فیض دست تہ سنگ آمدہ - فیض احمد فیض

دست تہ سنگ آمدہ

بیزار فضا ، درپے آزار صبا ہے
یوں ہے کہ ہر اک ہمدمِ دیرینہ خفا ہے

ہاں بادہ کشو آیا ہے اب رنگ پہ موسم
اب سیر کے قابل روش آب و ہوا ہے

امڈی ہے ہر اک سمت سے الزام کی برسات
چھائی ہوئی ہر دانگ ملامت کی گھٹا ہے

وہ چیز بھری ہے کہ سلگتی ہے صراحی
ہر کاسہء مے زہرِ ہلاہل سے سوا ہے

ہاں جام اٹھاؤ کہ بیادِ لبِ شیریں
یہ زہر تو یاروں نے کئی بار پیا ہے

اس جذبہء دل نہ سزا ہے نہ جزا ہے
مقصود رہِ شوق وفا ہے نہ جفا ہے

احساس غم دل جو غم دل کا صلہ ہے
اس حسن کا احساس ہے جو تیری عطا ہے

ہر صبح گلستاں ہے ترا روئے بہاریں
ہر پھول تری یاد کا نقشِ کفِ پا ہے

ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم
ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے

ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
ہر حرف تمنا ترے قدموں کی صدا ہے

تعزیرِ سیاست ہے نہ غیروں کی خطا ہے
وہ ظلم جو ہم نے دل وحشی پہ کیا ہے

زندان رہ یار میں پابند ہوئے ہم
زنجیر بکف ہے نہ کوئی بند بپا ہے

مجبوری و دعویٰ گرفتاری الفت
دست تہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے

فیض احمد فیض​
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ سبحان اللہ واہ واہ ،۔ کیا عمدہ کلام پیش کیا ہے جناب ، بہت شکریہ سخنور صاحب ، سدا خوش رہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
سبحان اللہ سبحان اللہ واہ واہ ،۔ کیا عمدہ کلام پیش کیا ہے جناب ، بہت شکریہ سخنور صاحب ، سدا خوش رہیں

جناب میں نے نہیں پیاسا صحرا نے پیش کیا ہے۔ میں فیض کا کلام اس لئے شئیر نہیں کرتا کہ اردو محفل میں پہلے ہی فیض کی تین کتب وہاب صاحب برقیا چکے ہیںَ
 
Top