ناز خیالوی "دل میں کیا سوچ کے ماں باپ نے پالے بچے" نازؔ خیالوی

دل میں کیا سوچ کے ماں باپ نے پالے بچے
اور حالات نے کس رنگ میں ڈالے بچے

آپ کھولیں تو سہی اِن پر درِرزقِ حلال
پھر نہ توڑیں گے کبھی رات کو تالے بچے

نور ماں باپ کی آنکھوں کا ہوا کرتے ہیں
ایک ہی بات ہے گورے ہوں یا کالے بچے

گھر سے نکلے تھے کھلونوں کی خریداری کو
ہو گئے بردہ فروشوں کے حوالے بچے

میرے آنسو مرے دامن کو بھگو دیتے ہیں
دیکھ کر کھاتے ہوئے خشک نوالے بچے

سسکیاں لیتی ہے عریانی مرے بچوں کی
اوڑھ کر بنگلوں سے نکلیں جو دو شالے بچے

بات پریوں کی وہ سننے پہ بضد تھے،لیکن
کل کے وعدے پہ تھکے باپ نےٹالے بچے

اہلِ دنیا ہی سے پیٹ اپنا بھرا دنیا نے
یہ وہ ناگن ہے جو بھوکی ہو تو کھالے بچے

زندگی اپنی کبھی نازؔ لُٹا بیٹھتے ہیں
گڈیاں ٹوٹی ہوئی لُوٹنے والے بچے
نازؔ خیالوی
 
آخری تدوین:
Top