درِ علی پہ سر اس خاکسار کا پہنچا - تعشق لکھنوی (سلام)

حسان خان

لائبریرین
درِ علی پہ سر اس خاکسار کا پہنچا
دماغ عرش پہ مشتِ غبار کا پہنچا

عطا ہو ساغرِ کوثر لبالب اے ساقی
کہ دم لبوں پہ ترے بادہ خوار کا پہنچا

ادھر جواں ہوئے اکبر ادھر اجل آئی
پیام ساتھ خزان و بہار کا پہنچا

کہاں یہ نشۂ غفلت لحد میں او غافل
بہت قریب زمانہ اتار کا پہنچا

نجف میں، ماریہ میں، طوس میں، مدینے میں
کہاں کہاں نہ دل اس بے قرار کا پہنچا

بنا وہ راکبِ دوشِ رسول مسجد میں
رکاب تک نہ قدم جس سوار کا پہنچا

عیاں ہوئی سحرِ قتل سب کمر باندھیں
یہ حکم امامِ غریب الدیار کا پہنچا

ادھر جو تحفۂ دعوت سے دستِ پاک کھنچا
ادھر سے ہاتھ شہِ ذوالفقار کا پہنچا

میں بوتراب کو دیکھ اے زمیں پکاروں گا
جو میرے جسم کو صدمہ فشار کا پہنچا

بڑھے ادھر سے فرشتوں کے غول مجرے کو
براق ادھر سے مرے شہسوار کا پہنچا

ترے کرم سے لنڈھاؤں گا ساقیا مئے خلد
قریب دور ترے بادہ خوار کا پہنچا

ہوا لگی جو پھریرے کی ہل گیا طوبیٰ
نشاں جو رن میں شہِ نامدار کا پہنچا

چمن حُسین کا لوٹا گیا ہزار افسوس
مراد پر جو زمانہ بہار کا پہنچا

ترے ثبات پہ ہنستی ہے موت اے غافل
یہ حال زندگیِ مستعار کا پہنچا

چلی جو خاک مری اڑ کے سوئے دشتِ نجف
تو ساتھ وہم نہ بادِ بہار کا پہنچا

ہمیں بھی بادۂ خمِ غدیر اے ساقی
ادھر بھی جام مئے خوشگوار کا پہنچا

ظہور کیجیے جلدی تعشق آخر ہے
حضور حال یہ اب جاں نثار کا پہنچا
(تعشق لکھنوی)
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
کیا خوب سلام کہا گیا ۔
حق قبول فرمائے آمین
ترے ثبات پہ ہنستی ہے موت اے غافل
یہ حال زندگیِ مستعار کا پہنچا
 
Top