جون ایلیا دل میں اور دنیا میں اب نہیں ملیں گے ہم

Saraah

محفلین
دل میں اور دنیا میں اب نہیں ملیں گے ہم
وقت کے ہمیشہ میں اب نہیں ملیں گے ہم

اپنی بے تقاضائی اپنی وضع ٹھہری ہے
حال ِ پر تقاضا میں اب نہیں ملیں گے ہم

اب نہیں ملیں گے ہم کوچہ تمنا میں
کوچہ تمنا میں اب نہیں ملیں گے ہم

ایک خواب تھا دیروز ایک فسوں تھا امروز
اور کسی بھی فردا میں اب نہیں ملیں گے ہم

اب جنون ہے اپنا گوشہ گیر تنہائی
سو دیار وصحرا میں اب نہیں ملیں گے ہم

حرف زن نہ ہوں گے لبِ جاوداں خاموشی میں
ہاں کسی بھی معنیٰ میں اب نہیں ملیں گے ہم

زنگی شتاباں ہے شہر ِ خفتہ کی جانب
شہر ِ شور و غوغا میں اب نہیں ملیں گے ہم

ایک حال بے حالی دل کا طور ٹھہرا ہے
حالِ حالت افزا میں اب نہیں ملیں گے ہم
 

ظفری

لائبریرین
اپنی بے تقاضائی اپنی وضع ٹھہری ہے
حال ِ پر تقاضا میں اب نہیں ملیں گے ہم​
واہ بہت خوب ۔۔۔۔۔مابدولت کو پسند آئی ۔ ;)

محفل پر شئیرنگ کے لیئے بہت بہت شکریہ ۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
سارہ اس شعر میں شاید خموشی ہونا چاہیے۔ ہو سکے تو کتاب سے دوبارہ دیکھ لیں۔
حرف زن نہ ہوں گے لبِ جاوداں خاموشی میں
ہاں کسی بھی معنیٰ میں اب نہیں ملیں گے ہم

اس شعر کے پہلے مصرع میں شاید زندگی ہونا چاہیے۔ اسے بھی کتاب سے دوبارہ دیکھ لیجیے۔
زنگی شتاباں ہے شہر ِ خفتہ کی جانب
شہر ِ شور و غوغا میں اب نہیں ملیں گے ہم
 

محمد وارث

لائبریرین
سارہ اس شعر میں شاید خموشی ہونا چاہیے۔ ہو سکے تو کتاب سے دوبارہ دیکھ لیں۔
حرف زن نہ ہوں گے لبِ جاوداں خاموشی میں
ہاں کسی بھی معنیٰ میں اب نہیں ملیں گے ہم

اس شعر کے پہلے مصرع میں شاید زندگی ہونا چاہیے۔ اسے بھی کتاب سے دوبارہ دیکھ لیجیے۔
زنگی شتاباں ہے شہر ِ خفتہ کی جانب
شہر ِ شور و غوغا میں اب نہیں ملیں گے ہم

جی میں نے دیکھ لیا ہے ایسے ہی لکھا ہے :confused:

تو پھر اس کا مطلب ہے کہ کتاب میں بھی غلطیاں ہیں۔

پہلے شعر میں لب کی نیچے اضافت نہیں ہے، اور خاموشی کی جگہ خموشی ہے، وگرنہ وزن خراب ہوگا، درست شعر یوں ہے

حرف زن نہ ہوں گے لب، جاوداں خموشی میں
ہاں کسی بھی معنیٰ میں اب نہیں ملیں گے ہم

دوسرے شعر میں 'زندگی' ہی چاہیئے۔
 
Top