درد و درمان خوبصورت ہے۔ اختر ضیائی

شیزان

لائبریرین

درد و درمان خوبصورت ہے
کل کا پیمان خوبصورت ہے

جس کے ملنے کی اب نہیں اُمید
اس کا ارمان خوبصورت ہے

ساتھ دیتا ہے وحشتِ دل کا
چاکِ دامان خوبصورت ہے

حُسن کردار سے ہے ناواقف
کتنا نادان خوبصورت ہے

جھوٹ گو مصلحت نواز سہی
سچ کی پہچان خوبصورت ہے

کاش گھر بھی اسی طرح ہوتا
جیسا مہمان خوبصورت ہے

اک غزل اُن کے نام کرنے سے
سارا دیوان خوبصورت ہے

عشق کی بارگاہ میں اکثر
دل کا فرمان خوبصورت ہے

کھیت بھی ہیں مگر کچھ ان کے سوا
دستِ دہقان خوبصورت ہے

اس بھری کائنات میں اختر
نقشِ انسان خوبصورت ہے


اختر ضیائی
 
Top