ن م راشد دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل۔ ن م راشد

الف عین

لائبریرین
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ
راہ گم کر دوں کی مشعل، ان کے لب پر’ آؤ، آؤ!‘
تیرے ماضی کے خزف ریزوں سے جاگی ہے یہ آگ
آگ کی قرمز زباں پر انبساطِ نو کے راگ
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل،
سرگرانی کی شب رفتہ سے جاگ!
اور کچھ زینہ بہ زینہ شعلوں کے مینار پر چڑھتے ہوے
اور کچھ تہہ میں الاؤ کی ابھی
مضطرب، لیکن مذبذبِ طفل کمسن کی طرح!
آگ زینہ، آگ رنگوں کا خزینہ
آگ اُن لذّات کا سرچشمہ ہے
جس سے لیتا ہے غذا عشاق کے دل کا تپاک
چوبِ خشک، انگور اس کی مے ہے آگ
سرسراتی ہے رگوں میں عید کے دن کی طرح!
آگ کا ہن، یاد سے اُتری ہوئی صدیوں کی یہ افسانہ خواں
آنے والے قرنہا کی داستانیں لب پہ ہیں
دل، مرا صحرا نوردِ پیر دل سن کر جواں!

آگ آزادی کا، دلشادی کا نام
آگ پیدائش کا، افزائش کا نام
آگ کے پھولوں میں نسریں، یاسمن، سنبل، شقیق و نسترن
آگ آرائش کا، زیبائش کا نام
آگ وہ تقدیس، دھُل جاتے ہیں جس سے سب گناہ
آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اِک ایسا کرم
عمر کا اِک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
اس لق و دق میں نکل آئیں کہیں بھیڑیے
اس الاؤ کو سدا روشن رکھو!
(ریگِ صحرا کو بشارت ہو کہ زندہ ہے الاؤ،
بھیڑیوں کی چاپ تک نہیں ہیں!)
آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
آگ سے صحرا کے ٹیڑھے، رینگنے والے
گرہ آلود، ژولیدہ درخت
جاگتے ہیں نغمہ درجاں، رقص برپا، خندہ برلب
اور منا لیتے ہیں تنہائی میں جشن ماہتاب
ان کی شاخیں غیر مرئی طبل کی آواز پر دیتی ہیں تال
بیخ و بن سے آنے لگتی ہے خداوندی جلاجل کی صدا!

آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
رہروؤں، صحرانوردوں کے لیے ہے رہنما
کاروانوں کا سہارا بھی ہے آگ
اور صحراؤں کی تنہائی کو کم کرتی ہے آگ!

آگ کے چاروں طرف پشمینہ و دستار میں لپٹے ہوئے
افسانہ گو
جیسے گرد چشمِ مژگاں کا ہجوم
ان کے حیرتناک، دلکش تجربوں سے
جب دمک اُٹھتی ہے ریت
ذرّہ ذرّہ بجنے لگتا ہے مثالِ سازجاں
گوش برآواز رہتے ہیں درخت
اور ہنس دیتے ہیں اپنی عارفانہ بے نیازی سے کیھس!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
ریگ اپنی خلوتِ بے نور و خودبیں میں رہے
اپنی یکتائی کی ت حسیں میں رہے
اس الاؤ کو سدا روشن رکھو!

دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
ریگ کے دلشاد شہری، ریگ تو
اور ریگ ہی تیری طلب
ریگ کی نکہت ترے پیکر میں، تیری جاں میں ہے!
ریگ صبحِ عید کے مانند زرتاب و جلیل،
ریگ صدیوں کا جمال،
جشنِ آدم پر بچھڑ کر ملنے والوں کا وصال
شوق کے لمحات آزاد و عظیم!

ریگ نغمہ زن
کہ ذرّے ریگ زاروں کی وہ پازیبِ قدیم
جس پہ پڑ سکتا نہیں دستِ لئیم،
ریگ صحرا زرگری کی ریگ کی لہروں سے دُور
چشمۂ مکر و ریا شہروں سے دُور!
ریگ شب بیدار، سنتی ہے ہر جابر کی چاپ
ریگ شب بیدار ہے، نگراں ہے مانندِ نقیب
دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ
ریگ ہر عیّار، غارت گر کی موت
ریگ استبداد کے طغیاں کے شور و شر کی موت
ریگ جب اُٹھتی ہے، اُڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند
ریگ کے نیزوں سے زخمی، سب شہنشاہوں کے خواب
(ریگ، اے صحرا کی ریگ
مجھ کو اپنے جاگتے ذرّوں کے خوابوں کی
نئی تعبیر دے!)
ریگ کے ذرّو، اُبھرتی صبحِ نو،
آؤ صحرا کی حدوں تک آ گیا روزِ طرب
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
آ چوم ریگ
ہے خیالوں کے پری زادوں سے بھی معصوم ریگ!
ریگ رقصاں، ماہ و سالِ نور تک رقصاں رہے
اس کا ابریشم ملائم، نرم خو خنداں رہے!
 

الف عین

لائبریرین
کلیات میں دیکھ لیں کہ یہ نظم مکمل ہے یا نہیں۔ یہ بھی شکیل الرضمن کی کتاب سے لی گئی ہے۔
 
Top