دسمبر

imsabir

محفلین
افسوس اس نے میرا نام تک بھلا دیا
اس سال دسمبر نے بے حد رُلا دیا
ہر سال دسمبر میں برستا رہا پانی
اس سال دسمبر نےبھی آنسو بہا دیا
اب اجنبی سا لگتا ہے ہر شخص مجھے کیوں
بازار عشق نے مجھے کس سے ملا دیا
اِس سَرد رات میں بھی تپش تن بدن میں ہے
تیری جدائی نے مجھے ایسا جلا دیا
چادر وفا کی اوڑھ کر خود چین سے سوئے
تنہائی کے تکئیے پہ مجھے تنہا سُلا دیا
آنسو کے سمندر مجھے تحفے میں دے دیئے
میری وفا کا تو نے کیا اچھا سِلا دیا
رکھا تھا سال بھر جسے عظمت سنبھال کر
آتے ہی دسمبر نے وہ دریا بہا دیا
 
Top