دس روپے پیٹی!!!

بھلکڑ

لائبریرین
فجر کی نماز کے بعد اس نے رات کا بچا ہوا کھانا ناشتے کے طور پر کھایا اور تیار ہونا شروع ہو گیا۔ پینٹ شرٹ، ٹائی، پالش کیے ہوئے جوتے اور ہاتھ میں بریف کیس لیے ہوئے اپنے سوئے ہوئے بچوں کو اللہ حافظ کیا اور کام کے لے نکل گیا۔ جب وہ گلی سے گزر رہا تھا تو کچھ لوگ اور بھی کام کے لیے نکل رہے تھے سب اس کی بڑٰی عزت کرتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو سرکاری آفس میں جاب کرتا تھا لیکن کنٹیکٹ پر ہونے کی وجہ سے اور کچھ سیاسی تبدیلوں کی وجہ سے نوکری ہاتھ سے نکل گئی۔ لیکن اب بھی وہ صبح فجر کے بعد ہی گھر سے نکلتا ہے، ویسے ہی جیسے ملازمت کے دوران آفس کے لیے صبح گھر سے نکلا کرتا تھا۔ محلے والوں کو ابھی تک اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ وہ نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

محلے سے دور نکل کر سٹاپ پر آ کر کھڑا ہو گیا اور گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ ایک ویگین آئی تو باقی لوگوں کے ساتھ یہ بھی سوار ہو گیا اور پیر ودھائی سے کچھ پہلے پولیس لائن والے سٹاپ پر اتر گیا۔ یہاں سے اس نے پیدل چلنا شروع کیا اور چلتے چلتے فروٹ منڈی کی طرف موڑ گیا۔ اس کی ظاہر حالت سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی ادارے کا آفیسر یا پھر اچھی پوسٹ کا ملازم ہے۔ اس لیے ہر بندہ اس کی طرف دیکھتا تھا۔ چلتے چلتے وہ فروٹ منڈی کی اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں فروٹ کی پیٹیاں فروخت ہوتی تھیں۔ قریب سے ہی مزدوروں کی آواز آ رہی تھی “دس روپے پیٹی، دس روپے پیٹی” یہ سب مزدور ٹرک کے پاس کھڑے تھے وہاں سے جو خریدار پیٹی خریدتا اس پیٹی کو منڈی سے باہر تک یا پھر گاڑی تک پہنچانے کے لیے مزدور دس روپے لیتے تھے۔

یہ بھی ان مزدوروں کے پاس سے گزرا اور ایک ٹرک کے پاس کھڑا ہو گیا۔ پیٹیاں بیچنے والوں کو سلام کیا اور انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ٹرک پر چڑھا لیا۔ وہ ٹرک کے اندر پیٹیوں کے پیچھے چلا گیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد گندے اور پھٹے کپڑے پہنے ہوا آدمی پیٹیوں کے پیچھے سے نکلا ،ٹرک سے نیچے چھلانگ لگائی اور اسی دوران مزدوروں کی آواز کے ساتھ ایک اور آواز بھی بلند ہوئی “دس روپے پیٹی”

خرم شہزاد خرم
 

بھلکڑ

لائبریرین
سب دوستوں کا شکریہ!!!!
یہ خرم بھائی نے لکھا ہے ۔۔۔۔اور محفل پر موجود نہیں تھا اس لئے شئیر کردیا!!!
:) :) :)
 
السلام علیکم،

بہت اچھی تحریر ہے اور پڑھ کا اچھا لگا افسانچہ ٹائپ۔ بس ایک دو ٹیکنیکل باتیں شئیر کروں گا، ایک تو کنٹیکٹ کو کنٹریکٹ سے تبدیل کر دیں۔ دوسرے آپ نے لکھا کہ پیٹی لے جانے والے مزدوروں کے دس روپے دیے جاتے تھے تو پھر مزدور ہی دس روپے پیٹی ، دس روپے پیٹی کیوں پکار رہے تھے کیوں کہ یہ کام تو آڑھتیوں کا ہوتا ہے، اور وہ بھی پھر ان مزدوروں میں شامل ہو کر آواز لگانے لگا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم،

بہت اچھی تحریر ہے اور پڑھ کا اچھا لگا افسانچہ ٹائپ۔ بس ایک دو ٹیکنیکل باتیں شئیر کروں گا، ایک تو کنٹیکٹ کو کنٹریکٹ سے تبدیل کر دیں۔ دوسرے آپ نے لکھا کہ پیٹی لے جانے والے مزدوروں کے دس روپے دیے جاتے تھے تو پھر مزدور ہی دس روپے پیٹی ، دس روپے پیٹی کیوں پکار رہے تھے کیوں کہ یہ کام تو آڑھتیوں کا ہوتا ہے، اور وہ بھی پھر ان مزدوروں میں شامل ہو کر آواز لگانے لگا۔
اجد میانداد بھائی بہت شکریہ غلطی کی نشاندہی سے ہی انسان سیکھتا ہے
کنٹریکٹ تو املا کی غلطی ہے اور دس روپے پیٹی مزدور لیتے ہیں۔ جو سین آپ بتا رہے ہیں وہ آڑھیتوں کا ہی ہوتا ہے لیکن جس سین کی میں نے بات کی ہے وہ کسی حد تک ایسا ہی ہوتا ہے جہاں پیٹیوں کی بولی لگتی ہے وہاں دس روپے پیٹی کچھ مزدور آواز لگاتے ہیں۔ آخر میرا بھی کچھ تجربہ ہے میرے بھائی جان:p
 

باباجی

محفلین
بہت خوب
خرم شہزاد خرم بھائی نے اپنے تجربہ اور احساسات کو مختصر افسانہ کی شکل میں بیان کیا ہے
اور یقیناً بہت پراثر بیان کیا ہے کہ اس کی تشریح کی جائے تو بہت سے صفحات چاہیے ہوں گے
 
Top