جاوید اختر درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں از جاوید اختر

نیرنگ خیال

لائبریرین
درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں​
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں​
چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں مرے خواب مگر​
میری دیواروں سے ٹکراکے بکھر جاتے ہیں​
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی​
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں​
راسته روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے​
کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں​
نرم آواز، بھلی باتیں، مہذب لہجے​
پہلی بارش میں ہی یہ رنگ اُتر جاتے ہیں​
 

محمداحمد

لائبریرین
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی​
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں​
واہ بہت خوب غزل ہے۔​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
Top