داغ دل میں فرحت جو کبھی آتی ہے - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی)

دل میں فرحت جو کبھی آتی ہے
اپنے رونے پہ ہنسی آتی ہے

کیوں صبا کو نہ بناؤ ں قاصد
ابھی جاتی ہے ابھی آتی ہے

کیا ہے گِنتی مرے ارمانوں کی
فوج کی فوج چلی آتی ہے

یہ سبب کیا ہے جدھر جاتا ہوں
سامنے تیری گلی آتی ہے

پیشوائی کو تری گلشن میں
نکہتِ گل بھی اُڑی آتی ہے

جان عاشق کی ترے وعدے پر
کبھی جاتی ہے کبھی آتی ہے

اُس کی باتوں پہ مرے ماتم میں
رونے والوں کو ہنستی آتی ہے

شاخِ اُمید جو ہوتی ہے ہَری
ساتھ پتّی کے کلی آتی ہے

کیا عدم سے ہمیں آنے کی خوشی
موت بھی ساتھ لگی آتی ہے

تجھ کو اے غنچہ و گل اُس کی طرح
کھِل کھلا کر بھی ہنستی آتی ہے

مجرم عشق ہوئے تم اے داغ
اَب وہاں سے طلبی آتی ہے
 
Top