دل قتیلِ ادا تھا پہلے بھی۔۔۔۔باقی صدیقی

فرحت کیانی

لائبریرین
دل قتیلِ ادا تھا پہلے بھی
کوئی ہم سے خفا تھا پہلے بھی

ہم تو ہر دَور کے مسافر ہیں
ظلم ہم پر رَوا تھا پہلے بھی

ہر سہارا پہاڑ کی صورت
اپنے سر پر گرا تھا پہلے بھی

دل کے صحراؤں کو بسائے کوئی
شہر تو اک بسا تھا پہلے بھی

وقت کا کوئی اعتبار نہیں
ہم نے تم سے کہا تھا پہلے بھی

آپ ہی اپنے سامنے تھے ہم
ایک پردہ اٹھا تھا پہلے بھی

منزلِ دل کی جستجو معلوم
دُور اک فاصلہ تھا پہلے بھی

کس نے دیکھا ہے غم کا آئینہ
دل تماشا بنا تھا پہلے بھی

یہی رنگِ چمن کی باتیں تھیں
یہی شورِ صبا تھا پہلے بھی

پھول مہکے تھے، رند بہکے تھے
جشن برپا ہوا تھا پہلے بھی

زیست کے ان فسانہ خوانوں سے
اک فسانہ سنا تھا پہلے بھی

کسی در پر جُھکے نہ ہم باقی
اپنا رستہ جدا تھا پہلے بھی


۔۔۔۔باقی صدیقی
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب فرحت۔ میں سمجھ رہا تھا کہ عزیز حامد مدنی کی طرح اس نسل کو لوگ بھول چکے۔
 
Top