہائے جوانی!

خود ہی کرنا خود ہی بھرنا
عشق میں‌ہے کتنی آسانی

کھول نہ دے یہ راز تمہارے
آئینہ کی یہ حیرانی

آج چلی پھر کیا پروائی
دل میں ہوک اٹھی انجانی

ان کے بدلے بدلے تیور
ڈھنگ نئے ہیں‌ریت پرانی

کون کسی کا غم کھاتا ہے
چھوڑو یہ پریوں کی کہانی

دل کے بدلے درد لیا ہے
آپ اسے کہہ لیں‌نادانی

عشق کی منزل اللہ اللہ!
دریا دریا پانی پانی

پاس وفا ہے ہم بھی ورنہ
کہتے سب سے رام کہانی

جیسی کرنی ویسی بھرنی
اور کرو سرور من مانی!
 
Top