دعا کاسایہ

ثامر شعور

محفلین
دعا کاسایہ
از ثامر شعور
اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور وہ مستقل کھڑکی سے باہر دیکھے جا رہا تھا اس کی نظریں دوڑتے ہوئے درختوں کے پیچھے دھندلائےہوئے سورج پر جمی ہوئی تھیں ۔ شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ ریل گاڑی کی بوگی میں بیٹھے لوگوں کو یہ بات معلوم ہوکہ وہ رو رہا ہے اور اس کی یہ کمزوری سب پر عیاں ہو ۔ شام کے وقت سفر کرنا اس کے لیے ہمیشہ ہی مشکل رہا تھا ۔ اسے کبھی بھی گاؤں کا چھوٹا سااسٹیشن شام کے سائے میں ڈوتبا ہوا اچھا نہیں لگا تھا۔کچھ شامیں تو اس کے درودیوار میں کسی آسیب کی طرح بس گیئں تھیں۔ وہ جب بھی ادھر آتا تھا صغراں بی بی کی سسکیاں اس کے دل کو اک خوف کے شکنجے میں جکڑ لیتی تھیں ۔ اسے وہ دن کبھی نہیں بھولا تھا جب وہ خستہ حال پلیٹ پر بیٹھی رو رو کر دعا کر رہی تھی کہ آنے والی گاڑی میں اس کے بیٹے کی میت نہ ہو۔وہ اپنی آہوں سے کسی معجزے کو آواز دے رہی تھی کہ شہر میں ہونے والے حادثہ جھوٹ ہو ۔ مگر جب گاڑی آئی تو یہ سورج کیسے دور جا چھپا تھا جیسے وہ ڈر رہا ہو کہ صغراں بی بی کے آنسو ؤں سے اس کا چہرہ داغدار نہ ہو جائے۔سارا گاؤں اس دن اس کے جوان بیٹے کی موت کے غم میں نڈھال ہو رہا تھا۔ سب کا رو رو کر برا حال ہو گیا تھا ۔ مگر اس دن بھی ہمیشہ کی طرح اس نے آنسو باہر نہیں آنے دیے تھے اور چپ چاپ اپنے دل کی ویرانیوں کو ان سے سیراب کر لیا تھا۔

اس کی ماں نے اسے یہی سمجھایا تھا " آنسو مرد کی کمزوری ہوتے ہیں اور اگر تو روئے گا تو میرے آنسو کون صاف کرے گا"۔

ماں نے یہ با ت اسے اتنی مرتبہ بتائی تھی کہ اس کی زندگی کا حاصل بن گئی تھی

وہ بتاتی تھی کہ وہ بچپن سے ہی بہت بہادر ہے اوراس دن بھی نہیں رویا تھا جب اس کا ابا اسے چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلا گیا تھا۔ جب ایمبولینس میں ہسپتال سے ابا کو لے کر آ رہے تھے تو راستے میں اس نے اپنا سر اس کی گود سے اٹھا کر صرف اتنا کہا تھا "اماں! آج گھر جلدی کیوں نہیں آ رہا" ۔

ماں یہ بات سب کو بتاتی تھی اورہمیشہ بہت روتی تھی ۔ شاید وہ سمجھتی تھی کہ اس نے یہ بات تین سال کی عمر میں بہت سوچ سمجھ کر کی تھی۔ اسے بڑا ہو کر پتا چلا تھا کہ اس نے آخری مرتبہ اپنے ابا کو اسی دن دیکھا تھا۔اس نے ابا کو ہمیشہ ا ماں کی آنکھوں سے ہی دیکھا تھا۔ اس کے پاس اپنے باپ کی دی ہوئی کوئی یاد کوئی نشانی نہیں تھی جس کی وجہ سے اسے ابا کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔اور اسی وجہ سے شاید جب اماں روتی تھی تو اس کے ساتھ مل کر وہ کبھی بھی ابا کو یاد کر کے نہیں رویا تھا۔ یا پھر شاید ا ماں کی مرد ہونے کی دلیل کو اس کے دل نے تسلیم کر لیا تھا ۔

مگر آج جب گاڑی پر سوار ہوتے ہوئے اس کی پانچ سال کی بیٹی نے ٹانگوں سے لپٹ کر کہا " بابا آپ نہ جائیں مجھے آپ کے بغیر نیند نہیں آتی اور جب آپ گھر نہیں ہوتے تو مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا" تو اس کوا ماں کی ہر دلیل بھول گئی اور اس کی ساری مردانگی ایک پل میں چھن گئی آنکھ کا کوئی دریا اس کے قا بو میں نہ رہا۔اس نے اسے گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے کی تو بات ہے میں واپس آجاؤں گا اور اپنی مانو کے لیے اچھی سی گڑیا لے کر آؤں گا۔ اس کی بیٹی تو مسکرا کر اپنی ماں کی گود میں چلی گئی مگر وہ اپنی بیوی سے آنکھیں چھپا تا ہوا گاڑی میں سوار ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو رک نہیں رہے تھے۔ اس کی بیٹی کے الفاظ نے اس کا ہر ضبط بہا دیا تھا ۔ اپنی بیٹی کےلیے دل سے اٹھنے والی محبت اسےیہ احساس دلا رہی تھی کہ ساری زندگی وہ خودکس دھوپ میں جلتا رہا ہے اوراسے بھی کسی سائے کی ضرورت تھی۔اسےسمجھ آ گئی تھی کہا ابا کے ساتھ گھر آتے ہوئے فاصلہ کیوں لمبا ہو گیا تھا اور گھر جلدی کیوں نہیں آ رہا تھا اور اماں اس بات پر کیوں گھنٹوں روتی رہتی تھی۔ آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ گھر میں آنے والے رشتہ دار ہمیشہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کرآنکھوں میں آنسو کیوں بھر لاتے تھے۔ اسے اچانک لگا جیسے آج اس کا ابا مر گیا ہو۔ یہ سوچ کر اس کی آنکھ سے ایک دریا بہہ نکلا اور دل سےسسکتی ہوئی آہ نکلی۔
اس نے دیکھا کہ سورج جلدی جلدی اپنا منہ چھپا چکا تھا۔ اس نے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سےآسماں کی طرف دیکھا ۔دور افق پر چمکتے ہوئے ستارے کو دیکھتے ہوئے اس کے دل سے بے ساختہ ایک دعا نکلی ۔ اپنی لمبی عمر کی دعا۔ اور اسے لگا کہ اس کی مانو اس دعا کے سائے میں ہر دھو پ سےمحفوظ ہو گئی ہو۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہ
بلاشبہ بہت خوبصورت حساس جذبوں سے گندھی تحریر
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہجر کا پرندہ دعاکے شجر پر ہی وقت گزارتا ہے۔۔۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
 

ثامر شعور

محفلین
واہہہہہہہہہہہہہہ
بلاشبہ بہت خوبصورت حساس جذبوں سے گندھی تحریر
حق ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ہجر کا پرندہ دعاکے شجر پر ہی وقت گزارتا ہے۔۔۔ ۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت شکریہ پسند کرنے کا اور اپنی دعاؤں میں شامل کرنے کا۔
 
Top