دردِ محبت

فرذوق احمد

محفلین
وہ آج بھی ان یادوں سے اسی طرح بندھا تھا جس طرح پانچ سال پہلے ۔ پھر اس نے ٹیبل پر سے پانی گلاس اٹھایا جو اسکے پاس ہی رکھا تھا۔پھر وہ پانی پیتا ہوا کھڑکی پاس جاکر باہر کا نظارہ دیکھنے لگا ۔موسم کافی اچھا ہورہا تھا ۔ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی ۔وہ کرسی کھینچ کر کھڑکی کے پاس ہی بیٹھ گیا۔اور ٹیپ لگا کر سننے لگا ،، جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے ۔مہدی حسن کی یہ غزل لگا کر وہ اپنی پچھلی زندگی میں کھو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہار کا موسم تھا ۔۔تھا ۔ہر دن اپنی رفتار سے گزرتا جا رہا تھا ۔۔پھر ایک دن ایسا ہوا کے وقت کی رفتار کم ہو گئی ۔ہر طرف مایوسی کا عالم شروع ہو گیا ۔۔بہار میں بھی خزاں کا احساس ،لوگ کہتے ہیں جب محبت ہوتی ہے تو ہر چیز اچھی لگتی ہے ۔۔مگر اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا وہ ان سب کے برعکس تھا ۔
اس دن بھی بارش ہورہ تھی ،،جب ایک ایک چاند سا چہرہ اس کی نطروں کے سامنے آیا ۔کچھ دیر کے لیے تو وہ اس حقیقت کو خواب سمجھ بیٹھا ،مگر جیسے ہی اس کے دوست عاصم نے پکارہ تو ایک دم سے چونک گیا ،اور اس کو احساس ہوا کے یہ خواب نہیں ایک خوبصورت حقیقت ہے ۔۔کالج کے سب لڑکے اس لڑکی کی طرف دیکھ رہے تھے ،اور ٹھنڈی آہیں بھر رہیں تھے ۔۔مگر وہ ان سب سے بے خبر اس کی ماصومیت پر ہی فدا ہوئی جا رہا تھا ۔۔
پھر اسے یاد آیا کے کسی نے مجھے پکارا ہیں اور جلدی سے اپنے دوست عاصم کے پاس پہنچ گیا ۔
اور عاصم نے بھی وہی کہاں جو وہ جاننا چاہتا تھا ۔۔
یار احسن یہ لڑکی دیکھ رہا ہیں ابھی کل ہی کالج میں نئی آئی ہے ۔اور ہماری ہی کلاس فیلوہے،،اسے یہ سن کر خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی ہوا،دکھ اس لیے ہوا کے کل وہ کالج نہیں آیا تھا ۔۔
اچھا عاصم اس کا نام کیا ہے ۔۔۔
اور عاصم نے بتایا کہ اس کا نام ۔گلناز ہے ،،اور بہت امیر خاندان کی ہے لڑکی ہے ،مجھے صباء نے بتایا ہیں ۔۔صباء بھی عاصم اور احسن کی اچھی دوست تھی ۔۔
احسن نے یہ باتیں سنی اور پریشان ہو گیا کیونکہ وہ خود ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔۔،خیر اسی طرح دن گزرتے گئے۔اور گلناز بھی سب کے ساتھ گھل مل گئی ۔مگر احسن کو لگتا تھا کہ گلناز بہت مغرور لڑکی شاید وہ اپنی کم ظرفی کی وجہ سے یہ سوچتا تھا یا پھر وہ یہ محسوس کرتا تھا ۔۔پھر کالج میں پیپر شروع ہو گئے ،اور احسن اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا ۔۔اس کے دوستوں نے احسن کو پارٹی دینے کہاں اوروہ مان گیا ۔۔اگلے دن پارٹی میں اس کے سب دوست جن میں گلناز بھی شامل تھی پارٹی میں شرکت کی ۔پھر آخر میں سب نے اس کو گفٹ دیے ۔۔لیکین گلناز ایک چھوٹا سے پین گفٹ کیا ،،جیسے احسن نے یوں محسوس کیا ۔کہ جیسے اس نے میری غریب ہونے کا تعنہ مارا ہوں ،، پھر وہ اس بات کو بھول گیا اور سوچا آج میں گلناز سے اپنے پیار کا اظہار کر کے ہی رہوں گا ،مگر بہت کوشش کے باوجود بھی وہ اظہار نہ کر سکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اچانک دراوزے پر دستک ہوئی اور وہ اپنے سوچوں کے حصار سے باہر آیا ،کمرے میں داخل ہونے والی اس کی بیوی نگہت تھی ۔۔
اس نے اپنی بیوی سے کہاں بھئی میری الماری کی چابیاں کہاں ہیں،،، نگہت نے الماری کی چابیاں اس کے ہاتھ میں دی اور کمرے سے باہر چلی گئی
۔۔
آج اسے گلناز بہت یاد آرہی تھی ،،،سو اس نے اپنی الماری کھولی اور پرانی چیزیں دیکھنے لگا ،،جس میں گلناز کا دیا ہوا پین بھی تھا ،،اس نے ان پانچ سالوں میں پین سے اس لیے نہیں لکھا تھا کہ گلناز مجھے میری غریب ہونے کا تعنہ مارا ہیں ۔مگر نہ جانے کیوں آج اسکا اس پین سے لکھنے کو کیوں دل چا رہا تھا ۔۔
مگر جب اس نے پین کا کیپ کھلولا تو اس میں نِب کی جگہ ایک کاغذ تھا ،وہ تھوڑا سا حیران ہوا ،اور اس کاغذ کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب اس نے لفافی دیکھا تو ،اپنے حواس کھو بیٹھا ،،،،،،،گلناز نے اپنے پیار کا اظہار اس سے بہت پہلے کر دیا تھا
 
Top